گوانتانامو میں پانچ سال
مرادکرناز | منشورات،منصورہ،ملتان روڈ ۔ لا ہور | اپریل ۲۰۰۹ء | ۲۸۸صفحات | مجلد مع گردپوش| ۲۵۰روپے
یہ ایک ترک نژاد جرمن نوجوان کی آپ بیتی ہےجو افغانستان اوربدنامِ زمانہ تعذیبی مرکزگوانتانامو میں پانچ سال تک قید رہا، اس پر نہ تو کوئی جرم ثابت ہوا اور نہ بے پناہ ظلم وتشدداور تعذیب کےحربےاس سےزبردستی اقبالِ جرم کرانےمیں کامیاب ہو سکے۔ یہ جہاں ہمت و حوصلہ اور اولوالعزمی کی لازوال داستان ہے، وہاں انتہائی سّفاکی، بےرحمی اور تعذیب پسندی کی بھی ناقابل تصور اورلرزہ خیز واقعات پر مشتمل کہانی ہے۔
انسانی ذہن کسی دوسرےانسان کو اذیت دینےکا جو بھی طریقہ سوچ سکتا ہے، وہ مراد کرناز جیسےبےگناہ قیدیوں پر عملاً آزمایا گیا، لیکن حیرت ہےان ’’اللہ والوں‘‘ پر کہ وہ ذہنی اورایمانی طورپر مغلوب نہیں ہوئے۔ اذیت پر مامورامریکی بھی حیران تھے کہ ان میں اس قدر قوتِ برداشت کہاں سے آ گئی۔ اس کتاب میں بعض ایسےامریکی فوجیوں کی گواہی بھی رپورٹ ہوئی ہے جو اس ظلم و ستم میں حصہ نہیں لیتےتھے۔ ایک فوجی نےمراد کرناز سےکہا:
’’مجھےمعلوم ہےکہ خدا تمہیں ہمت وحوصلہ عطا کرتا ہے۔‘‘
میں نےاس سے پوچھا: ’’کیا تم مسلمان ہو؟‘‘
اس نےنفی میں جواب دیا اور کہا: ’’میں اندازہ کر سکتا ہوں، تم اتنےطویل عرصےسےان تنگ پنجروں میں رہ رہےہو، ان میں توکوئی کھڑا بھی نہیں ہو سکتا۔ تم خدا سےدُعا کرتےہو اور خدا تمہاری مدد کرتا ہے، ورنہ تم پاگل اور دیوانےہوجاتے۔ اگر مجھےان پنجروں میں رہنا پڑے تو میں چند دنوں میں ہی بیمار پڑجاؤں۔‘‘
اس امریکی فوجی کےمنہ سےیہ الفاظ سن کر میں واقعی حیران رہ گیا۔ (صفحات ۲۲۱۔۲۲۲)
مراد کرناز نسلاً ترک ہے۔ اس کی پیدایش اور تعلیم وتربیت جرمنی میںہوئی جہاںترک باشندےبڑی تعداد میںآباد ہیں اور ان کی اپنی جداگانہ بستیاں ہیں۔ وہ انیس سال کا نوجوان تھا،جب اسےایک روز احساس ہوا کہ وہ پیدایشی طورپر تو مسلمان ہے، مگر ذہنی اور عملی طورپر اسلام سےاُسےدُور کا بھی تعلق نہیں۔ اس احساس نےاس کےاندر نماز کا اہتمام کرنےاور داڑھی رکھنےکا داعیہ پیدا کیا۔ اس پر وہ اپنےہم عمردوستوں کی طرف سےملامت کا نشانہ بھی بنا، مگر اس کےاندر قرآن مجید کےمطالعےاور مذہبی علوم کےحصول کا شوق تیز تر ہوتا چلا گیا۔ وہ جہاز بنانےوالی ایک کمپنی میں کام کرتا تھا۔ اس نےاپنےدوستوں اور انٹرنیٹ کےذریعےدینی علوم کےتعلیمی اداروں کےبارے میں معلومات جمع کیں اور اپنےایک اور دوست کےہمراہ پاکستان آنےکا پروگرام بنایا۔ تبلیغی جماعت کےدوستوں نےاس کی رہنمائی کی اور اُسےپاکستان میں اپنی دعوتی اور تعلیمی سرگرمیوں میںشریک کر لیا۔ وہ کراچی اور پشاور میں رہا۔ لا ہور کی درس گاہ مرکز علوم اسلامیہ منصورہ میں داخلہ لینےکا خواہش مند تھا، مگر غیرملکیوں کےبارےمیں اس ادارے کی پالیسی کےباعث اس کےلیےیہاں داخلہ حاصل کرنا ممکن نہ ہوا۔ تبلیغی جماعت کےایک ساتھی کےساتھ پشاور سے واپسی پر ایرپورٹ جاتےہوئےراستےمیں ایک بس سےپولیس نےشک کی بناء پر اُسےگرفتار کر لیا، مختلف تفتیشی مراکز میںرکھا گیا اور بالآخر پاکستانی فوجیوں نےاسےامریکیوں کےحوالےکر دیا۔ (جناب الطاف حسن قریشی نےلکھا ہےکہ اسےتین ہزار ڈالر کےعوض فروخت کیا گیا،ص۱۴)۔ پہلےاسےقندھار کےامریکی فوجی اڈےمیں قید رکھا گیا اور پھر گوانتانامو کی بدنام زمانہ جیل بھیج دیا گیا۔ ان تینوں جگہوں پر قیدی کی حیثیت سےاس پر جو کچھ گزری، وہ اس کتاب میںدرج ہے۔
