امریکی قانون دانوں کے ساتھ ایک نشست — امریکہ میں ’’دہشت گردوں‘‘ کے خلاف مقدمات کا مطالعہ
اسلام آباد کا دورہ کرنے والے دو امریکی قانون دانوں نے یہ اعتراف کیا ہے کہ امریکہ میں دہشت گردی کے الزام میں گرفتار ہونے والے افراد میں سے 70فی صد سے زائد وہ ہیں جنہیں ’’پیشگی کارروائی ‘‘کا حق استعمال کرتے ہوئے استغاثہ کے عمل میں پھنسایا گیا ہے یعنی یہ وہ افراد ہیں جنہوں نے کسی جرم کا ارتکاب نہیں کیا ہے لیکن کسی نظریے کے ساتھ وابستگی ان کا جرم ٹھہرا ہے۔ جس کے باعث یہ فرض کرلیا گیا کہ وہ دہشت گردی کی کوئی واردات کرسکتے تھے۔ جبکہ تقریباً 20فی صد مقدمات ایسے ہیں جوخود حکومت کی طرف سے بھڑکائے گئے۔
جناب ا سٹیفن ڈاؤنز اور محترمہ کیتھی ای مینلے امریکہ میں سماجی انصاف اور معاشرتی آزادی کے لیے وکالت کرتے ہیں ۔انہوں نے اب تک اس طرح کے کئی مقدمات کی پیروی کی ہے۔ان کاکہنا تھا کہ ان مقدمات میں ایک کثیر تعداد ایسی ہے جنہیں نیشنل سکیورٹی بحران کی آڑ میں کھڑا کیا گیا ہے حتیٰ کہ ان کلاسیفائڈرپورٹوں کو سزا کے لیے بنیاد بنایا گیا جنہیں وکلاء صفائی کے سامنے عیاں ہی نہیں کیا گیا تھا۔
وہ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آبادمیں ایک اجلاس سے مخاطب تھے۔ انہوں نے "دہشت گردوں کی ایجاد” کے عنوان سے اپنی تحقیق شرکاء کے سامنے پیش کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ نائن الیون کے واقعہ کے بعد ایسے 399مقدمات میں سے ، جن میں نامزد ملزمان کی کثیر تعداد مسلمانوں پر مشتمل تھی، تقریباً 74فی صد وہ تھے جو مشتبہ تصور کیے گئے افراد کے خلاف کیے گئے آپریشنوں کے بعد قائم کیے گئے۔ اور پھر ان مقدمات کو نامکمل ثبوتوں کے باوجود غیر منصفانہ اندا ز میں نمٹا دیا گیا۔
ان میں سب سے نمایاں مثال ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا مقدمہ ہے جسے مقررین کے بقول تشدد ، زیادتی اور اشتعال انگیزی کا نشانہ بنایا گیا اور پھر شرمناک انداز میں اقدام قتل کے ایک ایسے الزام پر 86برس قید کی سزاسنادی گئی جس پر امریکہ میں عام حالات میں زیادہ سے زیادہ صرف 10سال سزا دی جاتی ہے۔
مقرر نے بے انصافی پر مبنی اس عدالتی کارروائی کو ’’ڈک چینی ڈاکٹرائن‘‘کا شاخسانہ قرار دیا جو ’’ایک فیصد ڈاکٹرائن‘‘ کے نام سے مشہور ہے اور جس کے مطابق ’’قبل از وقوعہ مقدمہ‘‘ قائم کرنے کو ’’جائز قانونی عمل‘‘ سمجھا جاتا ہے اور اس قانونی معیار پر ہروہ شخص پورا ترتا ہے جس کے کسی دہشت گرد کارروائی میں ملوث ہونے کا ایک فیصد امکان بھی موجود ہو۔ مقرر نے اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ درحقیقت امریکہ میں کسی دہشت گرد کے ہاتھوں کسی فرد کے مرنے سے زیادہ پولیس والے کے ہاتھوں مر جانے کے امکانات زیادہ ہیں۔
قانونی ماہرین نے شرکاء کے سامنے اس موضوع کی مناسبت سے بہت سے دیگر مقدمات کا ذکر بطور مثال کیا ۔ انہوں نے ایسے اقدامات کے خلاف مشترکہ آواز اٹھانے پہ زور دیا جن میں خود کش بمبار کے اقدام کو تو غیر انسانی اور دہشت گرد ی قرار دیا جاتا ہے جبکہ ڈرون حملوں کو جائز اور قانونی عمل سمجھا جاتا ہے۔ صرف اس لیے کہ دنیا کو یہ یقین دلایا جاسکے کہ امریکہ میں دہشت گردوں کو شکست دی جارہی ہے۔
آئی پی ایس کے ڈائریکٹر جنرل خالد رحمن نے اپنے اختتامی کلمات میں امریکی قانون دانوں کے تحقیقی کام کی تعریف کی اور نیشنل سکیورٹی کے نام پر ہونے والی ناانصافی، جو کہ درحقیقت انسانیت کو مزید غیر محفوظ کیے جا رہی ہے، کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے پوری دنیا میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم عمل افراد اور گروپوں کے ساتھ مزید رابطہ استوار کرنے پر زور دیاتاکہ عالمی طاقتوں کی طرف سے اپنے لیے قائدانہ کردار طے کرنے میں ذاتی مفاد کا جو کھیل کھیلا جارہا ہے اس میں عام آدمی کو گمراہ کرنے والے بیانات کا توڑ کیا جاسکے۔
نوعیت: کارروائی سیمینار
تاریخ: ۹ ۔اپریل ۲۰۱۵ ء
جواب دیں