سیمینار: مثالی ایندھن مرکب کا حصول – ترجیحات کا تعین
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد میں ہونے والے ایک سیمینار میں ماہرین نے اس بات پر زور دیا ہے کہ پاکستان میں توانائی بحران کے حل کے لیے بجلی کی پیداوار میں ملکی وسائل کو استعمال کرنے پر توجہ مرکوز کی جائے۔ دستیاب قومی وسائل کے بھرپور استعمال کے ذریعے بجلی کی پیداوار ہماری توانائی پالیسی کی ترجیحِ اول ہونی چاہیے۔
اس سیمینار کا عنوان تھا: ’’پاکستان کے لیے مثالی ایندھن مرکب کا حصول – ترجیحات کا تعین‘‘۔ اس سیمینار سے جن ماہرین نے خطاب کیا، ان میں مرزا حامد حسن، سابق وفاقی سیکرٹری پانی و بجلی اور چیئرمین آئی پی ایس توانائی پروگرام؛ ڈاکٹر محمد بلال خان، پرنسپل، مرکز برائے انرجی سسٹم، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی؛ حماد ہاشمی، تیکنیکی مشیر یو ایس ایڈ اور امینہ سہیل، آئی پی ایس ایسوسی ایٹ اور توانائی وکیل۔ سیمینار میں توانائی کے ماہرین اور متعلقہ شعبوں کے سرکاری افسران کی قابلِ لحاظ تعداد نے شرکت کی۔
ڈاکٹر بلال نے زور دیا کہ نئے پاور پلانٹس لگانے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ پہلے سے موجود پلانٹس کو ان کی پوری صلاحیت کے مطابق چلا کر زیادہ سے زیادہ ممکن حد تک بجلی پیدا کی جائے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں لگے ہوئے پاور پلانٹس کی بجلی پیدا کرنے کی زیادہ سے زیادہ صلاحیت اکیس ہزار میگا واٹ ہے جب کہ بجلی کی زیادہ سے زیادہ کھپت کی حد چودہ ہزار میگاواٹ تک رہی ہے۔ تاہم خراب انتظام، مرمت کے ناقص اہتمام اور گردشی قرضے سے متعلق مسائل کی وجہ سے بجلی کی پیداوار کبھی بھی اپنی مکمل صلاحیت کے مطابق حاصل نہیں کی جا سکی ہے۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ گورننس کے مسائل حل نہ ہوئے تو موجودہ حکومت کے لگائے گئے نئے پراجیکٹس بھی ماضی کے پراجیکٹس کی طرح خرابی اور ناکامی سے دوچار ہوں گے کیونکہ بروقت مرمت، مسلسل نگہداری اور بحالی، ضیاع سے بچائو اور متعلقہ ضروری قواعد کی پابندی میں کوتاہی کے معاملات ابھی تک موجود ہیں۔
پروفیسر بلال نے زور دیا کہ اپنے قومی ذخائر توانائی پر انحصار کرتے ہوئے ان سے بھرپور استفادہ کرنا ہی مسئلہ کا واحد حل ہے۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (PIDE) اور آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کمپنی (OGDC) کی ایک مشترکہ حالیہ اسٹڈی کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اب بھی ہمارے ہاں ۳۶۰ ملین بیرل تیل کے ذخائر موجود ہیں، جسے نکالنے کا ابھی تک انتظام نہیں ہو سکا ہے۔
انہوں نے ملکی قومی وسائل کے ذریعے ایتھنول، بائیو ڈیزل اور کوئلہ کو ڈیزل میں تبدیل کرنے کے امکانات سے بھرپور استفادہ کرنے کی وکالت کی۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (NUST) پہلے ہی پاکستان میں ایسا پہلا پلانٹ تعمیر کر چکی ہے جس نے چند ہفتہ قبل کوئلہ کو ڈیزل میں تبدیل کرنے کے تجرباتی مرحلہ کو کامیابی سے طے کر لیا ہے۔
مرزا حامد حسن نے اپنے صدارتی کلمات میں کہا کہ کسی بھی ملک کا مثالی ایندھن مرکب وہ ہو گا جو اس ملک کے اپنے انسانی اور قدرتی وسائل اور اپنے ماہرین کی فنی اور انتظامی صلاحیتوں کے بہترین استعمال سے ترتیب پائے۔ انہوں نے آبی وسائل سے بجلی کی پیداوار کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کی حمایت کی اور اس تصور کو غلط فہمی قرار دیا کہ یہ مہنگا سودا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بڑے ڈیم کثیرالمقاصد ہوتے ہیں، یہ بنیادی طور پر پانی کا ذخیرہ کرنے کے مقصد سے بنائے جاتے ہیں اور بجلی کی پیداوار ان کا ضمنی فائدہ ہوتا ہے۔ اس طرح بالآخر بجلی کی لاگت کے لحاظ سے یہ کم خرچ ہیں۔
نوعیت: روداد سیمینار
موضوع: پاکستان میں مثالی ایندھن مرکب کا حصول – ترجیحات کا تعین
تاریخ: ۱۶ اکتوبر ۲۰۱۴ء
جواب دیں