اپنی یادداشتوں کو کتابی شکل دینےمیں ایک جرمن صحافی نےاس کی مدد کی اور تصنیفی اعتبار سےایک بہترین قابلِ مطالعہ اور ہاتھوں ہاتھ فروخت ہونےوالی کتاب تیار کر دی۔ اس کتاب کا پیش لفظ مشہور پاپ گلوکارخاتون پیٹی سمتھ (پ۶ ۱۹۶ء) نےلکھا۔ پیٹی سمتھ نےعراق جنگ کےخلاف مظاہروں کی قیادت کی، اس کےلیےمقبول گانےلکھےاور گائے، نیز صدر بُش کےمواخذے کی تحریک چلائی۔ یہ کتاب جرمن زبان سےانگریزی میں ترجمہ ہوئی، پھر اس کتاب کا اُردو ترجمہ قسط وار ماہنامہ’’اُردو ڈائجسٹ‘‘ (لا ہور) میں شائع ہوا اور اب اسےموجودہ کتابی شکل میں’’منشورات ۔لا ہور‘‘ نےپیش کیا ہے۔
جناب مسلم سجاد نےلکھا ہےکہ ۴۹ ممالک سےلائےگئےقیدیوں میں سےگوانتانامو جیل سےباہر آنےوالےسیکڑوں لوگوںمیںسےاس سےپہلےکسی نےبھی اپنی آپ بیتی نہیں لکھی، نہ کسی نےان سےمعلوم کر کےان پر جو کچھ گزرا، اس کی تفصیلات بتائیں۔ صرف افغان سفیر عبدالسلام ضعیف کی آپ بیتی پشتو اور اُردو میںشائع ہوئی، یا برطانیہ سےوہاں کےشہری معظم بیگ کی انگریزی میں طبع ہوئی ہے(عرضِ ناشر، ص۱۲)۔ بظاہر یہ ایک حیران کن بات ہے، تاہم اس کی وجہ مختلف ملکوں کی حکومتوں اور عالمی ذرائع ابلاغ پر امریکہ کا دباؤ ایک جانی پہچانی حقیقت ہے۔ گوانتانامو سےرہا ہونےوالےکئی افراد کو اپنےاپنےملکوں میںواپس جا کر بھی آزادی نصیب نہیں ہو سکی۔ خود ہمارےہاں واپس آنےوالےپاکستانی قیدیوں سےہمارےقومی پریس اور میڈیا نےبےاعتنائی برتی۔ مراد کرناز کےالفاظ میں:
یہ امر بہت ہی اہم ہےکہ ہماری کہانیاں اور داستانیں لوگوں کو سنائی جاتی رہیں۔ ہمیں چاہیےکہ ہم خود گوانتانامو کےبارےمیں شائع ہونےوالی تمام اطلاعات کا مقابلہ کریں۔ ہمیں اب بولنا اور کہنا ہو گا کہ میں نےاپنےہاتھ کمبل میں چھپانےکی کوشش کی تو مجھےچار ہفتےکےلیےقیدِ تنہائی میں ڈال دیا گیا۔ ہمیںدنیا کو یہ بتانا ہو گا کہ کس طرح عبدل اپنی ٹانگوں سےمحروم ہو گیا اور کس طرح مراکشی کپتان کی انگلیاں قطع کر دی گئیں۔ دنیا کو ان قیدیوں کےمتعلق معلوم کرنےکی ضرورت ہےجو قندھار میں ہلاک ہوگئے۔ ہمیں دنیا کےسامنےیہ بتانا ہو گا کہ ڈاکٹر صرف اس لیےآتےتھےکہ دیکھیں کہ قیدی مرچکا ہے، یا مزید اذیت برداشت کرنےکےلیےزندہ ہے۔(ص ۲۷۹)
کتاب کےساتھ مسلم سجاد، الطاف حسن قریشی، اوریا مقبول جان اور عظیم سرور کےمختصر، مگر پُراثر احساسات اور تبصرےبھی شامل کیےگئےہیں۔ کتاب کی طباعت کےمختلف معیارات (گردپوش اور سرورق ڈیزائن، عمدہ جلدبندی، عمدہ کاغذ اور چھپائی وغیرہ) کےلحاظ سےیہ ایک نفیس، باوقار اور پُراثر پیش کش ہے۔ تاہم کمپوزنگ کی غلطیاں بےشمار ہیں، غالباً پروف ریڈنگ ایک مرتبہ بھی نہیں ہوئی۔ ریاض محمود انجم کا ترجمہ بحیثیت ِ مجموعی اچھا ہے، تاہم کچھ مقامات پر اصلاح و ادارت کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
ماخذ: نقطہ نظر، شمارہ ۲۸، اپریل، ستمبر ۲۰۱۰ء ۔
نوعیت: کتاب پر تبصرہ
جواب دیں