وافر توانائی کی طرف بڑھتا پاکستان : توانائی کے نئے وسائل اور بچت کے لیے سفارشات
متبادل اور قابلِ تجدید توانائی (ARE)کے حوالے سے ایک کانفرنس ۱۳ تا ۱۵اکتوبر ۲۰۱۲ء جناح کنونشن سنٹر اسلام آباد میں منعقد ہوئی۔ جس کا عنوان تھا ’’وافر توانائی کی جانب بڑھتا پاکستان۔‘‘ اس کانفرنس کا انعقاد قابلِ تجدید توانائی ایسوسی ایشن پاکستان (REAP)، توانائی پروگرام انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (IPS)اور متبادل توانائی ترقیاتی بورڈ (AEDB)کے اشتراک سے کیا گیا۔ کانفرنس کے اختتام پر ایک اعلامیہ کے ذریعے حکومت، مالیاتی اداروں ،صنعت و تجارت اور توانائی کے صارف کی حیثیت سے عام شہری کے لیے اہم سفارشات سامنے آئیں۔ ان سفارشات کا مقصد ملک کے لیے مناسب اور محفوظ حد تک توانائی کا حصول ممکن بنانا، متبادل اور قابلِ تجدید توانائی کو فروغ دینا اور دوسری جانب توانائی کی بچت کرنا ہے۔
کانفرنس کا افتتاحی اجلاس 13اکتوبر کو ہُوا جس کا عنوان تھا:’’پاکستان میں متبادل اور قابلِ تجدید توانائی ٹیکنالوجی کی ترقی مواقع، رکاوٹیں اور راہِ عمل‘‘ اس اجلاس سے AEDBکے چیف ایگزیکٹیو آفیسر عارف علاؤ الدین، IPSکے ڈائریکٹر جنرل خالد رحمن، REAPاسلام آباد کے چیئرمین آصف جاہ، اسلامی ترقیاتی بنک سعودی عرب کے منیجر برائے توانائی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی فرخ محمود میاں، اور AREٹیکنالوجی کے دیگر ماہرین نے خطاب کیا جن میں بائیو گیس، شمسی توانائی، مِنی مائیکرو ہائیڈل، بائیو ماس، ہوائی چکی وغیرہ کے ماہرین شامل ہیں۔
شرکاء نے ان وافر وسائل اور مواقع پر سیرحاصل گفتگو کی جو متبادل اور قابلِ تجدید توانائی کی صورت میں موجود ہیں اور جن میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ پاکستان میں توانائی کی ضروریات کو پورا کر سکیں۔ اس ضمن میں حکومت پر بھی زور دیا گیا کہ وہ براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری حاصل کرنے کے لیے مناسب ماحول تشکیل دے تاکہ مقامی سطح پر توانائی کے ان ذرائع پر کام کرنے والے افراد اور کمپنیوں کی حوصلہ افزائی ہو اور انہیں ایسی سہولتیں حاصل ہو سکیں کہ وہ جدید ترین ٹیکنالوجی کے ان منصوبوں پر مناسب رقم لگا کر لوگوں کی ضروریات پوری کرنے اور بحران پر قابو پانے میں کامیاب ہوں۔
متبادل اور قابل تجدید توانائی کے بیرون ملک سے آنے والے منصوبوں کے علاوہ شرکاء کو ان منصوبوں سے بھی آگاہ کیا گیا جو مقامی سطح پر دستیاب ٹیکنالوجی سے چلائے جاسکتے ہیں ان میں بائیو گیس اور چھوٹی سطح پر پانی سے بجلی بنانے کے منصوبے شامل ہیں۔ ٹیکنالوجی کے ان منصوبوں کے بارے میں یہ رائے بھی دی گئی کہ ان کے باعث دیہی آبادی کی اقتصادی صورتِ حال کو بھی بہتر کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح بائیو گیس کی صورت میں موجود ٹیکنالوجی کو بھی اس نظر سے دیکھا جا سکتا ہے۔نیز زمین کے بہت بڑے قطعوں کو استعمال میں لا کر نباتاتی توانائی کی ایسی قسم پیدا کی جاتی ہے جس سے ہمارے درآمدی اخراجات میں بڑی حد تک کمی لائی جاسکے۔
