آئی پی ایس کے ورکنگ گروپ برائے کشمیر (WGK IPS-) کابارہواں اجلاس
آئی پی ایس کے ورکنگ گروپ برائے کشمیر (WGK IPS-) کا بارہواں اجلاس 26 اکتوبر 2020 کو گلگت بلتستان کی خصوصیحیثیت کے حوالہ سے ہوا۔
یہ اجلاس ایگزیکٹو صدر آئی پی ایس خالد رحمٰن کی زیر صدارت ہوا جبکہ دیگر شرکاء میں آئی پی ایس کی ایسوسی ایٹ اور آئی پی ایس ورکنگ گروپ برائے کشمیر (آئی پی ایس-ڈبلیو جی کے) کی جنرل سکریٹری فرزانہ یعقوب ، ایمبیسیڈر (ر) سید اشتیاق حسین اندرابی ، ایمبیسیڈر (ر) تجمل الطاف، LFOVK (Legal Forum for Oppressed Voices of Kashmir) کے بین الاقوامی قانون کے ماہرایڈووکیٹ ناصر قادری اور جنرل مینیجر آئی پی ایس نوفل شاہ رخ شامل تھے۔
خالد رحمٰن نے گلگت بلتستان کے خطے کو عارضی صوبائی حیثیت دینے کے لیے حکومت پاکستان کے حالیہ فیصلے پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدامات مقامی آبادی کی امنگوں کی عکاسی کرتے ہیں اور انتظامی، سیاسی اور معاشی اصلاحات کے لیے کیے جانے والے ان کے دیرینہ مطالبے کے عین مطابق ہیں۔انہوں نے کہا کہ ان اقدامات سے نہ صرف حکومت پر مقامی لوگوں کے اعتماد کو تقویت ملے گی بلکہ خطے کے معاشرتی اور سیاسی ضروریات کو بھی پورا کیا جاسکے گا۔
تاہم گلگت بلتستان کی حیثیت کے بارے میں جس طرح اعلان کیا گیا اس کے طریقہ کار پر تنقید کرتے ہوئے اسپیکر نے کہا کہ یہ معاملہ نوعیت کے لحاظ سے انتہائی حساس ہے۔ لہذا ، اس کا اعلان بہتر ہوم ورک ، محتاط سیاسی بحث و مباحثے ، بہتر طریقہ کار اور تمام متعلقہ فریقین کے درمیان پہلے سے طے شدہ معاہدوں کو سامنے رکھتے ہوئے حکمت عملی کے ساتھ کیا جانا چاہیے تھا کیونکہ ان عوامل کی عدم موجودگی مستقبل میں مسائل پیدا کر سکتی ہے۔
رحمٰن نے اس معاملے پر آگے بڑھنے کے لیے کچھ تجاویز بھی دیں ۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ میں گلگت بلتستان کو تعداد میں اس سے زیادہ سیٹوں کی الاٹمنٹ کی جانی چاہیے جتنی بھارت نے اپنی پارلیمنٹ میں جموں و کشمیر کے لیے مخصوص نشستوں پر کی ہے۔ انہوں نے تجویز دیتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ، یورپی یونین یا او آئی سی جیسے آزاد بین الاقوامی اداروں کی نگرانی میں اس مسئلہ پر گلگت بلتستان کے لوگوں کی رائے لینے کے لیے ریفرنڈم کروا لینا چاہیے۔انہوں نے تجویز دی کہ آزاد جموں و کشمیر کی حکومت کا اعلان جلا وطن حکومت کی حیثیت سے کیا جانا چاہیے تاکہ اقوام متحدہ، او آئی سی اور دیگر بین الاقوامی پلیٹ فارموں پر اس کی نمائندگی کےمطالبے کوممکن بنایا جا سکے۔
ناصرقادری کی رائے تھی کہ قانونی حیثیت سے دیکھا جائے تو گلگت بلتستان کی حیثیت ایک بہت ہی سنجیدہ اور پیچیدہ مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر گلگت بلتستان میں ریاست پاکستان کے معاشی مفادات ہوتے تو اسے اسی حالت میں رکھتے ہوئے اسے سنبھالنے کے بہتر طریقے موجود تھے۔ یہاں تک کہ اگر چین کی طرف سے کوئی خدشات لاحق تھے تو حکومت علاقے کی خصوصی حیثیت میں خلل ڈالے بغیر چین کے ساتھ معاہدے پر دستخط کرسکتی تھی۔
رحمٰن کی پیش کردہ تجاویز پر بات کرتے ہوئے قادری کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی قانون کے مطابق آزاد جموں و کشمیر حکومت کو جلاوطنی میں رکھنے کا خیال قابل عمل نہیں ہے۔ اسی پہلےوالی حالت میں کسی ایک یا دوسرےطریقے سے خلل ڈالنے کی بجائے حکومت پاکستان کو گلگت بلتستان کے لوگوں کے معاشی مطالبات کو پورا کرنے کے لیےبغیر کسی آئینی ترمیم کے یا کم از کم اسے عوامی بنائے بغیر کوئی راہ تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ اسپیکر نے محسوس کیا کہ گلگت بلتستان کے لوگوں کے معاشرتی و معاشی مطالبات کو پورا کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر آئینی تبدیلی کرنے کی بجائے خصوصی آرڈیننس کے ذریعے انہیں بااختیار بنا کرایک بہتر طریقہ اختیار کیا جاسکتا ہے ورنہ اسپیکر کے مطابق، اس طرح کے دیگر اقدامات آگے جا کر کچھ قانونی رکاوٹوں کا باعث بن سکتے ہیں۔
ابرار نے بھی انہی خطوط پر بات کرتے ہوئے کہا کہ بروقت اقدامات کی ضرورت ہے تاہم حکومت پاکستان کو جلدبازی میں فیصلے کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔بہتر تو یہ ہے کہ گلگت بلتستان میں آئندہ انتخابات کا انتظار کیا جائے تاکہ اس معاملے کو اچھے طریقے سے نمٹنے کی بہتر پوزیشن ہو ۔
جواب دیں