ملازمت پیشہ خواتین کو درپیش مشکلات

بشریٰ حیدر

ملازمت پیشہ خواتین کو درپیش مشکلات

بشریٰ حیدر

بشریٰ حیدر

صنف کے مسائل کے مطا لعے کے لیےقائم اسٹڈی گروپ (SGGI) کے ورکنگ گروپ برائے "عورت اور معیشت” کی چوتھی نشست انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز میں  منعقد ہو ئی۔ جس میں اہل علم خواتین و  حضرات کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ جناب خالد رحمٰن نے صدارت  کی۔ نشست میں پیش کیے گئے خیالات کا خلاصہ یہا ں پیش کیا جا رہا ہے۔

"ملازمت پیشہ خواتین کو درپیش مشکلات”کے عنوان سے اپنے مقالے کے آغاز  میں محترمہ بشرٰی حیدر (فنانس مینجر ویمن ایڈ ٹرسٹ)  نے  معاشرے میں عورت کے کردار کے حوالے سے پائی  جانے والے روایتی سوچ کامختصراحاطہ کرتے ہو ئے کہا کہ اگرچہ خواتین معاشرےکی معاشی ترقی کے لیے حیات افزا کردار ادا کرتی ہیں  لیکن ان کے اس کردار کو شاذونادر ہی تسلیم کیا جاتا ہے ۔ خواتین کے لیے گھر سے باہراپنی پیشہ ورانہ معا شی ذمہ داریاں  ادا کرنا عام طو ر پر حوصلہ افزا ردعمل حاصل نہیں کر پاتا۔کام کا ج کی جگہیں عموماً مرد کا میدان سمجھی جاتی ہیں جبکہ عورت کی کمائی کو ہتک آمیز خیال کیا جاتا ہے۔تاہم یہ سوچ اب تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے ، اور معاشی  دائرےکے ساتھ ساتھ زندگی کے دوسرے تمام سماجی دائروں میں ملازمت پیشہ خواتین کی تعداد میں نہ صرف اضافہ ہو رہا ہے بلکہ معاشرے کی ترقی میں ان کے غیر رسمی کردار کو تسلیم کیے جانے کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے ۔ اس پیشرفت  کے  نتیجے میں بہت سارے ایسے چیلنجز بھی سامنے آئے جن پر ہمیں  اپنی مثبت  معاشرتی اقدار پر سمجھوتہ کیے بغیر تطبیق پیدا  کرنے کی ضرورت ہے۔
ملازمت پیشہ خواتین کی مشکلات پر بحث کرتے ہوئے انہوں نے واضح کیا کہ انہیں مختلف النوع مشکلات اوراذیتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔جس کا اظہار گھورنے ،تعاقب کرنے  اور جنسی حملے  کی صورت میں ظاہر ہو تا ہے جو بہت سی خواتین کے لیے خوف اور پریشانی کا باعث بنتا ہے ۔خواتین عام طور  اپنے  مطلوبہ علمی و فکری کام کو چیلنج خیا  ل نہیں کرتیں بلکہ انہیں نفسیاتی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو  ان کے فعال  کردار کے لیے سد راہ  بنتا ہے ۔ یہ ناپسندیدہ رویہ کسی خاص معاشرے یا معاشرے کے کسی خاص حصے تک محدود نہیں ہے بلکہ انتہائی پڑھے لکھے سربراہان ادارہ ، ملازمت دینے والے مالکان  اور سرکاری افسران  بھی ایسے مسائل کا سبب بنتے ہیں۔پولیس کا خوف مردوں کی نسبت خواتین میں زیادہ  پایا جاتا  ہے ، اور وہ کسی بھی پیش آمدہ اذیت ناک  معاملے کو تھا نے میں  جا کر درج کروانے سے احتراز کرتی ہیں ۔یہ نہایت افسوسناک با ت ہے کہ شہری پولیس آفیسر کی موجودگی میں اپنے آپ کو غیر محفوظ خیال کرتے ہیں ۔ایک عورت پولیس اہلکار کے ممکنہ جنسی حملے کے خدشے میں مبتلا رہتی ہے ۔پو لیس کو صنف کے معاملے میں حساسیت  کا ادراک  کرنے اور عوامی شکایات کے معاملے  میں دوستانہ رویہ  اپنانے کی ضرورت ہے ۔ایک عورت صرف اس صورت میں پو لیس اسٹیشن جا سکتی ہے جب اس  کو ایک محفوظ اور قابل بھروسہ ماحو ل فراہم کیا جائے ۔

