ایٹمی سیکیورٹی اجلاس – ایک تجزیہ
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کی معاون تحقیق کا ر محترمہ فاطمہ حبیب نے ۵ مئی ۲۰۱۰ ء کو انسٹی ٹیوٹ کے ایک ان ہاؤس سیشن میں اپریل ۲۰۱۰ء میں ہونے والے ایٹمی سیکیورٹی اجلاس کا تجزیہ پیش کیا ۔اس اجلاس میں ۴۷ ممالک کے نمائندوں نے شر کت کی۔ اس اجلاس کے اہم موضوعات پر بحث کر تے ہوئے انہوں نےوا ضح کیا کہ اجلاس کا بنیادی مقصد دنیا کی توجہ ایٹمی دہشت گردی اور ایٹمی ہتھیاروں کے غیر قانونی استعمال کے خطرے کی طر ف مبذول کر انا تھا ۔ تاہم بعض امکانی مقاصد میں این پی ٹی کے تحت تخفیف ایٹمی اسلحہ پر رضا مند حکومتوں کی حوصلہ افزائی، امریکہ کی ایٹمی برتری کو تقویت دیتے ہوئے اس کی ایک ذمہ دار ایٹمی قوت کے طور پر شہرت میں اضافہ ، پُر امن ایٹمی توانائی کی پیشکش کر تے ہوئے امریکہ کی ایٹمی مارکیٹ کو وسعت دینا اور ایٹمی اور غیر ایٹمی ممالک کو اسلحہ میں تخفیف اور غیر مسلح ہونے کی ضرورت پر زور دینا شامل ہے۔
ایٹمی ہتھیاروں کے فروغ کی بحث کے دو اہم کر دار ایران اور شمالی کوریا نہ اجلاس میں مدعو تھے اور نہ ہی اس اہم اجلاس میں اُن کا ذکر کیا گیا ۔ امریکی صدر باراک اوباما نے مذکورہ بالا دونوں موضوعات کے حوالے سے چینی صد ر ہوجن تاؤ سمیت مختلف عالمی قائدین کے ساتھ باہمی ملاقاتیں اور گفت و شنید کی۔
انہوں نے ایران کی جانب سے اس اجلاس کے ایک ہفتہ بعد ۱۷ اپریل ۲۰۱۰ء کو "ایٹمی توانائی سب کے لیے ، ایٹمی ہتھیار کسی کے لیے بھی نہیں” کے عنوان سےمنعقدہ دو روزہ ایٹمی کانفرنس کو بھی موضوع بحث بنایا ۔اجلاس میں شریک ساٹھ ممالک کے نمائندوں سے خطاب کرتے ہوئے ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے ایٹمی ہتھیاروں کی مکمل تلفی پر زور دینے کے ساتھ ساتھ امریکی صد ر کے اس بیان پر بھی تنقید کی جس میں انہوں نے کہا کہ ایر ا ن اور شمالی کوریا کے خلاف ایٹمی ہتھیاروں کااستعمال خارج از امکان نہیں۔
ایٹمی سیکیورٹی اجلاس میں پاکستان کے ایٹمی پر وگرام کے محفوظ ہونے کے بارے میں امریکہ کی طرف سے اظہار اطمینان کیا گیا تا ہم یہ اظہار اطمینان اجلاس کے اُس ایجنڈےکا حصہ ہو سکتا ہے جس میں یہ کہا گیا کہ "کسی ملک کو نشانہ نہ بنایا جائے "، یا یہ تر غیب اور دباو کی امریکی پالیسی کا حصہ ہے۔
ایٹمی دہشت گردی کے خطر ے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایٹمی دہشت گردی بد ترین منظر ہوسکتا ہے لیکن اس کا امکا ن بہت کم ہے کیونکہ دہشت گرد پہلے سے موجود اور بآسانی دستیاب بارود سے بہت آسانی سے شدید قسم کا نقصان پہنچا سکتے ہیں ۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ عالمی امن کو حقیقی خطر ہ ایٹمی جنگ سے ہے جسے صرف اورصرف ایٹمی طور پر غیر مسلح ہو کر ہی روکا جا سکتا ہے ۔
جواب دیں