آئی پی ایس نیشنل اکیڈمک کونسل کا سالانہ اجلاس 2021 ء
آئی پی ایس نیشنل اکیڈمک کونسل (این اے سی) کےسالانہ اجلاس میں شریک تمام مقررین نے پاکستان میں طرزِ حکمرانی کے مسلسل گرتے ہوئے معیار پر عدم اطمینان کا اظہار کیا جبکہ انہوں نےقومی اہمیت کے مختلف شعبوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کی بہتری اور اصلاح کی فوری ضرورت کی طرف توجہ دلائی۔
آئی پی ایس نیشنل اکیڈمک کونسل (این اے سی) کےسالانہ اجلاس میں شریک تمام مقررین نے پاکستان میں طرزِ حکمرانی کے مسلسل گرتے ہوئے معیار پر عدم اطمینان کا اظہار کیا جبکہ انہوں نےقومی اہمیت کے مختلف شعبوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کی بہتری اور اصلاح کی فوری ضرورت کی طرف توجہ دلائی۔
آئی پی ایس کی نیشنل اکیڈمک کونسل کا سالانہ اجلاس ، جس میں پاکستان بھر سے دانشور ، اسکالرز ، ماہرین تعلیم اور مختلف شعبوں کےماہرین شامل ہوتے ہیں، 18 ستمبر 2021 کو منعقد ہواجس کا مقصد پچھلے سال کے دوران ہونے والے انسٹی ٹیوٹ کی کارکردگی کا جائزہ لینا اوران کی رہنمائی میں اپنے تحقیقی کاموں کو آگے بڑھانا ہے۔
اجلاس میں چیئرمین آئی پی ایس خالد رحمٰن ؛وائس چیئرمین آئی پی ایس ایمبیسیڈر(ریٹائرڈ) سید ابرارحسین ؛ پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد، وائس چانسلر رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی (آر آئی یو)؛ ڈاکٹر وقار مسعود خان، سابق وفاقی سیکرٹری وزارتِ خزانہ؛ سید ابو احمد عاکف، سابق وفاقی سیکرٹری، وزارت موسمیاتی تبدیلی؛ پروفیسر ڈاکٹر انوار الحسن گیلانی، وائس چانسلر، ہری پور یونیورسٹی؛ ڈاکٹر فتح محمد برفت، وائس چانسلر ، سندھ یونیورسٹی؛ ڈاکٹر سید ایم جنید زیدی، ایگزیکٹو ڈائریکٹر، کامسیٹس یونیورسٹی؛ ڈاکٹر عبدالرؤف رفیقی، ڈائریکٹر، بلوچستان یونیورسٹی؛ عبدالصمد خان اچکزئی، چیئر، بلوچستان یونیورسٹی اور ڈاکٹر نذیر احمد وید، اخوت فاؤنڈیشن نے شرکت کی, جبکہ سیشن میں آن لائن شرکت کرنے والے ارکان میں سردار مسعود خان، صدر آزاد جموں وکشمیر؛ پروفیسر ڈاکٹرقبلہ ایاز، چیئرمین، اسلامی نظریاتی کونسل؛ ڈاکٹر سید طاہر حجازی، وائس چانسلر، مسلم یوتھ یونیورسٹی؛ پروفیسر ڈاکٹر نورین سحر ، چیئرپرسن، شعبہ بشریات بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد؛ مرزا حامد حسن، سابق وفاقی سیکرٹری پانی و بجلی اور ایئر کموڈور (ر) خالد اقبال شامل تھے۔
شرکاء نے گزشتہ سال کے اجلاس میں اراکین کی طرف سے پیش کردہ تجاویز کی روشنی میں سال بھر میں انسٹی ٹیوٹ کی کارکردگی کا جائزہ لیا۔ انہوں نے کرونا کی وباکے انتہائی آزمائشی دور میں بھی انسٹی ٹیوٹ کی طرف سے کی گئی پیش رفت کو سراہا ۔ انہوں نےقومی اہمیت کے مسائل پر مسلسل نگاہ رکھنے اور کوویڈ 19 کی وجہ سے محدود کر دینے والے حالات کے باوجود پراجیکٹس کے اہداف کو مناسب طریقے سے پورا کرنےپر ادارے کی تعریف کی۔
ڈاکٹر انیس نے یکساں نظام تعلیم (ایس این سی) کے اقدام کی حمایت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ ایس این سی ماڈل میں موجود خامیوں کو زیرِبحث لا کرانہیں دور کرنے میں انسٹی ٹیوٹ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
ڈاکٹر طاہر نے ملک میں انصاف کی بروقت فراہمی کو بہتر بنانے کے لیے عدالتی اصلاحات کی حمایت کی اور آئی پی ایس پر زور دیا کہ وہ اپنی تحقیق اور اشاعتوں کے ذریعے بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دے۔
ڈاکٹر نورین اور مرزا حامد حسن کا خیال تھا کہ عالمی نظام میں اخلاقی اور مذہبی تنزلی کے نتیجے میں انسان کے اندر لالچ اور زیادہ سے زیادہ فوجی اور معاشی اختیار حاصل کرنے کی خواہش پیدا ہو رہی ہے،جو آب و ہوا کے خطرات کو جنم دینے کابھی سبب اور جس میں انسانی وجود کے لیے سنگین خطرات بھی مضمر ہیں۔ انہوں نے آئی پی ایس پر زور دیا کہ وہ عالمی اخلاقی پستی کے اثرات کو اجاگر کرنے اور ان سے نمٹنے کے لیےتحقیق کا آغاز کرے۔
ڈاکٹر وقار مسعود خان، پروفیسر ڈاکٹر انور الحسن گیلانی، اور ایئرکموڈور (ر) خالد اقبال نے جنوبی اور وسطی ایشیا کے علاقوں بالخصوص ہندوستان میں ہندوتوا کے عروج کے حوالہ سے ہونے والی سرگرمیوں پر روشنی ڈالی ۔ اس کے ساتھ انہوں نے تحقیق کے لیے ایسے نئے راستوں کی نشاندہی بھی کی جو ان سرگرمیوں کے باعث توجہ طلب ہیں۔
ڈاکٹر فتح نے پاکستان کے تعلیمی اداروں میں منشیات کی لت اور اس سے طلباء کے مستقبل کو درپیش خطرات پر گفتگو کی۔ انہوں نے آئی پی ایس پر زور دیا کہ وہ اس سال ، منشیات کے استعمال سے پیدا ہونے والے خطرات کواپنی تحقیق کا حصہ بنائیں۔
سید ابو احمدعاکف نے آئی پی ایس پر زور دیا کہ وہ قومی سطح کے دیگر اداروں مثلاًنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ وغیرہ کے ساتھ ادارہ جاتی تعلقات میں اضافہ کرے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ انسٹی ٹیوٹ پاکستان میں کھیلوں کی سرگرمیوں اور سیاحت کے فروغ کے تزویراتی مضمرات پر بھی پالیسی ریسرچ کرے گا۔
اجلاس میں جن دیگرموضوعات کو زیرغور لایا گیا ان میں خطے اور خاص طور پر پاکستان میں مذہبی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو درپیش خطرات ، ہندوستان میں ہندوتوا کا عروج اور خطے کے امن پراس کے خدشات، قوم کی تعمیر میں تعلیمی اداروں کے کردار پر زور، پالیسی تحقیق میں اہلیت و قابلیت کی نشوونما، ریاست کی نظریاتی بنیادوں کو کمزور کرنے کے خلاف قانون سازی اور افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے تناظر میں وسطی ایشیا پر توجہ کو مرکوز کرنا شامل تھا۔
اجلاس کےاختتام پر، خالد رحمٰن نے عالمی منظر نامے میں جاری بیانیے کی جنگ کی گہرائی پر بات کی ۔ انہوں نے ہر وقت کوتاہیوں کو روتے رہنے کی بجائے اخوت فاؤنڈیشن جیسی قوم کی کامیابی کی کہانیوں کو اجاگر کرنے کی ضرورت پر زور دیا ۔ انہوں نے بتایا کہ جبری مذہبی تبدیلی کے موضوع پر مزید تحقیقی منصوبے/بریفنگز پائپ لائن میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انسٹی ٹیوٹ مستقبل میں بھی اسی طرح کی معروضی کوششیں جاری رکھے گا تاکہ زمینی حالات اور حقائق کو سامنے لایا جا سکے۔
جواب دیں