سیمینار: دہشت گردی – امریکی پالیسیاں اور عوام
امریکہ میں زیرِحراست بہت سے مشتبہ دہشت گرد ایف بی آئی اور امریکی ایجنسیوں کے فتنہ انگیز جاسوسوں کے دام میں پھنسے ہوئے افراد تھے جنہیں وہ تصاویر اور ویڈیوز دکھا کر امریکہ مخالف پروپیگنڈے کا شکار کیا گیا تھا جن میں امریکی فوجی عراق اور افغانستان کے غیرمسلح شہریوں اور قیدیوں پر تشدد اور زیادتی کرتے دکھائے گئے ہیں۔ جذباتی اشتعال دلا کر ردعمل میں کی گئی ان کی گفتگو کو اس ثبوت کے طور پر پیش کیا گیا کہ وہ امریکہ اور وہاں کے لوگوں پر جنگ مسلط کر دینا چاہتے ہیں۔ ان کے مقدمات کی سماعت قطعی طور پر منصفانہ نہیں تھی اور انہیں سزایافتہ قاتلوں سے بھی بدترحالات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ ان خیالات کا اظہار نامور امریکی سکالر اور انسانی حقوق کے وکیل ماوری سالا خان نے کیا جو پیس تھرو جسٹس فائونڈیشن (The Peace through Justice Foundation) کے ڈائریکٹر اور دہشت گردی اور اسلام کے موضوع پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔
وہ اسلام آباد میں ’’دہشت گردی-امریکی پالیسیاں اور عوام‘‘ کے موضوع پر آئی پی ایس کے سیمینار سے خطاب کر رہے تھے۔ سیمینار کی صدارت آئی پی ایس کے چیئرمین پروفیسر خورشید احمد نے کی اور اس میں ماہرین ِ تعلیم، صحافیوں، فعال سماجی کارکنوں اور طالب علموں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کیس کا حوالہ دیتے ہوئے سالا خان نے اسے امریکہ کی تاریخ میں انصاف کا بدترین قتل قرار دیا۔ مقدمے کی سماعت کے خصوصی حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کے خلاف فوجداری فرد جرم میں دہشت گردی کا ایک بھی الزام شامل نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ فیڈرل جج رچرڈ برمین، جس نے نیویارک میں مقدمے کی سماعت کی تھی، نے استغاثہ کو ہر وہ سہولت فراہم کی جس کی اسے ضرورت تھی۔ ان میں سب سے نمایاں بات یہ تھی کہ ہر اس گواہی پر پابندی لگا دی گئی جس سے عافیہ کے لاپتہ رہنے والے ۵ سال کی خفیہ قید پر روشنی ڈالی جا سکتی ہو۔
عافیہ صدیقی کے مقدمے کا براہِ راست مشاہدہ کرنے والے ایک گواہ کی حیثیت سے سالا خان نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ فروری ۲۰۱۰ء میں شروع ہونے والے اس مختصر مقدمے کا نمایاں ترین پہلو یہ تھا کہ حکومتی گواہوں کے بیانات اور مواد کی صورت میں فراہم کردہ ثبوت آپس میں کوئی میل نہیں کھاتے تھے اور یہ بات واضح طور پر مدعا علیہ کے حق میں جاتی تھی۔ تاہم انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سب کے باوجود عافیہ کو فرد جرم کے تمام سات نکات کے تحت مجرم قرار دیا گیا اور ۸۶ سال کی ناحق قید سنا دی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی مظلوم ہے اور امریکی عدالت کا فیصلہ دستاویزی شہادتوں اور قانونی و عدالتی روایات کے لحاظ سے صریحاً ناانصافی پر مبنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عافیہ صدیقی اور دیگر معصوم قیدی امریکہ کی جانب سے عالمی سطح پر مسلمانوں کے خلاف ابھاری گئی نفرت کی مہم کا شکار ہوئے ہیں۔ امریکی عوام کو قتل کیے جانے کے خدشات پر مبنی پروپیگنڈے کی یہ نفرت انگیز مہم بذاتِ خود قابلِ نفرت ہے جس نے گذشتہ دس سالوں میں دہشت گردی کے نام پر معصوم لوگوں کو تختۂ ستم بنا دیا ہے۔
پروفیسر خورشید احمد نے صدارتی کلمات ادا کرتے ہوئے کہا کہ امریکی فیصلہ سازوں کو اس بات کا ادراک کرنا چاہیے کہ دہشت گردی کا آغاز ۹/۱۱ سے نہیں ہوا ہے۔ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے واقعہ میں ہزاروں معصوم شہریوں کا قتل عام یقینا ایک قابلِ مذمت عمل ہے، تاہم دہشت گردی کے خلاف لڑائی کو اس سے بڑی دہشت گردی سے لڑنے کا نتیجہ اس کے فروغ اور پوری دنیا میں دہشت گردی کے پھیلائو کے علاوہ کچھ اور نہیں نکل سکتا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسے اقدامات کے نتائج انسانی جانوں کے زیاں، اقوام عالم میں افتراق اور بھاری معاشی نقصانات کی صورت میں ہی سامنے آئیں گے۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ دراصل تشدد اور قتل و غارت گری کے ذریعے کچھ سیاسی اور اقتصادی مقاصد حاصل کرنے کے لیے تھی۔ انہوں نے صورتِ حال پر حقیقت پسندانہ اور عملی نقطۂ نظر اپنانے پر زور دیا تاکہ اس کا حل صرف تنقید کے بجائے سیاسی مسائل کو سیاسی بصیرت کے ذریعے حل کرنے کے اصول پر تلاش کیا جا سکے۔
نوعیت: روداد سیمینار
تاریخ: ۱۱مارچ ۲۰۱۴ء
جواب دیں