صوفیہ ملک

صوفیہ ملک

تاہم عورت ہمیشہ مغلوب اور کمزور نہیں بلکہ اسے اپنے مرد رشتہ داروں اوراپنے ساتھ کام کرنے والے رفقاء  کی طر ف سے عملی مدد اور عزت بھی ملتی ہے۔پیشہ ورانہ میدان میں بہت سی خواتین  نے اپنے اعتمادکے بل بوتے پر اپنے لیے جگہ بنائی اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا  ۔ایسے  واقعات بھی ہیں کہ تنظیموں نے خواتین کو برابری کے حقوق اور معاوضہ دلاکر سہولت فراہم کی ۔
محترمہ بشرٰی  حیدر  نے یہ بھی کہا کہ مرد کا عورت کے ساتھ سلوک  خود عورت کے رویے پر بھی منحصر ہوتا ہے ۔یہ بات بھی بجا ہے کہ عملی زندگی میں ہر شخص چاہے وہ مرد ہو یا   عورت بہت سارے چیلنجز کا سامنا کرتا ہے ،ہر منفی چیز پر صنفی ہراس  کا لیبل چسپاں نہیں کیا جاسکتا ۔ منفی رویوں کے نتیجے میں ہونے والے تصادم کو کم کرنے کے لیے پیشہ ورانہ رویے اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کو عمومی طور پررائج کرنے  کی ضرورت ہے۔  

ہمارے روایتی زرعی نظا م میں عورت اور مرد اکٹھے کا م کر تے ہیں اس لیے صنفی ہراس  کا معاملہ بمشکل ہی جگہ پا سکتا ہے ۔ مروجہ مذہبی اور معاشرتی روایات کے ساتھ بظاہر یہ بھی ایک وجہ ہے کہ ہمارے دیہی کلچر میں جب خواتین اپنے گھروں سے باہر ہوتی ہیں تو   اجتماعیت کی شکل میں کام  کرتی ہیں اور اکثر خاندان کے مرد حضرات  ان کے ساتھ ہو تے ہیں ۔
کئی حلقوں میں خواتین کو کم اجرت پر مزدور رکھا جاتا ہے اور اسے  اپنے ہم پیشہ مرد کے مقابلے میں معمولی معاوضہ دیا جاتا ہے۔خود خواتین کے کام کی جگہوں پر ایسا مناسب نظام نہیں بنایا جا تا جہاں وہ کام کے دوران یا وقہ  میں باآسانی اپنی تھکاوٹ دور کر سکیں ۔ آجر کا ایسا غیر دوستانہ اورظالمانہ رویہ صر ف ہمارے معاشرے کانہیں بلکہ پوری دنیا کا مسئلہ  اور سرمایہ دارانہ سوچ کا نتیجہ ہے ۔ہر  سرمایہ دار  کا مطمح نظر اپنے منافع کو زیادہ سے زیادہ بڑھانا ہے انسانیت کی بہبوداس کے پیش نظر نہیں ہے  ۔ ٹریفک کی خستہ حالی بھی ملازمت پیشہ خواتین کے مسائل میں اضافے کا باعث ہے ، پبلک ٹرانسپورٹ مہنگی،ناخوشگوار اور  بمشکل میسر آتی ہے، جبکہ حکومت تاحا ل   ملک کے بڑے شہروں کی حد تک بھی کوئی مناسب ٹرانسپورٹ مہیا کرنے کے قابل نہیں  ہو سکی ہے ۔
ملازمت پیشہ خواتین ایک اور الجھن کا شکا ر ہیں ، وہ ہمیشہ یہ محسو س کرتی ہیں کہ گھر ان کا اصل میدا ن کار  ہے جسے انہیں ہر طرح کے  حا لات  میں سہارا  دینا ہے ۔ خواتین عام طور پرگھر میں رہنے کو ترجیح دیتی ہیں اور نوکری کا انتخاب  خواہش کی بنیاد پر نہیں بلکہ ضرورت کی بنیاد پر کرتی ہیں ۔وہ اپنے خاندان اور گھر کی ذمہ داریوں کے لیے ناکافی وقت  دینے پر اپنے آپ کو قصووار تصور کرتی  ہیں۔اس دہری ذمہ داری کے سبب  ان پر دوگنا بوجھ پڑتا ہے اور نتیجتا ً اانہیں  بیک وقت دو محاذوں پر لڑنا پڑتا ہے ۔

