انسانی حقوق کی پامالی کے انفرادی و اجتماعی واقعات مسئلہ کشمیر پر دنیا کی توجہ مبذول کروانے میں مددگار ہوسکتے ہیں۔ آئی پی ایس ورکنگ گروپ برائے کشمیر
افراد کی کہانیاں لوگوں کو سب سے زیادہ متاثر کرتی ہیں۔ اس لیے واقعات کو طاقت وَر داستان کی شکل دے کر دنیا کی توجہ مبذول کروائی جاسکتی ہے کہ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں کس طرح انسانی حقوق کی سنگین پامالی کی جارہی ہے اور اس میں کشمیری تارکینِ وطن بھرپور کردار ادا کرسکتے ہیں۔
افراد کی کہانیاں لوگوں کو سب سے زیادہ متاثر کرتی ہیں۔ اس لیے واقعات کو طاقت وَر داستان کی شکل دے کر دنیا کی توجہ مبذول کروائی جاسکتی ہے کہ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں کس طرح انسانی حقوق کی سنگین پامالی کی جارہی ہے اور اس میں کشمیری تارکینِ وطن بھرپور کردار ادا کرسکتے ہیں۔
یہ بات انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد میں منعقدہ ایک آئ پی ایس کے ورکنگ گروپ برائے کشمیر کے ایک اجلاس میں شرکاء نے کہی۔ آئی پی ایس کے کشمیر پر ورکنگ گروپ کی یہ چوتھی میٹنگ تھی جو کہ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی تازہ ترین پیش رفت پر نظر رکھنے کے لیے تسلسل سے منعقد کی جارہی ہے تاکہ بھارت کے تمام انسانیت سوز اقدامات کے خلاف قانونی راہوں کو تلاش کیا جاسکے۔
12نومبر 2019ء کو ہونے والی اس میٹنگ کی صدارت آئی پی ایس کے ایگزیکٹو صدر خالد رحمٰن نے کی جبکہ لندن میں مقیم سیاسی کارکن مزمل ایوب تکور اور سماجی رابطوں پر فعال خاتون شائستہ صافی مہمان مقررین تھے۔ دیگر شرکاء میں ایمبیسیڈر (ریٹائرڈ) سید ابرار حسین، ایمبیسیڈر (ریٹائرڈ) ایاز وزیر، دفاعی تجزیہ کار بریگیڈئر (ریٹائرڈ) سید نذیر، آزاد جموں و کشمیر کی سابق وزیر خزانہ فرزانہ یعقوب، کاروباری شخصیت امان اللہ، صحافی شکیل ترابی، حریت رہنما غلام محمد صافی، ایڈووکیٹ ناصر قادری اور رافعہ سیلانی شامل تھے۔ ایمبیسیڈر (ریٹائرڈ) تجمل الطاف نے امریکی کانگریس کی ذیلی کمیٹی میں ”جنوبی ایشیا میں انسانی حقوق“ کے ضمن میں ہونے والی کشمیر پر گفتگو سے متعلق شرکاء کو آگاہ کیا۔
مقررین نے اپنی آراء میں کہا کہ بیانیے کی جنگ کے دور میں یہ بات مدنظر رہنی چاہیے کہ مسئلہ کشمیر کے حوالہ سے بہت سی لابیاں سرگرم عمل ہیں۔ اس صورت میں احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ کسی بات پر ایسے کسی گروپ کو ناراض نہ کر لیا جائے جو مسئلہ کشمیر کی حمایت کررہا ہو۔
میٹنگ میں تجویز دی گئی کہ آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے وکلاء اور ججوں کے ساتھ مل کر مقبوضہ کشمیر میں جنگی جرائم پر ایک ٹریبونل قائم کیا جائے جو انفرادی نوعیت کے واقعات پر گفتگو کرکے انہیں دنیا کے سامنے لائے۔ مقررین نے کہا کہ اس طر ح کے معاملات کو بڑی بڑی اہم زبانوں میں ترجمہ کرکے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس سمیت تمام چینل پر پیش کیا جائے تاکہ کشمیریوں کی حالت زار موثر انداز میں اجاگر ہوسکے۔ اس سے اہم ممالک میں عوامی رائے اور حکومتی سطح پر سوچ میں تبدیلی لانے کی کوشش کامیاب ہوسکتی ہے۔
شرکاء نے کہا کہ مسئلہ کشمیر پر حکومت تو اپنا کردار ادا کررہی ہے تاہم سول سوسائٹی نسبتاً غیرفعال ہے جب کہ انہیں زمینی حقائق سے متعلق آگاہی دینے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے میں میڈیا کی اہمیت پر گفتگو کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ میڈیا کمپنیاں بخوبی جانتی ہیں کہ کس طرح طاقتور بیانیے اور سلائیڈز کے ذریعے کہانیاں فروخت کی جاتی ہیں۔ عالمی میڈیا میں کشمیر کو نمایاں مقام حاصل ہوا ہے اور 125 سے زائد مضامین صرف نیویارک ٹائمز نے مختصر وقت میں شائع کیے ہیں۔
اجلاس کو بتایا گیا کہ کشمیر میں جو کچھ ہورہا ہے اسے صرف انسانی حقوق کی پامالی قرار نہیں دیا جانا چاہیے، اب نسل کشی اور جنگی جرائم جیسے الفاظ کا استعمال خوفناک صورتِ حال کو زیادہ بہتر پیش کرتے ہیں۔ اگر عالمی میڈیا کے ذریعے اس طرح کے الفاظ کا استعمال کیا جائے تو مسئلہ فوری طور پر محسوس کیاجائے گا۔
مقررین نے دنیا پر زور دیا کہ وہ اس مسئلے پر تشویش کا اظہار گنے چنے الفاظ میں نہ کرے۔ حال ہی میں برطانوی پارلیمنٹ میں مسئلہ کشمیر پر بحث ہوئی تو تیس ممبرانِ پارلیمنٹ کی گفتگو سے ایسا لگا جیسے ان کے نزدیک یہ تنازعہ 5اگست 2019ء کے بعد پیدا ہوا ہے جب ہندوستان نے آرٹیکل 370 منسوخ کیا ہے۔ اس مباحثے میں محسوس ہوا کہ ممبرانِ پارلیمنٹ کے نزدیک لاک ڈاؤن پریشانی کا کوئی سبب نہیں ہے بلکہ موبائل سروس اور مواصلات پر پابندی زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔
اجلاس میں توجہ دلائی گئی کہ بین الاقوامی عدالت انصاف کی جگہ بین الاقوامی فوجداری عدالت کا دائرہ اختیار چنا جائے کیونکہ انسانی حقوق کی پامالی کے مقدمات چلانے کے لیے یہ بہتر فورم ہے۔
جموں کشمیر آف کولیشن آف سول سوسائٹی (JKCCS) بھارتی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کے امورسے متعلق دستاویزات اور قانونی چارہ جوئی پر کام کرتی ہے۔ اس نے ایسے 459 واقعات ریکارڈ کیے ہیں جنہیں موثر انداز میں دنیا کے سامنے لایا جاسکتا ہے۔
امریکی کانگریس میں ہونے والی سماعت پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا گیا کہ اس میں سوالات کی کثیر تعداد کا تعلق بھارت اور مقبوضہ کشمیر سے متعلق تھا حالانکہ سماعت کا عنوان ”جنوبی ایشیا میں انسانی حقوق“ تھا۔ ذیلی کمیٹی کی سماعت میں کشمیر میں انسانی حقوق اور دہشت گردی سے متعلق گفتگو غالب رہی۔ ایک طویل عرصے کے بعد یہ معاملہ اس کمیٹی کے زیربحث آیا۔ تاہم کوئی کشمیری مسلمان بطور گواہ اس میں حصہ نہ لے پایا۔ اس لیے کہ بھارتی حکومت نے لوگوں کو گواہی دینے سے روکنے کی پوری کوشش کی تھی۔ امریکی کانگریس کی ذیلی کمیٹی میں ہونے والی سماعت میں اس بات پر بحث ہوئی کہ وادی کی تازہ ترین صورتِ حال سے باخبر ہونے کے لیے غیرملکی صحافیوں، سفارت کاروں اور سینیٹر کرس وین ہولن سمیت کسی عہدیدار کو وہاں جانے کی اجازت نہیں ہے۔ کمیٹی کے چیئرمین بریڈ شرمین نے پوچھا کہ جب حکومت سفارت کاروں کو متنازع علاقہ میں جانے کی اجازت نہیں دیتی ہے تو امریکہ بھارتی افسروں پر اعتماد کیسے کرسکتا ہے۔
تاہم امریکی محکمہ خارجہ میں جنوبی اور وسطی ایشیائی امور کی معاون سیکرٹری ایلس ویلز نے کہا کہ امریکہ اور ہندوستان کے تعلقات فرمان جاری کرنے پر نہیں بلکہ شراکت داری پر مبنی ہیں۔ اس لیے بھارت کے اندرونی معاملات میں واشنگٹن مداخلت نہیں کرسکتا۔ انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 370 کی منسوخی پر واشنگٹن کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اس سے صرف انسانی حقوق کی صورتِ حال سے مطلب ہے۔ ویلز نے ہندوستان اور پاکستان سے کہا کہ وہ شملہ معاہدے کے تحت مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لیے ڈائیلاگ کا راستہ اختیار کریں۔ اس کارروائی کا کوئی منطقی نتیجہ نہیں نکلتا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کانگریس اس معاملے میں سنجیدہ نہیں ہے۔
جواب دیں