سیمینار: کشن گنگا ایوارڈ کا تجزیہ
پانی کے مسائل کے حل کے لیے عالمی ثالثی کے موقع پر پاکستان کو جس چیز کی سنگینی کا شدت سے سامنا کرنا پڑا وہ پانی کے وسائل کے استعمال پر ایسے قومی اعدادو شمار کی کمی کا تھا جو عالمی معیار پر پورا اترتے ہوں۔ کشن گنگاہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹ (KHEP)ایوارڈ کے معاملے میں پاکستان پانی کی تقسیم میں زیادہ حصہ وصول کرنے کی پوزیشن میں ہوتا اگر اس نے ماحولیات، پن بجلی کے استعمال اور زراعت پر عالمی معیار کے اعدادو شمار کو مقدمے کا حصہ بنایا ہوتا۔ اس صورت میں ثالثی کی مستقل عدالت (PCA)میں پیش کیے جانے والے اپنے مقدمے میں پاکستان پانی کے بہائو کا اس سے زیادہ حصہ وصول کر لیتا جو 9کیومکس (کیوبک میٹر فی سیکنڈ) کی صورت میں اسے ملا ہے۔
اس بات پر سیمینار کے تمام شرکاء کا اتفاقِ رائے تھا جو ’’کشن گنگا ایوارڈ کا تجزیہ‘‘ کے عنوان سے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد میں 16جنوری 2014ء کو منعقد ہوا۔ سیمینار کا مقصد ثالثی کی عالمی عدالت(PCA)کے دئیے گئے حالیہ فیصلے کا تنقیدی جائزہ لینا تھا جس سے پاکستان کے پانی کے تحفظ اور سلامتی کے دُور رَس اہمیت رکھنے والے معاملات وابستہ ہیں۔
سیمینار میں صدارت کے فرائض آئی پی ایس کی نیشنل اکیڈمک کونسل کے رکن اور سابق سیکرٹری وزارت پانی و بجلی مرزا حامد حسن نے ادا کیے۔ مقررین اور موضوع پر گفتگو کرنے والے دیگر افراد میں کشن گنگا کے مقدمے میں پاکستان کے تکنیکی ماہر ڈاکٹر گریگوری ایل مورس، سابق وفاقی سیکرٹری وزارت پانی و بجلی اشفاق محمود، ڈائریکٹر جنرل آئی پی ایس خالد رحمن، پاکستان ٹرانس بائونڈری واٹر آرگنائزیشن کی سینئر کنسلٹنٹ شمائلہ محمود اور آئی پی ایس کے سینئر ایسوسی ایٹ کمانڈر (ریٹائرڈ) اظہر محمود شامل تھے۔ سیمینار میں ماہرین کی کثیر تعداد، محققین، سفارت کاروں، صحافیوں اور اس شعبے سے متعلق سرکاری افسروں نے شرکت کی۔
ماہرین اس بات پر متفق تھے کہ اگلے سات سال میں اس کے علاوہ کوئی طریقہ کار نہیں ہے جو ثالثی کی مستقل عدالت نے متعین کیا ہے۔ جس کے تحت پاکستان یا بھارت کی درخواست پر سندھ کمیشن کے ذریعے سندھ طاس معاہدے کے طے کردہ طریقۂ کار کے مطابق اس ایوارڈ پر نظرثانی کی جاسکتی ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ اب جنگی بنیادوں پر پانی کے ذخیروں کی منصوبہ بندی کر کے ان کی تعمیر کرے اور اداروں کی صلاحیتوں کو مضبوط کرے بالخصوص ماحولیات، پن بجلی اور زراعت کے شعبوں میں اعدادو شمار کو تکنیکی بنیادوں پر عالمی معیار کے مطابق اکٹھا کرنے کی صلاحیت کو ترقی دے تاکہ سندھ طاس معاہدے کے مطابق اپنے جائز حق کو منوا سکے۔