سعید الراعی

سعید الراعی

پبلک اور پرائیوٹ سیکٹر کی بعض تنظیموں کی طرف سے عورت کو  گھریلو ذمہ داریوں کی ادائیگی میں خصوصی سہولیات فراہم کرنے کے لیے کچھ  اقدامات اٹھا ئے گئے ہیں تاہم یہ  ابھی ناکافی ہیں اور بنیادی طور پر ان کا تعلق صرف زچگی کے معاملات سے ہے ۔اس طرح کے فوائد  ملازمت پیشہ خواتین کے ایک محدود طبقے کو حاصل ہیں جبکہ کہ ایک بڑی اکثریت بحیثیت عورت  اپنے بنیادی  حقوق پر سمجھوتہ کیے ہوئے ہے ۔
ان مسائل کے حل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مناسب  قانون سازی ،قانون  پر عمل درآمد اور کام کے مقامات پر ایک صحت مندانہ اور دوستانہ ماحول پیدا کرنا ضروری ہے ۔کام کرنے والی خواتین کو سماجی حفاظت ، سماجی ضمانت ، بنیادی ضروریات ، غربت میں مدد اور   انصاف  حکومت کی طرف سے فراہم کیا جانا چاہیے ۔معاشر ے کی مجموعی ترقی عورت کی بہبود کی ضامن بھی  ہوگی ۔

عورت اور مرد  دونوں کو ایک جیسی  نوکری کا معاوضہ بلاتفریق یکساں اداکیا جانا چاہیے۔آجر کو چاہیے کہ وہ ملازم خواتین کو مختلف محرکات کی صورت میں سہولت بہم  پہنچائے اور اپنے ملازمین کودوسروں کو ہراساں نہ کرنے کا درس دے ۔ خواتین کے لیے علاحدہ بسوں اور بس سٹاپ کے انتظام سے  ٹرا نسپورٹ کے ساتھ ساتھ ذہنی اذیت کے مسائل کو کم کیا جاسکتا ہے ۔ لو گو ں کوتعلیم دینے اور اپنے پروگرامات اور مطبو عات کے ذریعے خواتین کی عزت و احترام کو بڑھانے کے لیے میڈیا کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ۔فیملی پریکٹس سنٹر  (اسلام آباد)کےتحت  مختلف طبقات میں کیے گئے  حالیہ سروے میں یہ بتایا گیا   کہ اگر خواتین کی معاشی ضروریا ت کی تکمیل کے لیے  متبادل حل دیا جائے تو وہ اپنی ملازمت چھوڑ سکتی ہیں۔

وجیہہ کرن

وجیہہ کرن

مقالہ  نگارنے اس بات پر زور دیا کہ خواتین کے مسائل کا حل خود ان کے اپنے ہاتھ میں ہے ۔خواتین کو اپنی اقدار پر فخر کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں آئندہ نسلو ں کو  منتقل کرنا چاہیے ۔ایک فرد کا کردار اس کی ماں کے ہاتھوں تشکیل پاتا ہے ۔ہمارے معاشرے کی خواتین کو اپنے گھر سے قوت اور مدد ملتی ہے ، اس لیے  انہیں انسانیت کے مستقبل کی تعمیر کے اس مو قع کو استعمال کرنا چا ہیے ۔
پیشہ وارانہ میدان میں خواتین کے بڑھتے ہوئے کردار  پر بحث کر تے ہو ئے انہوں نے کہا کہ خواتین زیادہ تر ان کا مو ں کو ترجیح دیتی ہیں جن میں ذہنی اور فکری خدما ت درکا ر ہو تی ہیں ۔انفارمیشن ٹیکنالوجی ، بینکنگ اورخدمات مہیا کرنے والی تنظیموں میں خواتین کی دلچسپی کا فی ہوتی ہے  ۔اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ خواتین کی مخصو ص مہارتوں کو استعمال میں لا نا زیادہ اہم ہے  بجائے اس کے  کہ انہیں ان کی نجی  زندگی کی ضروریا ت کا لحاظ رکھے بغیر زندگی  کے ہر شعبے میں گھسیٹا جائے ۔ اسی طر ح قومی زندگی کے ایسے شعبوں کی نشاندہی کی بھی ضرورت ہے جہاں خواتین مؤثر رول ادا کرسکتی ہیں اور اپنی بہترین صلاحیتوں کو پوری طرح بروئے کا ر لا سکتی ہیں ۔

سماجی حلقے کی بعض تنظیمیں قانون سازی ہی کو عورت کو درپیش مسائل کے حل کا ذریعہ سمجھتی ہیں  حالانکہ تجربے سے یہ بات ثابت ہے کہ محض  قانون سازی کوئی مثالی  حل نہیں  ہے ۔مغربی اقوا م نے اپنے مسائل کو قانون ، اس پر عمل درآمد کے احکامات  اور ضوابط قانون  کے ذریعے حل کرنے کی بھر پو ر کوشش کی، لیکن نہایت مناسب قانون سازی اور قانون پر عمل درآمد کے بہترین نظام کے باوجود مغر ب میں عورت  کو ظلم اور  تفر یق کا سامنا  ہے ۔ مساوی صنفی حقوق کا علمبردار ہونے کے باوجود برطانیہ  خواتین کو  مردوں کے مقابلے میں مساوی  معاوضہ ادا  نہیں کر رہا (خواتین کا معاوضہ مردوں کے مقابلے میں ۴۲ فیصد کم ہے )۔ایک مناسب تبدیلی کے لیے  معاشرتی اور تعلیمی میدا ن میں اقدامات کی ضرورت زیادہ ہے قانون سازی بالعموم  آخری مرحلہ ہو نا چاہیے ۔
صرف منافع کے حصول کے لیے کی جانے والی سرگرمی میں استحصال اور ظلم کاخطرہ  ہمیشہ موجود رہتا ہے ۔ ہر شخص  جس کے ذہن پر اپنا منافع  بڑھانے کا بھو ت سوارہو وہ اپنی لاگت کم کر نے اور منافع کو بڑھانے کے لیے سب کچھ کر گزرتا ہے ۔ وہ سستے  مزدور کو ترجیح دیتا ہے اور اخلاقی قدروں سے قطع نظر  صنف کا لحا ظ رکھے بغیر کم خرچ  مزدور رکھتا ہے ۔  اس رویے کا بین ثبوت یہ بھی ہے کہ  بہت سی خواتین مالکا ن اورخواتین کے اداروں  کا اپنے خو اتین عملے کے ساتھ رویہ مرد مالکان سے مختلف نہیں ہے ۔
جب مرد اورعورت دونوں بیک وقت تلاش معاش کے لیے نکلیں گے تو خاندان کے ادارے کو قربانی تو دینا ہو گی ۔ایک مثالی خاندان  کو تلاش معاش کی منصوبہ  بندی  گھریلو ضروریا ت اور ماحول کو مد نظر رکھتے ہوئے باہمی  مشاورت اور اطمینا ن سے کرنی چاہیے ۔

