چین پاکستان سے ” اسٹریٹجک پارٹنر” کی حیثیت سے تعلقات مضبوط بنائے گا
پاکستان میں چین کے سفیر لیو جیان نے کہا ہے کہ ایٹمی توانائی کا پر امن استعمال ہر قوم کا حق ہے اس معاملے میں دوہرے معیارات ناپسندیدہ ہیں ان سے اجتناب کیا جاناچاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ چین مسئلہ کشمیر کے پر امن حل کا خواہاں ہے جو پاکستان اور بھارت کے باہم مذاکرات سے ہی ہو گا۔ بھارت کے زیر قبضہ کشمیر کے باشندوں کے لئے چین کی ویزا پالیسی اصولوں پر مبنی ہے اور یہ جاری رہے گی۔
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد کے سیمینار میں ’’اصلاح اور ترقی کے لئے چینی تجربہ اور پاک چین تعلقات‘‘ کے موضوع پر وہ ترقی کے سفر میں چین کے تجربات بیان کر رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ چین ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے حوالے سے دوہرے معیارات کے سخت خلاف ہے۔
چین کی کامیابیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دنیا کے ایک ممتاز ملک کی حیثیت سے چین کی شناخت کے پیچھے اس کے عوام اور قیادت کی کئی عشروں پر محیط اخلاص پر مبنی انتھک محنت نظر آتی ہے۔
آج یہ پالیسی دنیا میں ایک کامیاب اور ہمہ گیر ترقی کے لئے نمونہ کے طور پر دیکھی جاتی ہے۔ مختلف میدانوں میں چینی عوام کی کامیابیوں کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آج تجارتی حجم کے حوالہ سے چین دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے، جو بین الاقوامی ترقی میں اپنا قائدانہ کردار ادا کر رہا ہے۔ ترقی کی حکمت عملی وضع کرنے والے رہنماؤں نے یہ خیال رکھا ہے کہ ترقی کے ثمرات میں ملک کے تمام علاقے اور تمام طبقات یکساں حصہ دار ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی کے مقابلے میں چین کی فی کس آمدنی ۳۲ گنا زیادہ ہو چکی ہے، چین کی آزادی کے وقت اوسط انسانی عمر کا اندازہ ۳۵ سال تھا اور آج یہ ۷۳ برس ہے۔
چینی سفیر لیو جیان نے چین کی خارجہ پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ پالیسی باہمی اعتماد اور احترام انسانی کی بنیاد پر مرتب کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی معاملات میں کچھ ممالک اپنے حصہ سے بڑا رول ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تاہم چین کی پالیسی جن اصولوں پر مبنی ہے ان میں امن، ہم آہنگی اور ایسی بین الاقوامی برادری کا فروغ شامل ہے جس میں تمام لوگوں کو یکساں حیثیت اور احترام حاصل ہو۔
انہوں نے کہا کہ چین اس قابل ہو چکا ہے کہ وہ تجارت اور ثقافتی و سماجی رابطوں کے ذریعے دنیا کے تقریباً تمام ملکوں سے بہتر تعلقات قائم کرتے ہوئے پوری انسانیت کے لئے ایک خوش حال مستقبل کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کرے۔ چین نے مارکیٹ اکانومی میں داخل ہونے کا فیصلہ کیا تو اس نے اپنے ماہرین مختلف ملکوں میں بھیجے تا کہ وہ ان ملکوں کے تجربات سے فائدہ اٹھا سکیں۔ آج چین دوسری اقوام کو اپنے ہاں خوش آمدید کہتا ہے جو اس کے تجربات سے سیکھنا چاہتے ہیں۔ تا ہم ہر ملک اور ہر سماج کی اپنی ثقافتی و سماجی خصوصیات ہوتی ہیں جن کی بناء پر ترقی کا ماڈل تعمیر کیا جا سکتا ہے۔ اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
پاک چین تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک پہلے ہی باہمی دلچسپی کی بہت سی یاد داشتوں پر دستخط کر چکے ہیں، اب وقت آ چکا ہے کہ ان کو عملی شکل دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ان کا ملک پاکستان کے ساتھ تعاون کو مزید گہرا کرنے کا خواہش مند ہے اور وہ حکومت پاکستان کو پہلے ہی تجویز کر چکا ہے کہ دونوں ممالک کی قیادتیں مل کربیٹھیں اور ان مسئلوں کا مؤثر حل نکالنے کے طریقے وضع کیے جائیں جن کا پاکستان کو سامنا ہے۔ ان مسائل میں خصوصیت کے ساتھ توانائی کا بحران اہم مسئلہ ہے۔ دونوں اقوام کے درمیان حالیہ برسوں میں مختلف شعبوں میں تعاون کا دائرہ وسیع ہوا ہے، یہ سرکاری سطح پر بھی ہوا ہے اور عوامی سطح پر بھی۔ چین نے پاکستان میں توانائی، ٹرانسپورٹ اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے شعبوں میں مؤثر اور بھرپور عملی معاونت کی پیش کش بھی کی ہے۔
چین کے سفیر نے کہا کہ ان کا ملک پاکستانی طلبہ کے لئے ۵۰۰ وظائف کی پیش کش کر رہا ہے جو ان طلبہ کو چین میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے ممد و معاون ہوں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ سیاحت کے لئے سفری سہولیات اور پاکستان کی تاجر برادری کو اپنے ملک میں آنے کی حوصلہ افزائی کرنے کے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ دونوں ملکوں کے عوام کے باہمی روابط کو مزید مضبوط بنایا جانا چاہیئے۔
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے چیئر مین پروفیسر خورشید احمد نے کہا کہ چین نے ترقی کا جو راستہ دکھایا ہے اس میں ایسی تبدیلیاں کر کے اسے اور بھی مؤثر بنایا جا سکتا ہے جوپاکستانی قوم کی نظریاتی اور سماجی اقدار سے ہم آہنگ ہوں۔ انہوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ دنیا کی معیشت میں چین کے بڑھتے ہوئے معاشی حصے کے ساتھ ساتھ عالمی معاملات میں باہمی احترام، باہمی اعتماد اور ہمہ گیر ترقی جیسی مثبت اقدار کے فروغ میں بھی وہ اپنا حصہ ادا کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ چین ترقی پذیر ملکوں کے لئے ہی ماڈل نہیں ہے بلکہ بڑی طاقتوں کے لئے بھی اس سے سبق سیکھنے کے مواقع موجود ہیں۔
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز نے یہ سیمینار پاک چین تعلقات کی 60 ویں سالگرہ کے حوالہ سے منعقد کیا تھا جس میں پاکستانی سفارتکاروں، دانشوروں، چیمبرز آف کامرس کے نمائندوں اور یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلبہ کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔
جواب دیں