کشن گنگا ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹ کیس کی تاریخ کا جائزہ پیش کرتے ہوئے شمائلہ محمود نے شرکاء کو بتایا کہ پاکستان نے 1980ء کی دہائی کے آخر میں یہ ثبوت حاصل کیا کہ بھارت کشن گنگا/نیلم کے دریا کا رخ موڑنے کا منصوبہ رکھتا ہے تاکہ اس سے بجلی کی پیداوار کا مقصد حاصل کیا جاسکے۔ پاکستانی کمشنر برائے سندھ طاس نے 14دسمبر1986ء کو درخواست کی کہ بھارت اس منصوبے کے بارے میں اطلاعات فراہم کرے۔ دونوں کمشنروں کے درمیان اُس وقت خط و کتابت کا آغاز ہوا جب 12مئی 1989ء کو بھارتی کمشنر نے پاکستانی کمشنر سے درخواست کی کہ وہ اس پانی کے پاکستان کی زراعت اور پن بجلی میں استعمال کی تفصیلات فراہم کرے کیونکہ معاہدے کا ضمیمہ ای ایسے کسی ذخیرے کو ڈیزائن کر کے روبہ عمل ہونے سے نہیں روکتا تا وقت کہ اس سے اُس موقع پر موجود زراعت اور پن بجلی کے استعمال پر منفی اثر پڑتا ہو۔ بھارتی کمشنر نے 2جون 1994ء کو معاہدے کے ضمیمہ ای کے پیرا گراف 12کے تحت کشن گنگا ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹ کی تفصیلات بھی فراہم کردیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ دونوں کمشنروں کے درمیان خط و کتابت جاری رہی اور 1991ء اور 1996ء میں معائنہ کے لیے وادی نیلم کے دورے کا اہتمام کیا گیا جس کے بعد بھارتی کمشنر نے اپنے دعوے پر زور دینے کے لیے یہ حجت تراشی کہ نیلم جہلم ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹ کا موجودہ حالت میں کوئی استعمال نہیں کیو نکہ یہ صرف تجویز کردہ پراجیکٹ ہے اور اس بات کا کم ہی امکان ہے کہ اس کا استعمال وادی میں کسی قسم کی زراعت کے لیے ہو۔ 2004ء اور 2005ء میں یہ مسئلہ کمیشن کے اجلاسوں میں زیر بحث رہا لیکن دونوں فریق کسی سمجھوتے پر نہ پہنچ سکے۔ 7جنوری 2006ء کو پاکستانی کمشنر برائے سندھ طاس نے بھارتی کمشنر کو یہ اطلاع دی کہ اس کے خیال میں یہ معاملہ ایک تنازعہ کی نوعیت اختیار کرگیا ہے اور 26مارچ 2006ء کو ایک ڈرافٹ رپورٹ بھارتی کمشنر برائے سندھ طاس کو فراہم کی تاکہ انہیں دونوں متعلقہ حکومتوں کو بھیجا جاسکے۔ 20اپریل2006ء کو بھارتی کمشنر نے پاکستانی کمشنر برائے سندھ طاس کو مطلع کیا کہ کشن گنگا ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹ کو آرٹیکل تھری (ٹو)(ڈی) اور ضمیمہDکے تحت دریا کی گزرگاہ پر بنائے جانے والے پن بجلی کے پلانٹ کی شکل میں نئے سرے سے تشکیل دے دیا گیا تھا۔ اس طرح اسے ایک تنازعہ کی صورت دینے کی اب کوئی حیثیت نہیں رہی۔
پاکستان کمشنر برائے سندھ طاس نے بھارت کمشنر برائے سندھ طاس کو اس ازسر نو تشکیل دیئے جانے والے منصوبے پر اپنے تحفظات سے آگاہ کیا جسے بھارتی کمشنر نے رد کردیا۔ پاکستان کے اعتراضات پر 2007ء سے 2009ء کے دوران ہونے والے 4اجلاسوں میں بحث ہوئی لیکن بات کسی سمجھوتے پر نہ پہنچ سکی۔ چنانچہ 10جولائی 2009ء کو پاکستان نے بھارت کو دعوت دی کہ اس تنازعہ کو معاہدے کی صورت میں حل کر لیا جائے۔ 17مئی 2010ء کو پاکستان نے ثالثی کی کارروائی کا آغاز کیا۔
