دورِ جدید اور مسلم خواتین
خواتین کی تعلیم – قابل توجہ پہلو
خواتین کی تعلیم کے حوالے سے مسلم دنیا میں ایک طرف ایسے لوگ ہیں جو سرے سے لڑکیوں کو جدید علوم کی تعلیم دینے ہی کے مخالف ہیں اور دوسری طرف اب درس گاہوں میں لڑکیاں ان شعبوں میں بھی لڑکوں سے کہیں زیادہ بڑی تعداد میں زیر تعلیم ہیں جو خالص مردوں کے شعبے سمجھے جاتے ہیں۔ افراط و تفریط پر مبنی ان رویوں میں اعتدال پیدا کرنا ضروری ہے۔ خواتین کو اپنے فطری دائرہ کار کے مطابق عملی زندگی میں خانہ داری اور بچوں کی دیکھ بھال اور تربیت کی جن ذمہ داریوں کی ادائیگی کرنی ہوتی ہے، ان کی تعلیم و تربیت میں ان ذمہ داریوں کو بھی ملحوظ رکھا جانا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کے لیے ایسے مضامین مختص کیے جانے چاہییں جن میں سند لینے کے بعد وہ اگر عملی زندگی میں معاشی جدوجہد کرنا چاہیں تو اس کے لیے مخلوط ماحول میں کام کرنا ضروری نہ ہو۔
خواتین کے لیے طب، تدریس، ہوم اکنامکس وغیرہ کے روایتی مضامین کے علاوہ اب جدید ٹیکنالوجی نے کئی اور ایسے شعبوں کے دروازے بھی کھول دیے ہیں جن میں مہارت حاصل کرکے وہ گھر بیٹھے روزی کماسکتی ہیں۔ کمپیوٹر اور انٹر نیٹ نے اس نوعیت کے روزگار کے بے شمار مواقع پیدا کردیے ہیں۔ لڑکیوں کو ان شعبوں میں تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دی جانی چاہیے ۔ مخلوط تعلیمی ادارے اسلامی تعلیمات سے مطابقت نہیں رکھتے، لہٰذا مسلم ممالک کی حکومتوں کو لڑکوںاورلڑکیوں کے لیے ہر سطح پر جداگانہ تعلیمی ادارے قائم کرنے چاہییں اور اس کے ساتھ ساتھ نجی شعبے کو اس سمت میں مزید پیش قدمی کرنی چاہیے۔
تعلیم کے میدان میں اصلاح کی دیگر کوششوں کے ساتھ ساتھ خاندانی نظام اورعائلی زندگی کے مسائل کے حوالے سے خاص طورپر توجہ دی جائے تاکہ طلبہ و طالبات خاندان اورسماجی اقدار کے موضوعات پر درجہ بہ درجہ ضروری معلومات اوررہنمائی حاصل کرسکیں۔ بہتر ہوگا کہ ابتدائی درجات میں الگ مضمون پڑھانے کے بجائے اسے دوسرے مضامین میں سمو دیا جائے اورمیٹرک اوراس سے بعد کے مراحل میں اسے ایک علاحدہ مضمون کے طورپر شاملِ نصاب کیاجائے۔ واضح رہے کہ خاندان اورسماجی اقدار پر مبنی اس مضمون اورمعلومات سے قطعاً یہ مراد نہیںہے کہ جنسی تعلیم یا خاندانی منصوبہ بندی کے طریقوں کو مغربی انداز سے متعارف کرایاجائے۔
جواب دیں