آج کا ترکی۔۔ ابھرتا نظریاتی منظرنامہ

2thumb

آج کا ترکی۔۔ ابھرتا نظریاتی منظرنامہ

01

چونکہ ترکی خطے میں ایک اہم مقام رکھتا ہے اس لیے وہ  عالمی سطح پر مسلم ممالک یا دیگر دنیا کے لیے رول ماڈل بننے کی تگ و دو نہیں کرتا۔ ترکی میں اس وقت برسر اقتدار جماعت، جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی، اپنے عوام کی خواہشات اور جذبات کو بنیادی  اہمیت دیتی ہے۔ ترکی یورپی یونین میں شمولیت کا خواہاں ہے لیکن اس مسئلے کو بہت زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔

02ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر گوخان باچک نے 27 جنوری 2011ء  کو منعقد ہونے والی ایک مجلس مذاکرہ میں کیا جو ،زروے یونیورسٹی،  ترکی میں سیاسیات اور بین الاقوامی تعلقات کے شعبے میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ ترکی مفاہمت کی پالیسی پر یقین رکھتا ہے اور اپنے پڑوس میں دشمن پیدا کرنا نہیں چاہتا۔ کرد مسئلے کے حل کے لیے مذاکرات جاری ہیں اور نظم حکومت کو بہتر بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔

 انہوں نے کہا کہ ترکی کے عوام اعتدال پسند ہیں اور وہ انتہا پسندی کو ناپسند کرتے ہیں چاہے وہ کمیونزم کی شکل میں ہو ، سیکولر ازم کی شکل میں ہو یا شدت پسند مذہبیت کی صورت میں ۔
 اپنے صدارتی خطاب میں جناب تنویر احمد خان نے کہا کہ پاکستان کو ترکی ماڈل کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا چونکہ  اسلام ترکی میں ہمیشہ ہی ایک مضبوط حوالہ رہا ہے اس لیے اسلامی زندگی کئی سلسلوں میں منظم تھی۔  انہوں نے اس خیال کا اظہار کیا کہ ترکی رسم الخط کی عربی سے تبدیلی نے ترکی کی نئی نسل کو ترکی کے ماضی سے تقریباً منقطع کر دیا ہے۔

انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے چیئرمین پروفیسر خورشید احمد نے اسلام کے کردار اور روایات کو دوبارہ متعارف کروانے اور موجودہ چیلنجز کے مقابلے کے لیے ان کو اپنانے  پر  ترکی کی معاصر کوششوں کی تعریف کی۔  انہوں نے کہا کہ بہت ہی حقیقت پسندانہ انداز میں اہم رکاوٹوں کا احساس کرتے ہوئے موجودہ ترکی کو اس کی اسلام کے لیے گزشتہ کاوشوں کے تسلسل میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔

03

اس مجلس مذاکرہ کی تفصیلات پالیسی پرسپیکٹوز جِلد ۸، شمارہ ۱، جنوری- جون  میں شائع ہو چکی ہیں۔

09 04 06
08 07 05

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے