‘پاکستان کے آئین کی 26ویں ترمیم: اہمیت اور اثرات’
چھبّیسویں آئینی ترمیم کی افادیت اس کے توازن، شفافیت اور ادارہ جاتی ہم آہنگی پر منحصر ہے:قانونی ماہرین
پاکستان کے آئین میں 26ویں ترمیم طویل مدتی چیلنجز سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے، بشرطیکہ شفافیت، شمولیت، اور ادارہ جاتی ہم آہنگی کو ترجیح دی جائے۔ جہاں آئینی معاملات میں بحث ناگزیر ہے اور عدالتی آزادی اور پارلیمانی نگرانی کے درمیان ایک اہم توازن موجود ہے، وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ اس ترمیم کا تنقیدی جائزہ لیا جائے تاکہ قانون کی ترقی، آئینی اصولوں، اور مؤثر انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے۔
یہ باتیں قانونی ماہرین اور محققین نے 27 نومبر 2024 کو ‘پاکستان کے آئین کی 26ویں ترمیم: اہمیت اور اثرات’ کے عنوان سے ہونے والے ایک گول میز اجلاس میں بیان کیں جو انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس)، اسلام آباد میں منعقد ہوا۔
اجلاس کی صدارت سپریم کورٹ کے وکیل احمد بلال صوفی نے کی، جب کہ اس سے خطاب کرنے والوں میں چیئرمین آئی پی ایس خالد رحمٰن، وزارت قانون و انصاف سے جام محمد اسلم، سپریم کورٹ کے وکیل سید احمد حسن شاہ، شریعہ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے حافظ احمد وقاص، اور آئی پی ایس کے ریسرچ فیلو ڈاکٹر شہزاد اقبال شام شامل تھے۔
26ویں ترمیم کا جائزہ پیش کرتے ہوئے جام اسلم نے اس بات پر زور دیا کہ 26ویں ترمیم کے تحت آئینی اسکیم میں تبدیلیوں کے لیے مناسب غور و خوض کیا گیا تھا۔ اہم نکات میں سپریم کورٹ اور ہائیکورٹس میں خصوصی آئینی بینچز کا قیام اور چیف جسٹس کی تقرری کے عمل کی دوبارہ تشکیل شامل تھی۔ مزید برآں، ترمیم نے ہائیکورٹ کے ججز کے لیے کارکردگی کے جائزے متعارف کرائے، ہائیکورٹ کے ججز کی تقرری کے لیے عمر کی حد کو 40 سال تک کم کیا، اور وفاقی شریعت کورٹ کے ججز کو سپریم کورٹ میں ترقی دینے کی اجازت دی۔
احمد حسن نے ترمیم کے ارد گرد جاری بحث پر روشنی ڈالی اور اس بات پر زور دیا کہ آئینی بنچوں کی تشکیل پاکستان کے عدالتی منظر نامے میں ایک متنازعہ اور ارتقائی عمل ہے۔انہوں نے کہا کہ ایک "ہم خیال” عدلیہ انصاف کے معیار پر سمجھوتہ کرتے ہوئے اپنی ساکھ کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ انہوں نے سپریم کورٹ کی سطح پر مقررہ آئینی بنچوں کی ضرورت پر زور دیا جس میں تمام صوبوں اور اسلام آباد کی واضح نمائندگی ہو۔ انہوں نے یہ بھی تجویز دی کہ مقدمات کو ان کی نوعیت کے مطابق تقسیم کیا جائے — جیسے کہ فوجداری، کارپوریٹ یا آئینی مقدمات— تاکہ عدالتی وضاحت اور یکسانیت کو یقینی بنایا جا سکے۔
انہوں نے ذاتی یا سیاسی مفادات کی بنا پر ترامیم کے خلاف خبردار کیا اور متحد کیس مینجمنٹ اور ادارہ جاتی شفافیت پر توجہ دینے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے یہ بھی خبردار کیا کہ عدلیہ اور پارلیمنٹ کے درمیان طاقت کے تنازعے کا بڑھتا ہوا تاثر ملک کو ادارہ جاتی بحران کی طرف دھکیل سکتا ہے، جس سے بچنے کے لیے محتاط اصلاحات اور اتفاق رائے کی تشکیل ضروری ہے۔
احمد بلال صوفی نے تمام اسٹیک ہولڈرز سے کہا کہ وہ عالمی سطح پر عدلیہ کی آزادی پر ترمیم کے اثرات کو واضح کریں۔ انہوں نے سو موٹو کی بنیاد پر مقدمات کی سماعت کے انتظامی کارکردگی پر منفی اثرات کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا اور آئندہ کے لیے ایک متوازن طریقہ اختیار کرنے کی سفارش کی۔
احمد وقاص نے وفاقی شریعت کورٹ سے متعلق فیصلوں میں ترمیم کی اہم پیش رفت کو اجاگر کیا جن میں خاص طور پر قوانین کی اسلامائزیشن اور ربا کے خاتمے کے حوالے سے بات کی۔ انہوں نے اس ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے پارلیمانی فورمز کو مضبوط کرنے کا مطالبہ کیا۔
اپنے اختتامی کلمات میں خالد رحمٰن نے زور دیا کہ آئینی پیش رفت میں بحث ناگزیر ہے۔ انہوں نے ترامیم کے نفاذ کے عمل کو تیز کرنے میں احتیاط برتنے کی ضرورت پر زور دیا ، اور کہا کہ اس میں پارلیمانی بحث اور عوامی مشاورت کو ترجیح دینی چاہیے۔ رحمٰن نے ترمیم کے مثبت اور منفی پہلوؤں کا جامع جائزہ لینے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ مستقبل میں قانون سازی کی بہتری کی راہ ہموار کی جا سکے اور مؤثر اور متوازن اصلاحات کو یقینی بنایا جا سکے۔
جواب دیں