بیانیے کی جنگ کا دور اور ۱۹۶۵ء کی جنگ
انسانوں کے درمیان جنگوں کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنا کہ خود انسان۔ تاہم وقت کے ساتھ ساتھ جنگ کی نوعیت اور طریقۂ کار ، جنگی حکمت عملی اور چالوں میں مسلسل تبدیلیاں آتی رہی ہیں۔ زمانۂ قدیم میں جنگوں کانتیجہ ایک فریق کا دوسرے کی زمین پرقبضہ اور وہاں کے باشندوں کی غلامی کی صورت میں نکلتا تھا لیکن عصرحاضر میں عالمی سطح پر جنگ سے متعلق قوانین اوربین الاقوامی اداروں کی موجودگی میں ایسا ہونا اب اگر ناممکن نہیں تو بے حد مشکل ہوچکا ہے۔
اس صورت حال نے ’جنگ‘ سے زیادہ جنگ کے بارے میں ’’بیانئے‘‘ (Narrative) کی اہمیت بڑھادی ہے۔ جنگ ’کس‘ نے اور کیوں شروع کی؟ فریقین نے اپنے اہداف میں کس قدر کامیابی حاصل کی اور انہوں نے اپنے دشمن کی قوت کوکس قدر نقصان پہنچایا وغیرہ۔ یہ وہ عنوانات ہیں، جن پر ’’بیانئے‘‘ کی تیاری جنگی تیاریوں کا زیادہ اہم حصہ بن چکی ہے اور یہ سلسلہ اس وقت تک تو جاری رہتا ہی ہے جب تک دشمنیاں قائم ہوں بیشتر صورتوں میں اس وقت بھی ختم نہیں ہوتا جب دشمنیاں دوستی میں تبدیل ہوچکی ہوں۔ اس طرح وہ بیانیہ جو کسی تنازع کے حوالہ سے تیار کیاجاتا ہے تنازع کو ختم نہیں ہونے دیتا۔
۱۹۶۵ کی پاک بھارت جنگ کے گزرے پچاس سالوں پر نظر ڈالی جائے تو ’بیانیہ کی جنگ‘ کے بہت سے پہلو نمایاں ہوجاتے ہیں ۔۱۹۶۵ میں ہونے والی جنگ کیا دونوں ملکوں کے درمیان پہلی جنگ تھی؟ جنگ کاآغاز کشمیرمیں پاکستان کی طرف سے شروع کئے گئے ’آپریشن جبرالٹر‘ کی بناء پرہوا یا ’آپریشن جبرالٹر‘ بذات خود ہندوستان کی جانب سے ۳ماہ قبل کارگل کی چوٹیوں پرقبضہ کی کارروائیوں کاردعمل تھا۔ ۱۷ روزہ جنگ میں کس فریق کاپلڑا ’واقعی‘ بھاری تھا۔ آخری تجزیئے میں کسے کامیاب اور کسے ناکام قرار دیا جاسکتا ہے۔ عالمی طاقتوں کاکردار کیا تھا اور دونوں ملکوں کے آئندہ تعلقات اورخطے کی صورت حال پرجنگ نے کیا اثرات مرتب کئے؟ یہ اور ان جیسے بہت سے سوالات پر سیاست دانوں، فوجی جرنیلوں، ذرائع ابلاغ سے وابستہ صحاٖفیوں اور دانشوروں نے بلامبالغہ لاکھوں صفحات تحریر کئے ہیں۔ ان میں سے ہر تحریر اپنی جگہ اہم ہے اور واقعات کوسمجھنے میں مدددیتی ہے ۔تاہم ’بیانئے‘ کی جنگ کے تناظر میں مکمل ’سچائی‘ کی تلاش ہمیشہ کی طرح ایک لاینحل سوال رہتاہے۔
عام پاکستانی کے خیال میں جنگ ستمبر ۱۹۶۵ پاکستان کی سا لمیت پر پہلا براہ راست حملہ تھا۔ اورباوجود اس کے کہ حملہ آور پاکستان کے مقابلہ میں کئی گنا بڑا ملک تھا پاکستان نے نہ صرف اسے containکرنے بلکہ push back کرنے میں بھی کامیابی حاصل کی۔ جنگ کوئی بھی ہو تباہی لاتی ہے لیکن فوجیوں کے عزم وحوصلہ اور قربانیوں کے واقعات ،جنگ کے دوران قومی جذبہ ، ملک گیر سطح پراتفاق رائے اور یکجہتی اور مختلف سیاسی قوتوں کے درمیان ہم آہنگی پاکستانیوں کے ذہن میں اس جنگ کی وہ یادیں ہیں جن پر وہ فخر کرتے ہیں۔