فاٹا میں ترقیاتی اقدامات: بنیادی ڈھانچہ اور اس سے آگے
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد میں منعقدہ ایک سیمینار میں شریک ماہرین نے متفقہ طور پر اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ فاٹا میں شورش کے بعد بحالی کے عمل میں بنیادی ڈھانچے کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات میں مقامی باشندوں کو ایک حصہ دار کے طور پر شامل کیا جانا چاہیے۔
’’فاٹا میں ترقیاتی اقدامات: بنیادی ڈھانچہ اور اس سے آگے ‘‘ کے موضوع پر ہونے والے اس سیمینار کی نظامت آئی پی ایس کے سینئر ایسوسی ایٹ ایئر کموڈور (ریٹائرڈ) خالد اقبال نے کی۔ مقررین میں آئی پی ایس کے ڈائریکٹر جنرل خالد رحمن، فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن (FWO) انجینئرز گروپ کے کمانڈر بریگیڈیئر شاہد حسن علی، پاکستان اسٹڈی سنٹر پشاور یونیورسٹی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر فخر الاسلام اور بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) سید نذیر شامل تھے۔
علاقے میں FWO کی طرف سے کیے گئے بہت سے ترقیاتی منصوبوں اور اقدامات پر روشنی ڈالتے ہوئے بریگیڈیئر شاہد علی نے کہا کہ فاٹا میں 550 کلومیٹر طویل سڑک تعمیر کی گئی ہے جو کہ لاہور، اسلام آباد موٹروے سے بھی کافی زیادہ لمبی ہے۔اس سے بھی زیادہ خوش آئند منصوبہ مرکزی تجارتی کوریڈور کی تعمیر ہے یہ راستہ ڈیرہ اسماعیل خان سے شروع ہوتا ہے اور فاٹا کے اندر سے گزرتا ہوا افغانستان کو وانا کے ذریعے سے ملاتا ہے۔
اس علاقے میں دیگر منصوبوں کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جہاں گومل زیم ڈیم کی تکمیل سے ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان کے ضلعوں میں زراعت کے شعبوں کو بے پناہ فائدہ پہنچا ہے وہاں اس ڈیم سے پیدا ہونے والی بجلی جنوبی وزیرستان کے رہائشیوں کو مہیا ہو سکے گی۔
انہوں نے اس خطے میں بجلی کے ڈھانچے کو پہنچنے والے نقصان کی مرمت میں FWO کی جاری کوششوں کی تفصیل بتانے کے ساتھ ساتھ اس مقصد کے لیے وانا گرڈ اسٹیشن کی تکمیل کی تفصیلات سے بھی آگاہ کیا۔
فاٹا میں بہت سے ترقیاتی اقدامات پر گفتگو کرتے ہوئے بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) سید نذیر نے مقامی آبادی کے ساتھ مل کر ان منصوبوں کی بحالی اور دیکھ بھال پر زور دیا۔ انہوں نے حکام پر زور دیا کہ فوری طور پر ہسپتالوں، اسکولوں، یونیورسٹیوں اور اقتصادی سرگرمیوں کی تعمیر نو کے لیے ماسٹر پلان تیار کیا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو روزگار کے مواقع دستیاب ہو سکیں۔
ڈاکٹر فخر الاسلام نے علاقائی ترقی کے اقدامات میں فاٹا کے شہریوں کی شمولیت، وابستگی اور شرکت کولازمی بنانے پر زور دیا۔ انہوں نے مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ان منصوبوں کے لیے سوشل آڈٹ اور معاشی اثرات کا جائزہ (Economic Input Assessment) لینے کے اقدامات بھی کیے جائیں۔
فاٹا سے رکن قومی اسمبلی اجمل خان وزیر نے اس علاقے میں FWOکے ترقیاتی اقدامات پر رائے دیتے ہوئے کہا کہ فاٹا کے رہائشیوں کی ایک بڑی تعداد تجارت اور ٹرانسپورٹ کی صنعت سے وابستہ ہے چنانچہ مقامی بنیادی ڈھانچے کی ترقی بالخصوص سڑکوں کی تعمیر اس علاقے کے لوگوں کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ انہوں نے اس ضمن میں ٹانک سے وانا تک تعمیر ہونے والی سڑک کی مثال دی جس سے نہ صرف فاصلے سمٹ گئے ہیں بلکہ اس سے مقامی لوگوں کے لیے تجارت کے نئے مواقع بھی پیدا ہوئے ہیں۔
نوعیت: روداد سیمینار
تاریخ: ۲۰ مئی ۲۰۱۴ء
جواب دیں