دورِ جدید اور مسلم خواتین
خواتین اور حصول معاش کی جدوجہد
یہ بات اگرچہ درست ہے کہ اسلام عورتوں پر معاشی جدوجہد کی ذمہ داری عائد نہیں کرتا لیکن یہ ان کے لیے ممنوع بھی نہیں ہے بلکہ اسے پسند کیا گیا ہے اور اس کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ اس ضمن میں ایک بہت چشم کشا اور بصیرت افروز واقعے کا ذکر کرتے ہوئے مولانا سید جلال الدین انصر عمری اپنی کتاب ’’عورت اسلامی معاشرے میں‘‘ سنن ابوداؤد کتاب الطلاق کے حوالے سے لکھتے ہیں :
’’جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میری خالہ کو ان کے شوہر نے طلاق دے دی۔ (طلاق کے بعد ان کو عدت کے دن گھر ہی میں گزارنے چاہیے تھے لیکن عدت کے دوران ہی میں ) انہوں نے اپنے کھجور کے چند پیڑ کاٹنے (اور فروخت کرنے ) کا ارادہ کیا تو ایک صاحب نے سختی سے منع کیا(کہ اس مدت میں گھر سے نکلنا جائز نہیں ہے)۔ یہ خاتون حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میںاستفسار کے لیے گئیں تو آپؐ نے جواب دیا ’’کھیت جاؤ اور اپنے کھجور کے درخت کاٹو(اور فروخت کرو) اس رقم سے بہت ممکن ہے کہ تم صدقہ و خیرات اور کوئی بھلائی کا کام کرسکو( اس طرح یہ تمہارے لیے اجرِآخرت کا سبب ہوگا)۔یوں ان الفاظ کے ذریعے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جابرؓ کی خالہ کو انسانیت کی بہی خواہی اور فلاح و بہود کی ترغیب دی۔اس کا مطلب یہ ہے کہ شریعت عورت کو اس قابل دیکھنا چاہتی ہے کہ وہ اپنے جیسے دوسرے انسانوں کی خدمت کرسکے اور اس کے ہاتھوں بھلے کام انجام پائیں۔‘‘ (عورت اسلامی معاشرے میں، ص :۱۲۲-۱۲۳)۔ اس واقعے سے پتہ چلتا ہے کہ زمانہ عدت میں جب کسی غیر معمولی ضرورت کے بغیر عورت کا گھر سے باہر نکلنا ممنوع باور کیا جاتا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مسلمان خاتون کو اپنی معاشی ضرورت کی تکمیل کے لیے گھر سے باہر نکلنے کی اجازت ہی نہیں دی بلکہ اس کی حوصلہ افزائی بھی فرمائی۔
ایسی متعدد مثالوں میں سے ایک اور مثال جلیل القدر صحابی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زوجہ محترمہ کی ہے۔مولانا جلال الدین انصر عمری اپنی مذکورۂ بالا کتاب میں طبقات ابن سعد کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ کی بیوی صنعت و حرفت سے واقف تھیں۔ اس کے ذریعے اپنے اور اپنے خاوند اور بچوں کے اخراجات بھی پورے کرتی تھیں۔ ایک دن آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر انہوں نے عرض کیا : میں ایک کاریگر عورت ہوں،چیزیں تیار کرکے فروخت کرتی ہوں (اس طرح میں تو کما سکتی ہوں لیکن ) میرے شوہر اور بچوں (کا کوئی ذریعہ آمدنی نہیں ہے اس لیے اُن) کے پاس کچھ نہیں ہے ۔ اس کے بعد انہوں نے رسالت مآب سے دریافت کیا کہ کیا وہ ان پر خرچ کرسکتی ہیں۔آپؐ نے جواب دیا : ہاں تم کو اس کا اجر ملے گا۔‘‘(ایضاً، ص:۱۲۶-۱۲۷) ۔
دور اول کے ان نظائر سے پوری طرح عیاں ہے کہ اسلام میں عورتوں کو معاشی جدوجہد میں شرکت سے نہ صرف یہ کہ روکا نہیں گیا بلکہ اسے پسندیدہ قرار دیا گیا ہے۔اس لیے آج کے طرز زندگی میں جب ایک طرف خاندان کی ضروریات کی تکمیل کے لیے اضافی وسائل کی اہمیت بڑھتی جارہی ہے، اور دوسری طرف مسلمان خواتین مختلف شعبوں میں تعلیم و تربیت کے ذریعے معاشی جدوجہد میں شرکت کی صلاحیت بھی حاصل کررہی ہیں ، اورگھر داری کی جدید مشینی سہولتوں کی بناء پر ان کے پاس اتنا وقت بھی ہے کہ وہ گھر اور بچوں کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ کسبِ معاش کے لیے بھی وقت نکال سکتی ہیں تو ضروری ہے کہ انہیں اسلام کی مقرر کردہ حدود میں اس کی بہتر سے بہتر سہولتیں فراہم کی جائیں۔
جواب دیں