جنگ کے دوران نامورشعراء اور فنکاروں نے قومی نغموں اور ترانوں کی صورت میں قومی جذبات کی جو ترجمانی کی وہ آئندہ دنوں میں ایک قومی اثاثہ کی حیثیت اختیار کرگئی اور آج بھی ہراہم موقع پر اس کااستعمال ہوتاہے۔ عوامی سطح پر عام تاثر یہ ہے کہ ’جنگ ۱۹۶۵ ‘میدان جنگ میں نہیں بلکہ تاشقند میں مذاکرات کی میزپرہاری گئی۔
اس عام تاثر کے پس منظرمیں اور اس کے نتیجہ کے طور پر بھی پاکستانی سیاست اورا س میں فوج کاکرداربھی پاکستانیوں کی یادوں کاایک اہم حصہ ہے۔ یہ تاشقند کا معاہدہ ہی تھا جس کو بنیاد بناکرذوالفقارعلی بھٹو نے اس وقت کے صدر ایوب خان کے خلاف جارحانہ تحریک شروع کی اورعوام کے جذبات کونمایاں طورپر اپنے حق میں استعمال کیا۔
’پاک امریکہ تعلقات‘ میں آنے والے اتارچڑھاؤ کے حوالے سے بھی جنگ ۱۹۶۵ ء ایک اہم عنوان ہے۔ پاکستان کی اس وقت کی قیادت کا یہ خیال کہ جنگ کی صورت میں اسے نہ صرف واشنگٹن کی تائید حاصل ہوگی بلکہ جنگی ضروریات میں بھی اسے امریکہ سے تعاون ملے گا، غلط ثابت ہوا اور یہ اس کے بعد ہی ہوا کہ ایوب خان نے ’فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘ کی صورت میں کھل کرامریکہ کے بارے میں اپنی مایوسی کا اظہار کیا۔ دوسری جانب یہی وہ وقت اور موقع تھا جب پاک چین تعلقات کی بنیادیں پڑرہی تھیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جنگ ستمبر نے ان بنیادوں کو گہرا کرنے میں مدد دی۔ افغانستان کی جانب سے پاکستان کے لیے اس موقع پر مشکلات نہ پیدا کرنے اور ایران کی جانب سے تعاون بھی اس جنگ کے وہ پہلو ہیں جو پاکستانیوں کو سدا یاد رہیں گے۔
پاکستان اور بھارت اگرچہ آزادی کے فوراً بعد ہی ’کشمیر‘کے حوالے سے جنگ کے میدان میں مدِمقابل آگئے تھے اور یوں ۱۹۶۵ء کا تصادم کوئی پہلا واقعہ نہ تھا لیکن اس جنگ سے پہلے تک دونوں ملکوں کے درمیان باہم تجارت اور عوامی سطح پر آمدورفت کاسلسلہ بڑی حدتک معمول کے نظام پرمشتمل تھا۔ جنگ نے اس عمل کو متاثر کیاجو بالکل فطری ہے لیکن یہ محض وقتی نہیں تھا بلکہ اس کے اثرات آج بھی محسوس کیے جاسکتے ہیں۔
ظاہر ہے اس کی وجہ محض ۱۷روزہ جنگ نہیں بلکہ اس جنگ کے محرکات اور دونوں ملکوں کے درمیان موجود بنیادی نوعیت کے تنازعات ہیں۔ چونکہ یہ تنازعات آج بھی موجود ہیں اس لیے ایک جانب دونوں ملکوں کے نیوکلیئر طاقت ہونے کی بناء پر ان کے درمیان براہ راست جنگ کے امکانات تقریباً معدوم ہیں لیکن دوسری جانب پائیدار امن کے امکانات بھی نظرنہیں آتے۔ ظاہر ہے حل طلب تنازعات میں سرفہرست کشمیرکامسئلہ ہے۔ ستمبر ۱۹۶۵ کی جنگ کو گزرے پچاس سال ہوگئے ہیں ۔ کیاکشمیرکے تنازع کوحل کئے بغیر توقع کی جاسکتی ہے کہ آئندہ پچاس سال میں بھی حالات نارمل ہوسکیں گے؟
جواب دیں