سیمینار: بجلی کی بڑھتی قیمتیں __نیپرا اور صارفین
مؤثر اور پائیدار منصوبہ بندی کا فقدان، کم نظری، کرپشن، اہم سرکاری عہدوں پر باصلاحیت افراد کا تقرر نہ ہونا اور قومی کے بجائے گروہی مفادات کو اولیت دینا، وہ کمزوریاں ہیں جو آج بجلی کے مہنگا ہونے اور لوڈشیڈنگ کا سبب بنی ہوئی ہیں۔ آئندہ ہمیں اپنا رُخ درست کرنا چاہیے۔ ان خیالات کا اظہار انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے زیرِاہتمام بجلی کی قیمتوں کے تعین کے بارے میں منعقدہ ایک سیمینار ’’بجلی کی بڑھتی قیمتیں ____ نیپرا اور صارفین‘‘ میں کیا گیا جس کی صدارت آئی پی ایس نیشنل اکیڈمک کونسل کے رکن اور اس کے توانائی پروگرام کے کوآرڈی نیٹر، سابق وفاقی سیکرٹری پانی و بجلی مرزا حامد حسن نے کی۔
سیمینار میں اظہارِ خیال کرنے والوں میں نیپرا کے نمائندے سید سلمان رحمن، آئیسکو کے نمائندے وحید اکرم، توانائی کے اُمور کے ماہر انجینئر صلاح الدین رفاعی، انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کی ریسرچ ایسوسی ایٹ امینہ سہیل شامل تھیں۔
سیمینار میں بتایا گیا کہ بجلی کا فی یونٹ موجودہ نرخ 14روپے ہے، جس پر 17 فی صد جی ایس ٹی اور 3.5 فی صد ایکسائز ڈیوٹی لگنے کے بعد یہ 16.95روپے ہو جاتا ہے، جو اس خطے کے ملکوں میں سب سے زیادہ ہے۔
سیمینار کے مقررین اور شرکاء نے پاکستان کے توانائی کے منتظمین کی کوتاہ نظری پر تنقید کرتے ہوئے نشاندہی کی کہ تیل کی بنیاد پر بجلی پیدا کرنے کا بڑھتا ہوا تناسب پاکستان میں بجلی کی قیمت میں مجموعی اضافے کی سب سے اہم وجہ ہے۔ بتایا گیا کہ پاکستانی کرنسی کے لحاظ سے بھارت میں فی یونٹ نرخ 7.36 روپے، بنگلہ دیش میں 5.47 روپے اور حتیٰ کہ مجموعی طور پر بہت مہنگے ملک امریکہ میں اس کا نرخ 8.59روپے ہے۔
صلاح الدین رفاعی نے اس موقع پرکہا کہ ہمیں مستقبل کی طرف دیکھتے ہوئے ماضی سے سبق سیکھنا چاہیے۔ سب سے اہم سبق یہ ہے کہ جب تک ہم بجلی کی پیداوار کے لیے اپنے پنج سالہ ترقیاتی منصوبوں میں درست منصوبہ بندی کرتے رہے، ہمیں بجلی کے بحران کا سامنا نہیں ہوا اور جب سے ہم نے ٹھوس، پائیدار اور حقیقی منصوبہ بندی کرنا چھوڑ دی، قومی مفادات کے بجائے محدود گروہی مفادات کا پاس کیا تو ہم پریشانیوں میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ دنیا بھر میں تیل کی قیمتیں بڑھتی جا رہی ہیں، ہمیں مستقبل میں ایسے منصوبوںکو اختیار کرنا چاہیے جو تیل کی بنیاد پر نہ ہوں۔ انہوں نے مختلف ممالک کے تقابلی اعداد و شمار سے واضح کیا کہ پاکستان کے لیے پانی سے اور پھر کوئلہ سے بجلی پیدا کرنا سستا اور کامیاب منصوبہ رہے گا۔