خالد رحمٰن

خالد رحمٰن

عور ت کو بااختیا ر بنانے کی یہ ساری بحث اس کے حقوق اور اختیارات پر مرکوز ہے جس سے  یہ مراد لے لی جا تی ہے کہ اصنا ف کے مابین تنازعہ ہے جبکہ ہمارے  معاشرے میں صرف صنفی امتیاز  ہی واحد مسئلہ نہیں ہے ۔مثا ل کے طور پر موجودہ صورت حا ل میں ہمارے ملک میں عورت کو   مرد کے مقابلے میں اعلیٰ تعلیم کے بے شما ر مواقع میسر ہیں۔ اس لیے  اس بحث کو زیادہ جامع  ہو نا چاہیے ۔اس موضوع سے متعلقہ بہت سے قانونی ، سماجی ، ثقافتی اور معاشی پہلو ہیں جن میں سے کسی ایک کو بھی دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا ۔اس لیے عورت کو بااختیا ر بنانے  کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ہمیں اپنی معاشرتی اقدار اور طور طریقوں  کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ یہ ہمارے معاشرہ کے خاندانی نظام پر براہ راست اثر انداز ہو تے ہیں ۔  اور یہ خاندانی نظام  ہما را بیش قیمت اثاثہ ہے ۔اسی طرح  کام کی معاشی تعبیر پر نظر ثا نی کی ضرورت ہے کیونکہ اس کے مروجہ استعمال سے یہ مراد لی جاتی ہے کہ ہر وہ کام جو رضاکارانہ بنیاد پر کیا جائے وہ بےسود ہے ۔

ملازمت پیشہ خو اتین کے حوالے سے مسائل  اور خدشات پر بحث میں سب سے زیادہ زور عورت کومواقع کی فراہمی پر دینا چاہیے  اور یہ بہت اہمیت کا حامل ہے ۔ ہر انسان کی طر ح عورت بھی  اپنی پیدائشی صلاحیتوں اور قابلیتوں کے اظہار کی فطری خواہش رکھتی ہے ، حتیٰ کہ ایک چھو ٹا بچہ بھی اپنی حرکا ت وسکنا ت کے ذریعے اپنے فطر ی جوہر دکھانے کی کوشش کرتا ہے ۔اس لیے ایک عورت جب کچھ سیکھتی ہے تو وہ کہیں اس کے اظہا ر کی خواہش بھی رکھتی ہے ۔یہ بات حو صلہ افزا ہے کہ آ ج کے دور میں عورت کو اپنی  انفرادیت  اور صلاحیتوں کے اظہار کے بے شمار مو اقع اور امکانات میسر ہیں۔خدمات کے شعبے نے عورت کے لیے  پُر آسائش ماحو ل کی فراہمی کے ذریعے کا م کے مو اقع بڑھا ئے ہیں جہاں وہ  جگہ کی دوری کے باوجود بھرپور طریقے سے کا م میں حصہ بھی لے سکتی ہیں اورآگے بڑھنے کے مو اقع بھی حاصل کر سکتی ہیں ۔  اگر توجہ صحیح  سمت میں ہو تو امید کی جاسکتی ہے کہ یہ معاملہ ایک مثبت حل کی طر ف راستہ نکال سکتا ہے ۔

نوعیت : علمی نشست کی روداد
بتاریخ : 6 اکتوبر 2009 ء

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے