‘کورونہ وباء کے دوران تیل کا عالمگیر بحران اور شِپنگ سیکٹر پر اس کے اثرات: پی این ایس سی کے لیے چیلنجز اور امکانات’

‘کورونہ وباء کے دوران تیل کا عالمگیر بحران اور شِپنگ سیکٹر پر اس کے اثرات: پی این ایس سی کے لیے چیلنجز اور امکانات’

 پاکستان پی این ایس سی کو تیل کی مال برداری میں درست طریقے سے استعمال کر کے سالانہ 5 سے 6 بلین ڈالر کی بچت کر سکتا ہے: کموڈور (ریٹائرڈ) عبیداللہ   

 Global Oil Crisis Amidst COVID19

 پاکستان پی این ایس سی کو تیل کی مال برداری میں درست طریقے سے استعمال کر کے سالانہ 5 سے 6 بلین ڈالر کی بچت کر سکتا ہے: کموڈور (ریٹائرڈ) عبیداللہ   

 پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن [پی ان اس سی] کو اپنی بین الاقوامی سمندری تجارت کے لیے مرکزی مال بردار کے طور پر استعمال کر کے پاکستان ہر سال تقریبا 5 ے 6 بلین ڈالر تک کی بچت کر سکتا ہے جبکہ اس قومی ادارے کو مزید  تیل بردار جہاز اور ٹینکر خریدنے کی اجازت دے  کر اس کی مال برداری اور ترسیل کی استعدار میں واضح اضافہ کیا جا سکتا ہے

یہ تجاویز پی این ایس سی کے سابق ایگزیکٹو ڈائریکٹر کموڈور (ریٹائرڈ) سید محمد عبیداللہ نے، جو نیشنل سینٹرفار میری ٹائم پالیسی ریسرچ [این سی ایم پی آر] کے بانی ڈائریکٹر کے طور پر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں ، انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کی اپریل 22، 2020 کو منعقد کردہ ایک خصوصی ویبینار گفتگو میں پیش کیں جس کا موضوع تھا  ‘کورونہ وباء کے دوران تیل کا عالمگیر بحران اور شپنگ سیکٹر پر اس کے اثرات:  پی این ایس سی کے لیے چیلنجز اور امکانات’۔

مقرر نے تیل کے موجودہ بحران کی وجوہات کو وضاحت سے بیان کرتے ہوئے بتایا کہ اس بحران کا آغاز روس اور سعودی عرب کے مابین تیل کی فراہمی پر تنازعہ سے  شروع ہوا۔ اگرچہ یہ تنازعہ امریکی صدر کی مداخلت سے حل ہو گیا تھا لیکن کورونا کی وبا پھوٹ پڑنے کے باعث یہ ساری تدبیریں بے سود ہو کر رہ گئیں۔ فضائی آپریشنز کے بند ہونے، نقل و حمل اور ریلوے کی بندشوں اور صنعتی پیداوار  کم ترین درجہ پر پہنچ جانے کے باعث تیل کی طلب میں نمایاں کمی واقع ہو گئی ۔ دنیا بھر کی تیل کی مارکیٹوں پر عمومی طور پر اور امریکی آئل مارکیٹ اور کینیڈا کی آئل مارکیٹ پر بالخصوص اس صورت حال کا شدید اثر پڑا جس کے نتیجے میں  فراہم کنندگان اور خریدار دونوں کی سطح پر آئل ذخیرہ کرنے کے معاملات بگڑ کر رہ گئے۔ اس کے نتیجے میں ان منڈیوں میں تیل کی قیمتیں منفی سطح پر پہنچ گئیں جس نےعالمی سطح پر جہاز رانی کی صنعت سمیت متعدد دیگر صنعتوں کو بھی متاثر کیا ۔ 

تیل کی قیمتوں میں کمی سے پاکستان کو کوئ فائدہ پہنچنے کے امکانات پر گفتگو کرتے ہوئے اسپیکر کا کہنا تھا  کہ اس صورت حال سے ملک کو  ممکنہ طور پر کوئی قابلِ ذکر فائدہ نہیں پہنچ سکے گا۔ پاکستان برینٹ اور دبئی کروڈ نامی کمپنیوں سے تیل کی خریداری 

