دورِ جدید اور مسلم خواتین

vailed-women

دورِ جدید اور مسلم خواتین


مسلم دنیا میں خاندان کے ادارے کو درپیش چیلنج

مغرب کی اس ابتر صورت حال کے مقابلے میں مسلم دنیا میں گھر اور خاندان کے ادارے ابھی بڑی حد تک مستحکم ہیں، نکاح کرکے باقاعدہ گھر بسانا اور ماں باپ دونوں کا مشترکہ طور پر اولاد کی پرورش کرنا ہی عام طریقہ ہے ۔ نیز والدین، بہن بھائیوں اور دوسری رشتہ داریوں کا لحاظ اور احترام بھی مسلم معاشروں میں مغرب کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ چنانچہ دنیا میں کہیں بھی مثالی اسلامی معاشرہ موجود نہ ہونے کے باوجود مسلم دنیا میں خاندان کے ادارے کا بڑی حد تک استحکام اور اسلام کی عائلی اقدار کا کسی نہ کسی درجے میں برقرار رہنا، مغربی عورتوں کو اسلام کی جانب مائل کرنے کا ایک اہم سبب ہے۔ تاہم مغربی تہذیب سے جس طرح زندگی کے دوسرے شعبے متاثر ہوئے ہیں، اسی طرح خاندانی نظام میں بھی کمزوری آنا شروع ہوگئی ہے۔

مغرب میں عورتوں کی معاشی جدوجہد میں بڑے پیمانے پر شمولیت کے لیے گھر سے باہر نکل کر کارگاہوں، دفاتر اور بازاروں کا رخ کرنا ہی خاندانی نظام کے بکھرنے کا بنیادی سبب بنا ہے۔ وقت کے تقاضوں کی بناء پر اب مسلمان معاشروں میں بھی عورتوں کے لیے معاشی جدوجہد میں شمولیت کی ضرورت بڑھتی جارہی ہے۔ طرز زندگی میں آنے والی تبدیلیوں اورمہنگائی میں مسلسل اضافے نے ایک خاندان کے لیے ایک شخص کی کمائی کو اکثر صورتوں میں ناکافی بنادیا ہے۔ نیزپوری مسلم دنیا میں تعلیم کے میدان میں بھی خواتین مسلسل آگے بڑھ رہی ہیں اور جدید علوم و فنون کے مختلف شعبوں میں مہارت حاصل کررہی ہیں۔ ان اسباب کے فطری نتیجے کے طور پرمسلم خواتین حصول معاش کے لیے بہت بڑے پیمانے پر مختلف پیشے بھی اپنارہی ہیں۔خواتین کا معاشی سرگرمیوں میں شریک ہونا اسلامی تعلیمات کے منافی ہرگز نہیں ہے لیکن اس عمل میں معاشرتی زندگی کے لیے اسلام کے مقرر کردہ حدود کا لحاظ رکھا جانا لازمی ہے۔

اسلامی تاریخ کے اولین ادوار میں اسلام کی مقرر کردہ حدود کی پابندی کے ساتھ خواتین کی معاشی سرگرمیوںمیں شمولیت کی بہت سے مثالیں موجود ہیں۔ اگلے صفحات میں نمونے کے طور پر ان میں سے بعض کا ذکر کیا گیا ہے۔ تاہم یہاں اس جانب توجہ دلانا مقصود ہے کہ اسلام کی مقرر کردہ حدود کی پابندی کا اہتمام نہ ہونے کی وجہ سے مسلمان معاشروں میں بھی خاندانی سطح پر وہ خرابیاں تیزی سے بڑھ رہی ہیں جنہوں نے مغرب میں خاندان کے ادارے کی تباہی میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ تعلیمی اداروں اور پھر دفاتر اور کارگاہوں میں آزادانہ اختلاط مردوزن‘ ذرائع ابلاغ کی حیا سوز پالیسیوں، سوشل میڈیا کی صورت میں موبائل فون اور انٹرنیٹ کے ذریعے چوبیس گھنٹے باہمی رابطوں کے کھلے مواقع، اس کے ساتھ ساتھ مسلم معاشروں میں مقامی ثقافتوں کے زیر اثر رائج غیر منصفانہ اور ظالمانہ رسوم ورواج اور ان کے سبب جنم لینے والی بے اطمینانی ، یہ سب عوامل خاندان کے ادارے کو کمزور کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔

ان حالات میں ضروری ہے کہ مسلمان خاندان کے ادارے کو منتشر ہونے سے بچانے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات عمل میں لائیں اور آج کے حالات کے مطابق اجتماعی و سماجی زندگی میں خواتین کے کردار کے حوالے سے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایک قابل عمل ماڈل وضع کریں۔ خاندان کے ادارے کو مغرب کے انجام سے بچانے اور معاشی جدوجہد میں عورتوں کی شمولیت اور اجتماعی زندگی کے دیگر شعبوں میں ان کے کردار کی ادائیگی کے لیے اسلامی حدود کے اندر رہتے ہوئے کیا کچھ کیا جانا چاہیے، ذیل میںاس کا ایک اجمالی خاکہ پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے