طرزِ حکمرانی اور پالیسی سازی میں بہتری بامعنی بجٹ کے لیے ضروری ہیں: ماہرین
اقتصادیات اور دیگر شعبوں کے ماہرین نے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد کے قبل بجٹ سیمینار میں طرزِ حکمرانی اور پالیسی منصوبہ بندی میں بہتری لانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ تاکہ بجٹ بنانے کی مشق کو ملک کے لیے حقیقی طور پر بامعنی اور مثبت عمل بنایا جا سکے۔
14 مئی2015ء کو ہونے والے اس قبل بجٹ سیمینار کا عنوان تھا: ’’بجٹ2015-16ء: ترجیحات کا تعین‘‘۔ اس سیمینار کی صدارت معروف ماہر معاشیات اور آئی پی ایس کے چیئرمین پروفیسر خورشید احمد نے کی۔ جن ماہرین نے اس سیمینار میں اظہارِ خیال کیا ان میں:
ڈاکٹر ناہید ضیاء خان، ڈین، سوشل سائنسز، فاطمہ جناح ویمن یونیورسٹی، راولپنڈی؛ مرزا حامد حسن، سابق سیکرٹری وزارت پانی و بجلی اور انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کی نیشنل اکیڈمک کونسل کے ممبر؛ ڈاکٹر واجد پیرزادہ، چیف ایگزیکٹیو آفیسر، روٹس؛ ڈاکٹر شمائل دائود ارائیں، سابق صدر راولپنڈی چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز راولپنڈی (RCCI)؛ ریاض الحق، سابق ایڈیشنل سیکرٹری، گورنمنٹ آف پنجاب، سابق ممبر نیشنل ٹیرف کمیشن آف پاکستان اور ممبر آئی پی ایس نیشنل اکیڈمک کونسل شامل ہیں۔
ڈاکٹر ناہید نے موجودہ میکرواکنامک کیفیت کی تصویر پیش کی اور آنے والے بجٹ کے لیے ترجیحات کی تجاویز دیں۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ پاکستان نے معاشی بہتری کے حوالے سے گزشتہ سال میں کچھ ترقی کی ہے، جسے ورلڈ بنک نے بھی تسلیم کیا ہے، تاہم سماجی ترقی کے میدان میں بہتری کی کوئی علامت دیکھنے میں نہیں آئی۔ جہاں یہ ملینیم ترقی کے اہداف کے 9 اشاریوں میں کامیاب اور 24 میں اہداف سے پیچھے ہے۔
ان کے خیال میں معاشی نمو بھی پائیدار معلوم نہیں ہوتا کیونکہ ملک کی درآمد و برآمد کا تجارتی توازن نمایاں طور پر ہمارے حق میں نہیں ہے۔ اسی طرح زراعت کے تمام اہم سیکٹرز اور قدرتی وسائل (جیسے پانی) کے تحفظ اور مؤثر استعمال کے پہلو سے بھی مؤثر اقدامات نہیں کیے گئے۔ انہوں نے طرزِ حکمرانی اور ریگولیٹری نظام کی کمزوری پر تنقید کرتے ہوئے موجودہ حکومت پر زور دیا کہ وہ اپنی بقیہ مدت میں ان معاملات میں نظر آنے والی بہتری پیدا کرے۔
ڈاکٹر شمائل نے بھی ڈاکٹر ناہید کے نقطۂ نظر کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ جی ایس پی پلس کا مرتبہ حاصل ہو جانے کے باوجود پاکستان اب تک اپنی سالانہ برآمدات کے مطلوبہ ہدف یعنی 25 بلین ڈالر کو عبور نہیں کر سکا، جس کا نتیجہ بڑھتا ہوا تجارتی خسارہ ہے۔انہوں نے ٹیکس کے موجودہ پیچیدہ نظام میں جزوی تبدیلیاں کرنے کے بجائے اسے نمایاں طور پر بہتر بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔ کیونکہ ٹیکس کا موجودہ نظام ٹیکس دہندہ اور ٹیکس انتظامیہ میں اعتماد کا رشتہ ختم کرنے کا باعث ہے نیز حکومت کی غیرمؤثر حکمت عملیوں کے باعث یہ یکساں سلوک اور انصاف پر مبنی نظام نہیں ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ حکومت کی نااہلی اور عدم تسلسل کی غیرذمہ دارانہ پالیسیوں کا بوجھ تجارت و صنعت پر نہ ڈالا جائے۔
توانائی کے شعبہ پر بات کرتے ہوئے مرزا حامد حسن نے کہا کہ حکومت اس شعبہ میں اپنے ہی طے کردہ اُن اہداف کے حصول میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے جو اس نے اقتدار میں آنے کے بعد اپنے دو سالانہ قومی منصوبوں میں شامل کیے تھے۔گردشی قرضہ (سرکلر ڈیٹ) دوبارہ بڑھتا چلا جا رہا ہے جس کی وجہ طرزِ حکومت اور ریگولیٹری نظام کی خامیاں ہیں۔
انہوں نے حکومت کی غیرمربوط اور عدم تسلسل پر مبنی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے دیامربھاشا ڈیم کو بطور مثال پیش کیا، جس کے لیے گزشتہ سال کے بجٹ میں 10 بلین روپے رکھے گئے تھے کیونکہ اس میں پانی کے وسیع ذخیرے اور سستی پن بجلی کی پیداوار کے ذریعے لمبے عرصے کے لیے ملک میں بجلی کے بحران کو حل کرنے میں اس کا اہم کردار تھا۔ لیکن آنے والے بجٹ میں سپیکر کے بقول بھاشا ڈیم کو درمیان میں چھوڑ دیا گیا ہے اور اب داسو ڈیم کے لیے ورلڈ بنک سے 588 ملین ڈالر کا قرضہ منظور کروایا گیا ہے جو صرف بہتے پانی سے بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ ہے اور اس میں پانی کو ذخیرہ کرنے کی سہولت نہیں ہے۔
ڈاکٹر واجد پیرزادہ نے زراعت کے تمام شعبوں میں سرمایہ کاری کرنے کی طرف توجہ دلائی۔ ریاض الحق نے سماجی اور انسانی ترقی کے لیے زیادہ حصہ مختص کرنے کا مطالبہ کیا، خصوصاً صحت اور تعلیم کے لیے۔
پروفیسر خورشید احمد نے بحث کو سمیٹتے ہوئے طرزِ حکمرانی کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ بناتے وقت عملیت پسندی کی اپروچ کے ساتھ ساتھ اس کے لیے مناسب منصوبہ بندی، قابلِ عمل ہونے کا مطالعہ (فیزیبلٹی) اور ٹیکنیکل مشاورت کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔
Seminar Report: http://goo.gl/fW8GgG
جواب دیں