بھارتی خارجہ سروس کے زیر تربیت سفارت کاروں کا دورہ
خطے اور عالمی منظر نامے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان دو طرفہ تعلقات اور تعاون جہاں بڑی اہمیت کا حامل ہے وہاں دونوں ممالک کے درمیان کئی دہائیوں پر محیط تنازعات اور دشمنی کا سبب بننے والے بنیادی مسائل کے حل پر پیش رفت کے بغیر ایسا ہونا ممکن بھی نہیں۔ کشمیر سمیت ان تنازعات کے کسی حل پرمنصوبہ بندی وضع کیے بغیر کسی طویل مدتی حل تک نہیں پہنچاجاسکتا۔
یہ اس گفتگو کا لب لباب ہے جو 20مارچ 2015ء کو بھارتی خارجہ سروس کے زیر تربیت افسران (214بیج )کے ساتھ آئی پی ایس کے دورے کے موقع پر ہوئی۔
وفد کی قیادت انڈین ہائی کمیشن کے فرسٹ سیکرٹری (سیاسیات) ڈاکٹر پیوشن سنگھ کر رہے تھے۔ مہمانوں نے ڈائریکٹر جنرل آئی پی ایس خالد رحمن اور ادارے کے دیگر سینئر ارکان کے ساتھ دلچسپی کے امور پر تفصیلی گفتگو کی۔ آئی پی ایس کے لیڈ کوآرڈینیٹر عرفان شہزاد اور آئوٹ ریچ کے انچارج نوفل شاہ رخ بھی اس موقع پر موجود تھے۔
مندوبین کی رائے تھی کہ چین کے ایک اقتصادی دیو بننے اور بھارت کی حالیہ اقتصادی ترقی کے باعث اس علاقے میں بے انتہا صلاحیت پیدا ہوگئی ہے کہ وہ دنیا کا معاشی منبع بن سکے۔ تاہم یہ سب اسی صورت میں ممکن ہے جب موجودہ تنازعات کا حل تلاش کرلیا جائے۔
وفد نے پاکستان اور بھارت کے درمیان اعتماد کی تعمیر پر زور دیا اور اقتصادی امکانات اور ماحولیات جیسے بہت سے عوامل پر تعاون کے مختلف انداز اپنانے کی تجاویز دیں۔انہوں نے اس یقین کا اظہار کیا کہ جنوبی ایشیا کے ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی معاشی سرگرمیاں اس خطے کو بالآخر سیاسی حیثیت سے ایک عالمگیر قوت کا حامل بنا دیں گی۔
ڈائریکٹر جنرل آئی پی ایس خالد رحمن نے خطے کی اقتصادی صلاحیت تسلیم کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ بھارت عالمی میدان میں اپنی ابھرتی ہوئی حیثیت کے باعث پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنانے میں ایک فعال اور مثبت کردار ادا کرسکتا ہے اور سارک ممالک کے درمیان امن اور استحکام کو یقینی بناسکتا ہے۔یہاں تک کہ وہ دنیا کے اس پیرا میٹر کو تبدیل کرنے میں معاون ہوسکتا ہے جو فی الوقت اقوام متحدہ کے مستقل رکن ممالک کے ہاتھوں میں ساری قوت کے ارتکازکا سبب بنا ہوا ہے۔
سکیورٹی کونسل کا مستقل رکن بننے کے لیے بھارت کی کوششوں کے پس منظر میں انہوں نے کہا کہ بھارت کے پاس یہ اختیار ہے کہ یا تو ایک ایسے موجودہ عالمی نظام کا حصہ بننے کی خواہش کرے جو آج کی دنیا کے مسائل کو حل کرنے میں کامیاب نہیں ہے اور یا پھر موجودہ عالمی نظام کو چیلنج کرنے اور عالمگیر مسائل کے حل میں جدوجہد کا حصہ بننے کے لیے ایک اہم اور فعال کردار ادا کرنے پر مائل ہو۔
جواب دیں