آئندہ بجٹ میں انسانی ترقی اور بہبود کو فوقیت دی جائے
انسٹیٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز اسلام آباد میں ۱۹ مئی ۲۰۱۶ کو منعقد ہونے والے ایک پری بجٹ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ماہرین اقتصادیات نے پاکستان کی اقتصادی شماریات کی زبوں حالی کا بڑا سبب حکومت اور آئی ایم ایف کی طرف سے اعداد و شمار میں غلط بیانی کو قرار دیا۔
انہوں نے حکومت سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ آنے والے مالیاتی سال 2016-2017 کےلئے ملکی بجٹ طویل عرصے پر محیط قومی اقتصادی ترجیحات کی بنیاد پر بنایا جائے جس میں انسانی ترقی اور فلاح و بہبود کو فوقیت دی جائے ۔اقتصادی منصوبہ بندی اور پالیسی سازی کا مقصد محض ادائیگیوں کا توازن نہیں ہے۔ بجٹ ملک کی اقتصادی پالیسیوں کی سمت کا تعین کرتا ہے اسے محض اقتصادی اعداد و شمار اور اکاؤنٹنگ کی مشق نہی ہونا چاہیے۔
سیمینار کے مرکزی مقرر ، ڈین سکول آف سوشل سائینسز اینڈ ہیومینیٹیز نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور سابقہ اقتصادی مشیر وفاقی حکومت ڈاکٹر اشفاق حسن خان نے کہا کی آئی ایم ایف نے حکومت کی اقتصادی ناکامی پر آنکھیں بند کر رکھیں ہیں۔
سیمینار کی صدارت سابق چیف اکانومسٹ پلاننگ کمیشن آف پاکستان جناب فصیح الدین نے کی اور سابق وفاقی سیکرٹری جناب مسعود داہر نے بھی خطاب کیا۔ جناب فصیح الدین اور مسعود داہر صاحب آئی پی ایس نیشنل اکیڈمک کونسل کے ممبران بھی ہیں۔
ڈاکٹر خان نے حکومت کی میکرو واکنامک پالیسیوں بالخصوص اخراجات کی پالیسیوں اور تر جیحات پر کڑی تنقید کی۔ انکا کہنا تھا کہ موجودہ مالی مینجرز کے اقدامات کے نتیجے میں ملک 2018-2019 میں قرضوں کے شکنجے میں پھنسنے جا رہا ہے۔ اگر 2014 میں تیل کی قیمتیں کم نہ ہوتیں تو اب تک حکومت کم از کم آٹھ بلین ڈالر کا قرضہ ملک پر ڈال چکی ہوتی۔
انہوں نے کہا کہ حکومتی دعووں کے بر عکس جی ڈی پی میں اضافہ 6 فیصد کی بجائے ۳ سے ۸ء۳ فیصد کے لگ بھگ رہا ہے۔۔
ڈاکٹر خان نے کہا کہ جی ڈی پی کا مالیاتی خسارہ حقیقی معنوں میں ۸ فیصد سے زیادہ رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ ۱۷۸ ارب روپے کی بڑی رقم "شماریاتی تضادات” کا شکار ہو رہی ہے۔ انہوں نے موجودہ اقتصادی منتظمین کے گزشتہ تین سال کے دوران بڑی صنعتوں اور زراعت کی پیداوار میں اوسطاَ اضافہ کو بلترتیب ۲ء۳ فیصد سے ۸ء۲ فیصد گردانا۔ انہوں نے پشین گوئی کرتے ہوئے کہا کہ "زرعی ترقی رواں سال بھی جمود کا شکار رہے گی”۔
انہوں نے کہا کہ ایف بی آر محصولات کا ہدف ٹیکس ری-فںڈ کی ادائگیوں کو روک کر حاصل کر رہا ہے۔ تقریبا دو ملین نوجوان اس وقت جاب مارکیٹ کا حصہ نہیں ہیں۔ کپاس کی 50ملین گانٹھیں صرف پچھلے سال کے دوران ضائع کر دی گئیں بجکہ ایک ملین گانٹھوں کا نقصان نصف فیصد جی ڈی پی کے نقصان کے مترادف ہے۔ 700 ملین روپے ترقیاتی بجٹ میں سے صرف 466 ملین روپے ترقیاتی کاموں پر لگائے گئے اور صوبوں کوتاخیری حربوں اور فنڈز کے عدم استعمال کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے سوشل سیکٹر بجٹ سے محروم رکھا گیا۔
جواب دیں