کانفرنس میں شریک افراد کی تجاویز میں یہ بات بھی شامل تھی کہ توانائی کے ان تمام منصوبوں کے لیے درکار اشیاء کی درآمدی ڈیوٹی ختم کی جائے، متبادل اور قابلِ تجدید توانائی کے طریقوں کی مناسب تشہیر کی جائے۔ ایسے قوانین وضع کیے جائیں جن کی مدد سے گھریلو سطح پر توانائی کے ان منصوبوں سے حاصل ہونے والی توانائی کو فروخت بھی کیا جاسکے اور ٹیکنالوجی کی منتقلی کے لیے درکار تربیت اور ان منصوبوں کی حفا ظت اور دیکھ بھال جیسے عوامل کو آسان بنایا جاسکے۔ اس طرح متبادل توانائی کے ان منصوبوں کو مقامی سطح پر ترقی دینے کی ضرورت پرزور دیا گیا تاکہ چھوٹے اور درمیانے ہائیڈل پراجیکٹس اوربائیو گیس منصوبوں کی صورت میں اس کے تجارتی فائدے بھی اٹھائے جاسکیں۔
عارف علاؤ الدین نے پہلے اجلاس کے اختتامی کلمات میں کہا کہ پاکستان کا امریکہ،کینیڈا، جرمنی بلکہ انڈیا سے بھی تقابلی جائزہ لینا مناسب نہیں کیونکہ یہ ممالک 0.5سے 0.7ڈالر فی یونٹ تک صارف کو مالی اعانت (سب سڈی) فراہم کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ انڈیا نے 18بلین امریکی ڈالر کی رقم عوام کو بجلی پر سب سڈی فراہم کرنے کے لیے مختص کردی ہے۔ ہمیں توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے قابلِ نفاذ منصوبوں پر توجہ دینی چاہیے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ایشیائی ترقیاتی بنک نے پاکستان کو 500ملین ڈالر کی رقم کئی سالہ مالیاتی فریم ورک(MFF)کے ذریعے فراہم کرنے کی آفر کی تھی جو قابل تجدید توانائی کے بڑے منصوبوں میں استعمال کی جاسکتی تھی۔ جس میں پنجاب میں 10مائیکرو ہائیڈل پراجیکٹس جن کی ابتدائی مالیت 140ملین ڈالر تھی اور بقیہ رقم بھی دیگر پراجیکٹس میں استعمال کرنے کا منصوبہ تھا جو MFFکے تحت آتے ہیں۔
کانفرنس کے دوسرے اجلاس کا عنوان تھا: ’’توانائی کی بچت اور مؤثر استعمال: چھوٹے اقدامات، بڑے اثرات‘‘ اس کی صدارت سابق وفاقی سیکرٹری و چیئرمین نیشنل ٹیرف کمیشن مسعود داہر نے کی۔ اس اجلاس میں اظہارِ خیال کرنے والوں میں REAPکے صدر آصف جاہ، بورڈآف انویسٹمنٹ کی ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر رانیہ احسن، قائد اعظم یونیورسٹی میں ڈین فیکلٹی بیالوجیکل سائنسز ڈاکٹر اصغری بانو نیز متبادل اور قابلِ تجدید توانائی (ARE)کے ماہرین اور صنعتی و تعلیمی اداروں کے نمائندے شامل تھے۔