مقررین کے مطابق ثالثی میںدو اہم قانونی سوالات یہ تھے کہ آیا دریائے کشن گنگا (نیلم) کا بھارتی تجویز کردہ نیا رخ ایک اور معاون دریا ہوگا یعنی بونار مدھ متی نالہ جو کہ کشن گنگا پلانٹ کا ایک مرکزی عنصر ہے۔ بین الاقوامی قانون کے تحت پاکستان اور بھارت کے درمیان معاہدے کے اطلاق کی وضاحت کو دیکھا جائے تو یہ پہلو پاکستان کی جانب سے بھارت پر عائد قانونی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی ہے۔ بھارت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ آرٹیکل (2)IIIکی اس عبارت پر اپنی ذمہ د اری کا ثبوت دے (مغربی دریائوں کا تمام پانی بہنے دیا جائے گا اور ان کے پانیوں کے ساتھ کسی قسم کی مداخلت کی اجازت نہیں ہوگی)۔ اس طرح آرٹیکل (6) IV’’قدرتی راستوں کی دیکھ بھال ‘‘ کی تاکید کرتا ہے۔ دوسرا سوال یہ تھا کہ کیا معاہدے میں یہ امکان موجود ہے کہ بھارت دریا کی گزرگاہ کے منصوبے میں ماسوا کسی غیر متوقع ہنگامی صورتِ حال کے پانی کا بہائو روک سکتا ہے یا اسے انتہائی کم سطح پر لے جاسکتا ہے۔
عدالت کے تجزیہ کو معاہدہ کے علاقائی دائرہ کار کا احاطہ کرنا تھا۔ پہلا تنازعہ یہ تھا کہ بھارت نے دریائے کشن گنگا/ نیلم کے پانیوں کو کشن گنگا ہائیڈروالیکٹرک پراجیکٹ کے ذریعے ایک نئے معاون دریا کی صورت دینے کو اپنے لیے روا سمجھ لیا تھا اور دوسرا یہ کہ بھارت معاہدے میں سے گنجائش نکالتے ہوئے پانی کے ذخائر کو کم کر دینے کا جواز تلاش کر رہا تھا۔
علاقائی مسائل کے حوالہ سے سیمینار کے شرکاء کو بتایا گیا کہ بھارت نے جموںوکشمیر پر اپنے اختیار کا سوال اٹھایا تھا اور پاکستان کا دعویٰ یہ کہتے ہوئے رد کیا تھا کہ پاکستان کو نیلم جہلم ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹ میں بجلی کی پیداوار سے پیدا ہونے والے منفی اثرات پر معاہدے کو لاگو کرنے کا کوئی حق نہیں کیونکہ یہ منصوبہ پاکستان میں واقع نہیں ہے۔ عدالت نے معاہدے کے اس دائرہ اختیار کا تعین کیا کہ پاکستان کے زیرِ انتظام یا بھارت کے زیرِانتظام علاقوں میں بہنے والے پانی کا استعمال ایک طریقۂ کار پر مبنی ہے اور پاکستان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کشن گنگا ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹ پر اعتراض کے لیے معاہدے کا سہارا لے سکے۔
فیصلے کے اس حصے کا فوری اثر یہ ہوا کہ اس سے پہلے بین الاقوامی ڈونر ایجنسیاں متنازعہ علاقے میں منصوبوں کے لیے فنڈز کی فراہمی سے انکار کر رہی تھیں۔ یہ معاملہ جزوی ایوارڈ کی روشنی میں عالمی بینک کے سامنے لے جایا گیا اور اب وہ دیامیر بھاشا ڈیم کے فنڈز جاری کرنے پر آمادہ ہے جب کہ اس سے پہلے وہ اس سے انکار کر چکا تھا۔
بھارت کی طرف سے منصوبہ بندی کے ساتھ پانی کا رخ بدلنے کے پہلے سوال پر عدالت نے اس بات کا تعین کیا کہ جب کوئی پلانٹ دریائے جہلم میں آنے والی ایسی معاون ندی پر واقع ہو جس سے پاکستان میں زراعت یا پن بجلی کے منصوبے کے لیے پانی استعمال میں آرہا ہے تو ضروری سمجھنے پر پلانٹ کے نیچے سے خارج ہونے والا پانی ایک دوسری معاون ندی کو فراہم کیا جا سکتا ہے لیکن صرف اسی صورت میں کہ پہلے والی معاون ندوی سے پاکستان کے زراعتی اور پن بجلی کے استعمال میں جانے والا پانی منفی طور پر متاثر نہ ہو۔