پاکستان میں ابتدا سے توانائی کے لیے وضع کی جانے والی منصوبہ بندیوں کا جائزہ پیش کرتے ہوئے صلاح الدین رفاعی نے شرکاء کو بتایا کہ واپڈا نے جب آغاز کیا تو اس کی بجلی کی پیداواری صلاحیت 118MW، پیداوار 700GWH، آمدنی 70ملین روپے اور صارفین کی تعداد 2,70,000 تھی۔ ابتدا میں ملک کے اندر بجلی پیدا کرنے والا شعبہ مالی طور پر خودانحصار تھا۔ 1980ء کی دہائی کے وسط تک واپڈا نے اپنے منافع اور حکومت سے 17 سے 18 فی صد مرکب سود پر لیے گئے قرضوں کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت 5700 میگا واٹ تک بڑھا لی تھی۔ حکومت نے 1985ء میں واپڈا کو قرضوں کی ادائیگی روک دی۔۔
انہوں نے مزید بتایا کہ 1960ء سے 1985ء تک واپڈا پر 18 فی صد سالانہ ترقیاتی بوجھ بھی تھا۔ اس شرط پر کہ واپڈا اپنے منافع میں سے مالی خود انحصاری پر 40 فی صد خود خرچ کرے ورلڈ بنک نے یہ ذمہ اٹھایا کہ وہ ترقیاتی اخراجات میں اپنی رقم 60 فی صد تک بڑھا دے گا۔ یہ 1985ء کی بات ہے جب نجی شعبے کی طرف سے بجلی پیدا کرنے کے تصور کو متعارف کروایا گیا اور وفاقی حکومت نے پہلا ٹینڈر جاری کیا۔
انہوں نے کہا کہ 1988ء میں دسیوں پیشکشوں میں سے فرنس آئل پر مبنی 1292میگاواٹ کے حبکو پلانٹ کی مفاہمتی یادداشت پر دستخط ہوئے اور اس طرح پاکستان تیسری دنیا کا پہلا ملک بن گیا جس نے فرنس آئل سے چلنے والے بے انتہا اخراجات کے حامل نجی پاور پلانٹ کی منظوری دی۔ انہوں نے حکومتِ پاکستان کے حبکو کے ساتھ کیے جانے والے معاہدے میں مالیاتی شرائط پر شدید تنقید کی۔
1955ء سے 2010ء کے دوران بجلی کی پیداواری صلاحیت میں مقرر کردہ اہداف کو حاصل کرنے کے اعدادوشمار پیش کرتے ہوئے انجینئر رفاعی نے بتایا کہ پہلے پانچ سالہ منصوبے (60-1955) سے آٹھویں پانچ سالہ منصوبے (98-1993) تک کی کارکردگی تسلی بخش رہی۔ تاہم بدقسمتی سے نویں پانچ سالہ منصوبے (2003-1998) میں اس کے لیے کوئی اضافی منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ اس طرح میڈیم ٹرم ڈویلپمنٹ فریم ورک (2010-2005) میں طے کردہ 7880 میگاواٹ کے برعکس صرف 6 فی صد کے انتہائی کم اہداف کو حاصل کیا جا سکا۔ انہوں نے کہا کہ یہ اس ناکامی کا شاخسانہ ہے کہ آج بجلی کی کمی 3916میگاواٹ تک جا پہنچی ہے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ حکومت کی طرف فرنس آئل کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں پر مرتب کردہ پالیسیاں موجودہ بحران کا اصل سبب ہیں۔ انہوں نے انتباہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر بین الاقوامی سطح پر تیل کی قیمتیں اس رفتار سے بڑھتی رہیں تو 1994ء میں 0.6/KWH روپے والی بجلی 2013ء میں 15 روپے تک بڑھ جانے کے بعد 2025ء میں 100 روپے تک جا پہنچے گی۔
نیپرا کے نمائندے سلمان رحمن نے بتایا کہ نیپرا ایک آزاد و خودمختار ادارہ ہے جو بجلی کی پیداوار، ترسیل اور تقسیم وغیرہ کے تمام امور کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے، صارفین سمیت تمام متعلقہ حلقوں کے مفادات کا خیال رکھتا ہے اور اس کی روشنی میں مقررہ طریقِ کار کے مطابق بجلی کی قیمتوں کا تعین کیا جاتا ہے۔ ہم صارفین کے نقطۂ نظر اور ان کی آراء کا خیر مقدم کرتے ہیں، تاہم یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ صارفین کا رجوع بہت کم ہوتا ہے۔
آئیسکو کے نمائندے وحید اکرم نے بتایا کہ بجلی کی تقسیم کی دیگر کمپنیوں کے مقابلے میں آئیسکو کا ریکارڈ بہتر ہے۔ یہاں بجلی چوری کے واقعات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ بجلی کے بلوں کی وصولی دسمبر 2013ء میں گھریلو صارفین سے 101 فی صد اور سرکاری اداروں سے صرف 53 فی صد ہوئی ہے۔ آزادکشمیر حکومت سے بجلی کے نرخ پر ایک تنازعہ چل رہا ہے وہ آئیسکو کو 2.20روپے فی یونٹ کے حساب سے ادائیگی کرتے ہیں جب کہ نیپرا نے سرکاری اداروں کے لیے 12روپے فی یونٹ نرخ مقرر کیا ہوا ہے۔ جس کے باعث سرکاری شعبہ سے ہماری وصولی ہدف سے بہت کم ہوتی ہے۔ گھریلو صارفین سے سو فی صد سے زیادہ وصولی کی وجہ بیان کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اس کی کئی وجوہات ہوتی ہیں جس میں گزشتہ بلوں کی وصولی سب سے اہم وجہ ہے۔
امینہ سہیل نے نیپرا اور بجلی کے شعبہ سے وابستہ دیگر اداروں پر زور دیا کہ وہ صارفین میں بجلی کے نرخ اور بلوں میں کمی کے لیے مؤثر آگہی کا اہتمام کریں۔
سوال و جواب کے موقع پر سیمینار کے شرکاء میں سے متعدد نے اپنے ذاتی واقعات کے حوالے سے میٹر ریڈر اور بجلی کے دیگر عملہ کے بارے میں شدید شکایات کا اظہار کیا۔ نیشنل یونیورسٹی فار سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے شعبہ الیکٹریکل کے سربراہ ڈاکٹر ہابیل نے تجویز پیش کی کہ ایسے میٹرز بنانے میں ہماری یونیورسٹی نے کئی تجربات کیے ہیں جس سے میٹر ریڈر کی ضرورت نہیں رہتی اور تفصیلی اور درست ریڈنگ بذریعہ SMS مرکزی دفتر کو بھیجی جا سکتی ہے۔ اس قسم کے آلات بھی بنائے جا سکتے ہیں جو شام میں زیادہ نرخ کے اوقات میں بجلی زیادہ خرچ کرنے پر صارف کو خبردار کر دیں۔
آئی پی ایس کے ڈائریکٹر جنرل خالد رحمن نے اپنے اختتامی کلمات میں تجویز کیا کہ جامعات اور تھنک ٹینکس کے ساتھ بامعنی روابط نیپرا کو مسائل کے حل کی نئی راہیں دکھائیں گے، خصوصاً جدید ٹیکنالوجی کا استعمال اب ناگزیر ہے۔
سیمینار کے صدر مرزا حامد حسن نے سیمینار کو اس لحاظ سے بہت مفید قرار دیا کہ اس سے نہ صرف نیپرا اور آئیسکو کو اپنا نقطۂ نظر مؤثر طور پر پیش کرنے کا موقع ملا بلکہ دوسری طرف انہیں صارفین کی جانب سے اپنے مسائل اور ان کی سے شکایات براہِ راست سننے کا موقع بھی ملا۔
نوعیت: روداد سیمینار
تاریخ: 29 جنوری2014ء
جواب دیں