تیسرے اور آخری اجلاس کا موضوعِ گفتگو تھا: ’’عمومی پالیسیاں اور اقدامات‘‘ اس کی صدارت آئی پی ایس توانائی پروگرام کے چیئرمین اور سابق سیکرٹری پانی و بجلی حامد حسن نے کی۔ آئی پی ایس کے ڈائریکٹر جنرل خالد رحمن اور آئی پی ایس توانائی پروگرام کی کوآرڈی نیٹر امینہ سہیل نے اجلاس سے خطاب کیا اور کانفرنس کا اعلامیہ اور توانائی کے مسئلہ پر کانفرنس کی جانب سے ٹھوس تجاویز کا خلاصہ پیش کیا۔
اجلاس کے شرکاء نے متبادل اور قابلِ تجدید توانائی کی ایسی نئی پالیسی کی تشکیل کی ضرورت پر زور دیا جس میں توانائی کے حصول کے متبادل ذرائع کی ٹیکنالوجی کو فروغ دیا جائے جن میں ہوائی چکی، شمسی توانائی، فضلاتی مواد اور زمینی حرارت سے حاصل کردہ توانائی کے طریقے شامل ہیں۔
اجلاس میں تجویز کیا گیا کہ متبادل ذرائع سے توانائی کی پیداوار اور اس کی تقسیم کے لیے مناسب قوانین وضع کیے جائیں؛ متبادل اور قابلِ تجدید توانائی (ARE)کو دیہی توانائی پالیسی کا حصہ بنایا جائے؛ متبادل ذرائع کے نظام سے حاصل کردہ توانائی کو پبلک مقامات، دفاتر، ہسپتال اور اسکول وغیرہ میں روشنی کرنے کے لیے استعمال کیا جائے؛ روایتی توانائی کی بچت اور اس کے مؤثر استعمال کو فروغ دیا جائے؛ متبادل ذرائع سے حاصل کردہ توانائی کو روایتی توانائی کی کمی دُور کرنے کے لیے استعمال کیا جائے؛ متبادل ذرائع کے لیے استعمال ہونے والے آلات کو پاکستان میں بنانے کی صنعت کو وسعت دی جائے؛ متبادل وسائل توانائی کی ٹیکنالوجی کے غیر معیاری آلات کی حوصلہ شکنی کی جائے؛ توانائی کے متبادل اورقابلِ تجدید وسائل کو فروغ دینے کے لیے مالی ترغیبات کی پالیسی وضع کی جائے۔
کانفرنس نے جن بنیادی امور پر توجہ دلائی جو مستقبل میں سول سو سائٹی، صنعت، عوامی نمائندوں اور پالیسی سازوں میں باہمی ربط کے ذریعے مؤثر پالیسیاں بنانے اور ان پر ورکنگ گروپ بنا کر مؤثر چیک رکھنے کے لیے ضروری ہیں، وہ یہ ہیں:
متبادل اور قابل تجدید وسائل سے بجلی پیدا کرنا اور اسے فروغ دینا (مناسب سرکاری پالیسی، مالی اداروں کے تعاون اور تجارتی سہولتوں کے فروغ کے ذریعے)؛ تعمیراتی قوانین میں مناسب تبدیلی اور اس کا شعور پیدا کرنا (بلڈنگ کے قواعد و ضوابط میں مناسب تبدیلیاں، معیار بندی کا اہتمام، ایجاد واختراع کے ملکیتی حقوق کا تحفظ اور شعور عام کرنا، تربیت اور استعداد کار میں اضافہ کا اہتمام)؛ تحقیق و ترقی کے شعبہ کا فروغ (تعلیمی تحقیق اور صنعت و تعلیم میں ربط کا اہتمام)۔
مقررین اور شرکاء اجلاس نے متفقہ طور پر قرار دیا کہ متبادل توانائی کی ٹیکنالوجی توانائی کے متنوع و سائل فراہم کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتی ہے اور یہ لوگوں کے مسائل حل کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوسکتی ہے۔ یہ بجلی کی پیداوار سے لے کر دیہاتوں اور قصبوں میں چولہا جلانے اور گھر روشن کرنے تک کام آسکتی ہے نیز صنعتی و تجارتی اطلاقات میں توانائی کے بہت سے متبادلات پیش کر سکتی ہے۔
شرکاء نے قراردیا کہ سفارشات کا ایک مجموعہ سرکاری طور پر تمام پالیسی سازوں کی مشترکہ کوششوں اور مسلسل جدوجہد سے آگے بڑھا یا جائے جس میں وافر توانائی کی طرف بڑھتے پاکستان کے لیے متبادل وسائل توانائی کو مجموعی توانائی پروگرام کے ایک اہم حصے کے طور پر شامل کیا جائے۔
متبادل وسائل توانائی (ARE)سے بجلی کی پیداوار کے لیے ایک ایسی پالیسی کی منظوری کی سفارش کی گئی جس سے گھریلو شعبہ میں بجلی کے استعمال کا موجودہ 60فی صد بوجھ متبادل وسائل توانائی پر اگلے دو تین سال میں منتقل کردیا جائے۔ اگر موجودہ 40فی صد بوجھ بھی وہاں منتقل ہوجائے تو گِرڈ کی بجلی میں 4ہزار میگاواٹ کی بچت ہوگی۔ نیز ایک ایسے باضابطہ نظام کا مطالبہ بھی کیا گیا جس میں صارف اپنی ملکیتی عمارت میں پیدا کردہ توانائی فروخت بھی کرسکے۔
یہ بات شدت سے محسوس کی گئی کہ دیہی اور دُور دراز علاقوں میں توانائی کی ضروریات شمسی توانائی، بائیوگیس، بائیو ڈیزل اور چھوٹے یا درمیانے ہائیڈل سسٹم سے پوری ہوسکتی ہیں۔
تجویز کیا گیا کہ حکومتی پالیسی میں LEDنیز LVDاور انرجی سیور بلب کے استعمال کا فروغ شامل ہو۔ جو خصوصاً گھروں،دفاتر اور پبلک مقامات جیسے ہسپتالوں، تعلیمی اداروں، پٹرول یا گیس اسٹیشن، ریلوے اسٹیشن، ہوائی اڈوں، تجارتی مراکز اور صنعتوں وغیرہ میں روایتی نظام کی جگہ لے لیں تو بجلی کی کھپت میں اندازاً 30فی صد تک کمی ہوسکتی ہے۔ اس طرح شمسی توانائی اور ہوا کی طاقت سے پبلک مقامات کو روشنی فراہم کی جاسکتی ہے۔ نیز LEDاستعمال کرنے والے اشتہاری بورڈز، کارنر بورڈز اور ٹریفک نشانات اور ٹریفک سگنلز وغیرہ کو بھر پور طور پر فروغ دیا جائے۔
قابلِ تجدید توانائی کے استعمال سے چولہاجلانے کی ضروریات پوری کرنے اور قدرتی گیس بچانے نیز اس کے دیگر استعمالات کے پیشِ نظر مقررین نے بائیو گیس اور بائیو فضلات کو دیہی علاقوں میں کھانا پکانے کے لیے استعمال کرنے کی سفارش کی ہے؛ بائیو ڈیزل کو گاڑیوں اور پانی کھینچنے والی موٹروں میں، سولر گیز ر کو گھریلو استعمال کے لیے پانی گرم کرنے یا گھر، دفتر، تعلیمی اداروں یا فیکٹری وغیرہ کو گرم رکھنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح صنعتی ضرورت کے لیے بنائے گئے سولر گیزر کو فیکٹریوں میں بوائلر ز کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
چھوٹی یا درمیانی سطح پر پانی سے بجلی پیدا کرنے کے لیے مِنی یا مائکرو ہائیڈل نظام نہروں پر لگانے کی بھرپور سفارش کی گئی ہے۔ ایسے منصوبے ملک کے مختلف علاقوں میں مستقل یا موسمی نہروں پر بڑی تعداد میں شروع کیے جاسکتے ہیں خصوصاً پنجاب اور صوبہ خیبر پختون خوا میں ۔ نیز گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے پہاڑی ندی نالوں میں بھی یہ نظام کام کرسکتا ہے جس سے اُن قریبی علاقوں اور دیہاتوں کو بھی جو خواہ گِرڈ نظام سے دُور ہوں بجلی فراہمی کے نظام میں شامل کیا جاسکتا ہے۔