کرتا ہے، جن میں اگرچہ اس وقت تیل کی قیمت 15 سے 20 ڈالر کے قریب ہوچکی ہے ، تاہم کورونا کے وبائی مرض کی وجہ سے ملک کے اندر تیل کی تین آیل ریفائنریوں کو اپنی ذخیرہ کرنے کی گنجائش اور بازار میں طلب کی کمی کے باعث بند کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جنوری 2020 میں متعارف کردہ انٹرنیشنل میری ٹائم آرگنائزیشن کا نیا ضابطہ اس سلسلے میں ایک اور مشکل ہے۔ اس کے مطابق ڈیزل میں سلفر کی مقدار 3٫5 فی صد کی بجائے 0٫5 فی صد ہونی چاہیے جس کی اہلیت نہ ہونے کے سبب پاکستانی ریفائنریوں میں پروسس شدہ تیل  کی برآمدات میں بھی کافی زیادہ رکاوٹ پیش آ رہی ہے۔ 

اس صورت حال کی مزید وضاحت کرتے ہوئے عبیداللہ نے بتایا کہ پاکستان تین قسم کے آئل درآمد کرتا رہا ہے۔ خام تیل (11 ملین ٹن سالانہ )، پروسیسڈ آئل  (12٫5 ملین ٹن سالانہ) اور ایل این جی (3 سے 4 ملین ٹن سالانہ)۔ تاہم اسپیکر کے مطابق، یہ صورت حال اب قدرے تبدیل ہو رہی ہے کیونکہ ملک میں بیشتر آئی پی پیز پہلے ہی ایل این جی پر منتقل ہو چکے ہیں۔ 

انہوں نے بتایا کہ پاکستان شپنگ کارپوریشن شپنگ کے شعبے میں عالمی بحران کے باوجود گزشتہ 20 سالوں سے تسلسل کے ساتھ 2٫5 بلین روپے سے زیادہ کی آمدنی کر رہا ہے۔ کارپوریشن سال 2000 ء تک دیگر بہت سے چھوٹے  قومی اداروں کی طرح اچھے حال میں نہیں تھی اور اس کے حصص کی قیمت صرف 1٫50 روپے تھی ، لیکن اُس وقت کی انتظامیہ کے کچھ اچھے فیصلوں کی بدولت صرف ایک سال کے اندر اندر اس کے حصص کی قیمت 150 روپے ہو گئی۔ 

کموڈور (ریٹائرڈ) عبیداللہ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں موجودہ بین الاقوامی تجارتی حجم 100 ملین ٹن سالانہ ہے اور اس کا صرف 15 فی صد پی این ایس سی کے ذریعہ ترسیل کیا جاتا ہے۔ انہوں نے ایک اور المیے کا ذکر  کرتے ہوئے کہا  کہ تیل اور توانائی کی نقل و حمل کی مال باربرداری کا کام 100 فی صد بین الاقوامی کیریئرز نے سنبھال رکھا ہے جس پر ملک کے سالانہ 5 سے 6 بلین ڈالر خرچ ہو رہے ہیں۔ پاکستان اس کثیر رقم کی بچت کر سکتا ہےجبکہ یہ رقم حالیہ آئی ایم ایف کی توسیعی فنڈ سہولت  کے برابر بنتی ہے جو پاکستان کو ۳۹ ماہ میں ملنا ہے۔ یہ بچت کرنے کے لیے اسے محض یہ کرنا  ہو گا کہ پی این ایس سی کو اس شعبے میں بین الاقوامی تجارت اور مال برداری کی مرکزی ذمہ داری سونپی جائے اور اس کے کے ساتھ ساتھ کارپوریشن کو مزید خام تیل کیریئرز اور پروسیس شدہ آئل ٹینکر خریدنے کی اجازت بھی دی جائے تاکہ اس کی ترسیل کی صلاحیت اور استعدادِ کار میں اضافہ ہو سکے۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے