تحقیقی موضوعات پر سوچ وچار : بین الاقوامی تعلقات/اسٹریٹیجک اور ڈپلومیٹک اسٹڈیز
پاکستان کو بے انتہا کثیرجہتی صلاحیتوں سے نوازا گیا ہے۔ ابھرتے ہوئے تحقیق کاروں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ ایسے شعبوں کو تلاش کریں جن میں کام نہیں ہوا ہے تاکہ وہ ایسا مواد سامنے لاسکیں جو اس معاشرے کے لیے فائدہ مند ہو۔
پاکستان کو بے انتہا کثیرجہتی صلاحیتوں سے نوازا گیا ہے۔ ابھرتے ہوئے تحقیق کاروں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ ایسے شعبوں کو تلاش کریں جن میں کام نہیں ہوا ہے تاکہ وہ ایسا مواد سامنے لاسکیں جو اس معاشرے کے لیے فائدہ مند ہو۔
ان خیالات کا اظہار انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز میں منعقد ہونے والے ایک سیمینار میں پالیسی ریسرچ کے ماہرین نے کیا جس کا موضوع تھا ”تحقیقی موضوعات پر سوچ وچار: بین الاقوامی تعلقات/اسٹریٹیجک اور ڈپلومیٹک اسٹڈیز“۔ 22اکتوبر 2019ء کو منعقد ہونے والے اس سیمینار کا اہتمام آئی پی ایس لیڈ (The Learning, Excellence and Development Program of IPS) نے کیا تھا۔ یہ آئی پی ایس لیڈکے پروگراموں کی اس سیریز کا ایک حصہ تھا جو ”پاکستان میں پالیسی ریسرچ کے لیے مقامی نکتہ نظر کی اہمیت“ کا پہلو سامنے رکھ کر ترتیب دی جاتی رہی ہے۔
اجلاس سے ایمبیسیڈر (ریٹائرڈ) عبدالباسط پاکستان بھارت میں تعینات سابق ہائرکمشنر، ایئرکموڈور (ریٹائرڈ) خالد بنوری، ڈاکٹر عدنان سرور سربراہ شعبہ بین الاقوامی تعلقات نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوئجز (NUML) اور ایگزیکٹو صدر آئی پی ایس خالد رحمٰن نے خطاب کیا۔
اجلاس کا بنیادی مقصد سماجی علوم اور دیگر تعلیمی شعبوں کے نوجوان تحقیق کاروں – الخصوص جو بین الاقوامی تعلقات، سیاسیات، اسٹریٹیجک اور ڈپلومیٹک اسٹڈیز اور دیگر مضامین میں ایم فل اور پی ایچ ڈی پروگراموں میں داخلہ لیتے ہیں – کو سینئر تحقیق کاروں، پالیسی تجزیہ کاروں اور اس میدان میں عملی طور پر شریک افراد کے ساتھ جوڑنا ہے تاکہ اس طرح کے تحقیقی عنوانات کے لیے ذہن سازی کی جاسکے جو ملک کی مقامی ضرورتوں کے مطابق ہوں۔
اس موقع پر خالد بنوری نے گفتگو کرتے ہوئے مختلف تزویراتی ذرائع اور وسائل کی نشاندہی کی جن کے مؤثر طریقے سے استعمال کے نتیجے میں ملک کے لیے بہت سے فوائد سمیٹے جاسکتے تھے تاہم ایسا کرنے میں ناکامی کے نتیجے میں ان امکانات کو اندیشوں اور چیلنجوں میں تبدیل کردیا گیا۔ انہوں نے خواہش مند تحقیق کاروں پر زور دیا کہ وہ اپنے تحقیقی کاموں کے دائرہ کار کو مختلف سمتوں میں وسعت دیں اور ایسے ناپائیدار اور بدانتظامی کے شکار شعبوں کی نشاندہی کریں جو ملک میں وافر تعداد میں موجود ہیں۔ ان پر اپنی توانائیاں صَرف کرنے کی جستجو کریں اور ان کے مؤثر استعمال کے لیے حکمت عملی تیار کریں۔
عبدالباسط نے بھی اپنی تقریر میں متعدد ایسے علاقائی موضوعات کی نشاندہی کی جن پر ابھرتے ہوئے تحقیق کاروں کو توجہ مبذول کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے تحقیق کاروں، نوجوان دانشوروں اور تعلیمی شعبے سے وابستہ ماہرین کی طرف سے ان موضوعات کو اپنی تحقیق کا عنوان دینے میں دلچسپی نہ لینے پر افسوس کا اظہار کیا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ وہ بیرونی دنیا کے موضوعات اور نظریات کو چننے کی بجائے مقامی موضوعات پر اپنی تحقیق کے دائرے کو وسعت دیں۔
ڈاکٹر سرور نے ملک میں طلبہ کی طرف سے کی گئی تحقیق کے معیار پر شدید تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ وہ محض ڈگری کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اپنا تحقیقی کام سرانجام دے رہے ہیں اور اس کا کوئی حقیقی معیار ان کے ذہن میں کہیں نہیں ہے۔
خالد رحمٰن نے دوسرے اسکالرز کی رائے کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ملک میں کیے جانے والے بہت سے تحقیقی کاموں کی سرپرستی بعض بیرونی عناصر اپنے ذاتی مفادات کے لیے کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ بہت بدقسمتی کی بات ہے کہ ان عناصر کے ہاتھوں میں ہمارے بہت سے ایسے طلبہ کھیل رہے ہیں جو اپنی عینک سے ہمارے مقامی مسائل کو دیکھنے کے لیے ان طلبہ کو استعمال کررہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ”یہ رجحان نہ صرف طلبہ کے مستقبل بلکہ ملک کے لیے بھی تباہ کن ہوسکتا ہے“۔ انہوں نے طلبہ پر زور دیا کہ وہ مقامی موضوعات پر اپنی تحقیقی سرگرمیوں کو مرکوز کریں تاکہ نتیجے میں سامنے آنے والی تحقیق ملک کے لیے مفید اور قابل اطلاق ہوسکے۔
جواب دیں