عمارتوں کے قانونی ضابطوں اور قواعد میں فوری تبدیلی کی ضرورت کا مطالبہ کیا گیا جس کے ذریعے خصوصاً نئی بننے والی عمارتوں اور مکانات کو اپنی توانائی ضروریات کا ایک تہائی حصہ (33فی صد)متبادل اور قابلِ تجدید توانائی کے ذرائع سے پورا کرنے کا پابند بنایا جائے۔
کانفرنس کی دیگر سفارشات میں متبادل اور قابلِ تجدید توانائی ٹیکنالوجی میں استعمال ہونے والے تمام آلات کی ملک کے اندر پیداوار کی حوصلہ افزائی کرنا بھی شامل ہے تاکہ ایسے آلات بیرون ملک سے درآمد کرنے کا خرچ کم سے کم ہو۔ ایک اہم سفارش اسٹیٹ بنک سے یہ کی گئی ہے کہ مالیاتی اداروں کے لیے قابل تجدید توانائی کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے کی ایک کم سے کم لازمی حد مقرر کردی جائے۔
حکومت سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ حکومت اس بات کو یقینی بنائے کہ تمام بلدیاتی ادارے کچرے سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے مقامی اور بیرونی امداداور تعاون سے شروع کریں؛ تمام ہاؤسنگ سوسائٹیاں اپنے تمام ترقیاتی منصوبوں میں سٹرکوں پر بجلی لگانے کے منصوبے سولر انرجی سے مکمل کریں اور اپنا کوڑا کچرا ضائع کرنے کے بجائے توانائی میں تبدیل کرنے کے پراجیکٹس میں استعمال کریں؛ آئندہ تمام اشتہاری بورڈز وغیرہ کی تنصیبات سولر انرجی کی بنیاد پر ہوں اور وہ خاص قسم کے LEDلائٹ والے بل بورڈ استعمال کرنے کے پابند ہوں۔
بجلی کے تجارتی استعمال کی حد شہروں میں شام 8بجے تک ہو؛ سرکاری پالیسیوں کی تنفیذصارفین اور فروخت کنندہ گان کے لیے آسان اور وَن ونڈوآپریشن کے طور پر ہو؛ مستقبل کے تیکنیکی ماہرین کو قابلِ تجدید توانائی کی مصنوعات، ٹیکنالوجی اور توانائی کی بچت سے آگاہ کرنے کے لیے پیشہ ورانہ اور ٹیکنیکل اداروں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے نصاب میں ضروری تبدیلیاں کی جائیں؛ مقامی مصنوعات کی تیاری کے لیے فیکٹری مالکان کو تربیت، استعداد کار، مارکیٹ میں حصہ داری اور آسان قرضوں کے ذریعے سہولتیں فراہم کی جائیں؛ مقامی مصنوعات کے اختراعی ملکیتی حقوق کی پالیسی کو آسان اور قانونی لحاظ سے مؤثر بنایا جائے تاکہ مصنوعات میں بہتری اور ترقی لائی جاسکے اور تحقیق اور ترقی کے اخراجات کا تحفظ ہوسکے؛ متبادل اور قابلِ تجدید توانائی کے آلات اور مصنوعات کی پیداوار میں سہولیات مہیا کی جائیں اور اس کے عملی استعمال سے آگہی دینے کے لیے اس کے نمائشی مراکز قائم کیے جائیں۔
جواب دیں