بحیرہ جنوبی چین: ابھرتا ہوا منظر نامہ- ایک پاکستانی نقطہ نظر

south china

بحیرہ جنوبی چین: ابھرتا ہوا منظر نامہ- ایک پاکستانی نقطہ نظر

 انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد میں ۱۳ جولائی ۲۰۱۶ کو بحیرہ جنوبی چین: ابھرتا ہوا منظر نامہ- ایک پاکستانی نقطہ نظر پر ایک گول میز مذاکرہ منعقد ہوا۔ اس نشست کا انعقاد ۱۲ جالائی ۲۰۱۶ کو  بحیرہ جنوبی چین کے عنوان سے دی ہیگ میں قائم ثالثی کی عالمی عدالت کی کاروائی کے پس منظر میں کیا گیا تھا۔  

سیشن کی صدارت ڈاِئریکٹر جنرل انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز جناب خالد رحمن نے کی ۔ لیڈ کوورڈینیٹر عرفان شہزاد اور ریسرچ ٹیم ممبر فریحہ سرور نے بھی اس پر گفتگو کی۔

بات چیت کے دوران مندرجہ ذیل اہم نکات سامنے آئے۔:
بحیرہ جنوبی چین مابین اور بین الابراعظمی بحری رابطے کے ساتھ ساتھ ایشیاء پیسفک کے علاقے میں امن و استحکام کے لئے نہایت اہم پوزیشن رکھتا ہے۔ جبکہ آئی پی ایس کی رائے یہ ہے کہ یہ پاکستان اسکے عوام اور ان کے وسیع علاقائی اور عالمی مفادات کیلئے بہت اہم مسئلہ ہے۔
جنوبی چین کے سمندر میں گزشتہ چند بر سوں کے دوران پیش آنے والے واقعات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ جنوبی چین کے سمندر سے متعلق تمام مسائل کو کشیدگی اور تنازعات سے گریز کرتے ہوئے خوش اسلوبی سے حل کرنا تمام بین الاقوامی اور علاقائی قوتوں کے مفادات کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر امن و استحکام کے لئے بھی

بہت ضروری ہے۔

بادی النظر  میں پی سی اے کے احکامات یک طرفہ لگتے ہیں جو کہ اس مسئلے کے تمام پہلووں پر چین کے دلائل کو سنے بغیر جاری کیے گئے ۔ آئی پی ایس کا خیال ہے کہ ایک اہم پارٹی یعنی چین کی شرکت کے بغیر مذکورہ قانونی سماعت کی اخلاقی حیثیت مشکوک ہے اور اس کے بغیر اس پر عمل نہیں ہونا چاہیئے۔ عدالتی حکم کے بعد یہ بات تمام پارٹیوں کے مفاد میں ہے کہ اس حکم کو کسی ایک کی فتح اور دوسرے کی شکست کے طور پر نہ لیا جائے۔ در حقیقت یہ عدالتی حکم کوئی بھی وضاحت اور شفافیت لانے کی بجائےبین الاقوامی قانون کے ساتھ موجود عالمی حکومت کے رویے پر کئی سوالات اٹھاتا ہے۔ 

اس تنازعہ کے پیچھے چین پر سفارتی دباؤ ڈالنے کی کوشش بھی کار فرما دکھائی دیتی ہے اور بیجنگ کو  ایک سے زائد محدود پیمانے کے مسلح تنازعات میں الجھانے کی سازش لگتی ہے۔ یہ بظاہر چین پر ایک عالمی طاقت کے طور پر اس کے عروج میں رکاوٹ ڈالنے پر مشتمل چالوں کے ساتھ منسلک ہے۔  اس صورتحال میں پاکستانی ریاست، حکومت اور عوام اپنے چینی دوستوں کے ساتھ کھڑے ہیں اور سختی سے چین کے جائز حقوق اور مفادات کی خلاف ورزی کی کسی بھی چال کی مخالفت کریں گے۔   

اس علاقے سے غیر متعلقہ طاقتوں کو  ایسے تنازعات پر علاقائی طاقتوں اور جماعتوں کے درمیان تنازعات کو بھڑکانے سے باز رہنا چاہئے۔ جنوبی چین کے سمندر کی تمام پارٹیوں کے ۲۰۰۲ کا ڈیکلیریشن ایسے مسائل کو حل کرنے کے لئے ایک مفید بنیاد فراہم کرتا ہے۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے