‘جیو پولیٹیکل امپریٹیوز: طالبان کے بعد کے دور میں پاکستان-افغانستان تعلقات کی ازسرِ نو تعریف’
پاک افغان تعلقات کی تشکیل نو کے لیے قانون کی حکمرانی اور گورننس پر مبنی نقطہ نظر اپنانا ضروری قرار
پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کی تنظیم نو کے لیے قلیل مدتی پالیسیوں کی بجائے ایک جامع، اسٹریٹیجک اور گورننس پر مبنی نقطہ نظر اپنانے کی ضرورت ہے۔ چونکہ قانون کی حکمرانی کی کمزوری اور تفرقہ انگیز بیان بازی سے بداعتمادی اور عدم استحکام پیدا ہوتا ہے، اس لیے اس نقطہ نظر میں ایک دوسرے کی خودمختاری کو تسلیم کرنے، فرقہ وارانہ بیانیوں کی نفی، قانون کی حکمرانی کی بحالی، قانون کے نفاذ میں عوامی ملکیت اور اور ادارہ جاتی نظام کو ترجیح دینا ضروری ہے۔
ان خیالات کا اظہار افغانستان میں پاکستان کے سابق خصوصی نمائندے سفیر (ر) آصف درانی نے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) میں 31 جنوری 2025 کو ‘جیو پولیٹیکل امپریٹیوز: طالبان کے بعد کے دور میں پاکستان-افغانستان تعلقات کی ازسرِ نو تعریف’ کے عنوان سے ہونے والی ایک تقریب میں اپنے کلیدی خطاب کے دوران کیا۔
اس نشست سےچئیرمین آئی پی ایس خالد رحمٰن، ، دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) سعد نذیر، جی آئی زی میں پالیسی ایڈوائیزر نورالعیٰن نسیم، یونیورسٹی آف ٹرومسو، ناروے کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر فرحت تاج، ایمبیسیڈر (ر) سیّد ابرار حسین، ایمبیسیڈر (ر) ایاز وزیر، تجزیہ نگار ڈاکٹر لطف الرحمٰن ، اور دیگر تعلیمی ماہرین، سابق افسران اور پالیسی ماہرین نے خطاب کیا۔
سفیر (ر) آصف درانی نے اجاگر کیا کہ پاکستان-افغانستان تعلقات میں پیچیدہ قبائلی تعلقات، سرحدی تجارت کے مسائل اور پناہ گزینوں کے انتظام جیسے جغرافیائی سیاسی چیلنجز کو روایتی سفارتکاری یا فوجی نقطہ نظر سے حل نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے بجائےاس کے حل کے لیے ایک حکومتی نقطہ نظر کی ضرورت ہے جو باہمی خودمختاری کو تسلیم کرنے اور علاقائی پیچیدگیوں کے ایک جامع فہم پر مبنی ہو تاکہ اس دوطرفہ تعلقات میں دیرپا استحکام حاصل کیا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ قانون کی حکمرانی کا خاتمہ، جو 1990 کی دہائی کی جنگی معیشت کی وجہ سے ہوا تھا اور جس نے صدیوں پرانے تجارتی اور کمیونٹی تعلقات کو متاثر کیا، پاکستان-افغانستان تعلقات میں عدم استحکام کا ایک اہم عنصر ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ حکومتی ناکامیوں، بدعنوانی، اور مہاجرین کی پالیسیوں، سرحدی حفاظت، اور ٹرانزٹ ٹریڈ جیسے شعبوں میں بدانتظامی نے لاقانونیت کو مزید گہرا کر دیا ہے، جس سے ادارہ جاتی تنظیم نو ضروری ہو گئی ہے۔ استحکام بحال کرنے کے لیے انہوں نے ادارہ جاتی اصلاحات، پولیس فورس کو بااختیار بنا کر قانون نافذ کرنے میں بہتری، اور حکومتی میکانزم میں عوامی ملکیت کو فروغ دینے کی فوری ضرورت پر زور دیا۔
دورانی نے سیاسی بیانیوں کے منفی اثرات پر بھی روشنی ڈالی جو عدم اعتماد کو بڑھاتے ہیں، جس کے نمایاں اثرات عوامی تعلقات اور اقتصادی تعاون پر پڑتے ہیں۔ افغانستان کی پاکستان کے ذریعے تجارت پر انحصار کو مدنظر رکھتے ہوئے انہوں نے قیادت اور عوامی سطح پر ایک عملی نقطہ نظر اپنانے کی ضرورت پر زور دیا، جو فرقہ وارانہ بیانیوں کی نفی کرے اور دوطرفہ تعلقات کو ایک اسٹریٹیجک طاقت کے طور پر دیکھے۔
اس کی توثیق کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات طویل عرصے سے محاذ آرائی اور خوشامد کے درمیان اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں، جن میں سے کسی نے بھی پائیدار استحکام نہیں دیا۔ اس کے لیے ایک زیادہ متوازن حکمت عملی کی ضرورت ہے جو ڈیٹرنس، ترقی اور روابط کو مضبوط کرے۔
پینلسٹس نے علاقائی نقطہ نظر کی اہمیت پر بھی زور دیا جس میں افغانستان کے ہمسایہ ممالک تجارت، سرحدی انتظام اور عوامی رابطے میں زیادہ کردار ادا کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس طرح یہ یقینی بنایا جا سکتا ہے کہ افغانستان ایک وسیع تر علاقے کے ساتھ تعمیری طور پر منسلک رہے۔
مقررین نے پاکستان-افغانستان پالیسی پر منظم عوامی بحث کی کمی کو بھی اجاگر کیا۔ انہوں نے تعلیمی مشغولیت اور تحقیق پر مبنی پالیسی سازی کی ضرورت پر زور دیا تاکہ طویل مدتی اور معلومات پر مبنی حکمت عملی تیار کی جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ دونوں فریقین کو کسی بھی پالیسی فریم ورک میں تاریخی پیچیدگیوں کو تسلیم کرنا چاہیے تاکہ ایک عوامی نقطہ نظر اپنایا جا سکے جو ردعمل کے سیاسی چالاکی سے آگے بڑھے اور باہمی اعتماد کو فروغ دے۔
اختتامی کلمات میں خالد رحمٰن نے کہا کہ الزام تراشی کا کھیل غیر نتیجہ خیز ہے اور یہ طویل المدتی مسائل کو حل نہیں کرتا۔ انہوں نے کہا کہ خراب حکمرانی دوطرفہ چیلنجز کی جڑ ہے اور اگر اس بنیادی مسئلے کو حل نہ کیا گیا تو پالیسی کے اقدامات غیر موثر رہیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ باہمی طاقتوں پر مرکوز ایک مثبت بیانیہ تشکیل دینا انتہائی اہم ہے۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کو اچھی حکمرانی، ادارہ جاتی استحکام اور واضح قومی بیانیہ کو ترجیح دینی چاہیے تاکہ علاقائی استحکام اور تعاون کو فروغ دیا جا سکے۔
جواب دیں