ٹینڈرز، محفوظ سرمایہ کاری، حکومت کی منظوری، تعمیر کے جاری کام جیسے بہت سے عوامل دیکھ کر عدالت کو احساس ہوا کہ 2004ء سے 2006ء کے دوران بھارت کا کشن گنگا ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹ کی تعمیر کو اپنا حق سمجھنا رائیگاں گیا۔ بدقسمتی سے اس وقت پاکستان کے پاس دریائے نیلم پر پن بجلی کا کوئی منصوبہ موجود نہیں تھا۔ عدالت نے یہ بھی نوٹ کیا کہ پاکستان کے اعتراضات کے باعث بھارت نے ضمیمہ ای کے تحت پانی ذخیرہ کرنے کے منصوبے کو ضمیمہ ڈی کے تحت دریا کی گذرگاہ پر پانی ذخیرہ کیے بغیر پن بجلی کے منصوبے میں بدل دیا۔
دوسرے تنازعہ پر عدالت نے فیصلہ دیا کہ کسی غیر متوقع ہنگامی صورتِ حال کے علاوہ معاہدہ اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ مغربی دریائوں کی گزرگاہوں پر ذخیرہ آب کی کم سے کم لازمی ضرورت کی متعین سطح (Dead Storage Level) سے بھی کم سطح تک لے جایا جائے۔ مغربی دریائوں کی گزرگاہوں پر تعمیر شدہ ذخیروں میں تلچھٹ کے جمع ہوجانے کے باعث کوئی ایسی غیرمتوقع ہنگامی صورت حال پیدا نہیں ہو سکتی کہ اس تلچھٹ کو بہانے کے لیے ذخیرہ میں پانی کم سے کم سطح پر لے جایا جائے۔ چنانچہ اس ہدایت کے مطابق بھارت کشن گنگا ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹ کے ذخیرے میں تلچھٹ نکالنے کے لیے اس حد تک نیچے نہیں جا سکتا کہ اس سے پانی کا ذخیرہ کم سے کم متعینہ سطح سے بھی نیچے چلا جائے، جو نیچے کے بہائو اور استعمال کے لیے ضروری ہے۔
تنازعہ کے تعین کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے ماہرین نے کہا کہ اس نے بگلیہار کے معاملے میں غیر جانب دار ماہرین کے فیصلے کو پسِ پشت ڈال دیا ہے جس کے نتیجے میں ہوا یہ کہ گویا متاثرہ پارٹیوں کے درمیان نئے سرے سے مذاکرات کا آغاز ہوئے بغیر ہی معاہدے کو ازسرنو لکھ دیا گیا۔ اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ غیرجانب دار ماہرین کے فیصلے نے بھارت کو یہ اجازت دے دی تھی کہ وہ معاہدے کے مطابق لائیو سٹوریج کی حد کو ختم کرکے پانی کے بہائو پر مکمل اختیار حاصل کر لے۔
فیصلے نے پاکستان کے انتہائی بنیادی نوعیت کے حق کو بحال کر دیا ہے جس کے بغیر پاکستان کبھی بھی اس معاہدے تک نہ پہنچ پاتا، یعنی بھارت کو یہ کنٹرول یا صلاحیت حاصل نہیں ہونی چاہیے کہ وہ پاکستان کو ملنے والے پانی کے بہائو کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر سکے۔ سخت ڈیزائن اور آپریشنل پابندیوں کو معاہدے میں اسی لیے تحریر کیا گیا تھا کہ زراعت کے لیے انتہائی اہمیت کے دنوں میں پانی کے بہائو میں کمی یا اس کے بہائو میں اوقات کو تبدیل کرنے کے خدشات کو ختم کیا جا سکے۔
ماہرین نے بین الاقوامی ثالثی کے عمل کی تعریف کی اور اس توقع کا اظہار کیا کہ بھارت اور پاکستان اپنے دو طرفہ معاملات کو متعلقہ بین الاقوامی پلیٹ فارموں پر مذاکرات اور ثالثی کے ذریعے حل کرنے پر کاربند رہیں گے۔
نوعیت: کارروائی سیمینار
تاریخ: 16جنوری 2014ء
جواب دیں