عالمی معاشی بحران اور اسلامی معاشیات
عالمی معاشی بحران
یہ بڑی عجیب بات ہے کہ ابھی چند روز پہلے ہی ایک اور بھونچال مغرب کی مالیاتی دنیا میں آیا ہے، اور ایک بہت بڑے بنک–برکلے بنک–کے بہت ہی تکلیف دہ اسکنڈلز (scandals) سامنے آئے ہیں، جس سے معلوم ہوا کہ بنکوں کے بارے میں یہ تاثر کہ وہ بڑے قانون اور ضابطے کے پابند اور اپنی روایات کے مطابق کام کرتے ہیں،درست نہیں ہے۔ بلکہ اس سطح پر بھی کرپشن، گٹھ جوڑ، ہوس، ذاتی منافع اور ہیر پھیر (under hand)، ان سب کا رواج ہے۔ اور بنک آف انگلینڈ کے گورنر نے پرسوں ہی ایک بہت اہم تقریر کی ہے، جس میں اُس نے یہ کہا ہے کہ ہمارا بنکاری نظام پانچ سال سے شدید بحران کا شکار ہے، لیکن ہم نے اس سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔یعنی ۲۰۰۷ء سے یہ بحران شروع ہوا ہے۔ اُس نے یہ بھی کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں اپنے پورے بنکاری طور طریقوں (banking culture)کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر ہم بحران سے نہیں نکل سکتے۔ اور پھر سب سے اہم نکتہ جو آخر میں اُس نے کہا ہے وہ یہ ہے کہ مسئلہ محض مالی اور معاشی نہیں ہے، بلکہ اخلاقی ہے، اور جب تک اخلاقی اصلاح کا کام نہ ہو، جب تک ان تمام معاملات کے لیے اخلاقی اصول اور ضابطے بنانے اور اُن کو متحرک اور مؤثر کرنے کا کام نہ کیا جائے اُس وقت تک اس دلدل سے نکلنا ممکن نہیں۔ یہ وہ چیز ہے جو اس وقت مغرب کی سوچ کو سمجھنے والے اہلِ دانش کہنے پر مجبور ہورہے ہیں۔ بلاشبہ ہمیشہ کچھ لوگ ایسے رہے ہیں جنہوں نے اس بات کا اظہار کیا ہے۔ اور اسلامی مفکرین تو علامہ اقبال سے لے کر آج تک اپنے اپنے انداز میں اس نکتے کو پیش کرتے رہے ہیں۔ اسلامی معاشیات کے باب میں پچھلے چالیس سال میں جو بھی تھوڑی بہت خدمات ہم نے انجام دی ہیں، اس کا بھی ایک مرکزی نکتہ یہی تھا۔ لیکن آج صورتِ حال یہ ہے کہ وہ جو اس بات کے منکر تھے کہ اخلاق اور معیشت کا کوئی تعلق ہے، وہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہورہے ہیں کہ اخلاق کے بغیر معیشت کی اصلاح ممکن نہیں ۔
وقت کی کمی کے باعث میں بے شمار حوالے اپنے پاس ہوتے ہوئے بھی اُن کو پیش کرنے کی زحمت نہیں کررہا ہوں۔ صرف آپ کو بتانا یہ چاہ رہا ہوں کہ پچھلے ایک سال میں اور خاص طور سے پچھلے تین مہینے میں ایک درجن سے زیادہ چوٹی کے معاشی لکھنے والوں نے کھل کر یہ بات کہی ہے کہ جو معاشیات ہم نے آج تک پڑھی اور پڑھائی ہے، اور جس پر بنیاد ہے ہمارے پورے نظام کی، اس کی چولیں ہل گئی ہیں۔ جن بنیادوں پر وہ قائم تھی وہ متزلزل ہیں، اور اس کی بہترین عکاسیLondon Economist نے اپنے ایک سرورق پر کی ہے، جس کا عنوان ہی یہ ہے کہ What is wrong with Economics?، اور جو تصویر انہوں نے دی ہے وہ ایک معاشیات کی کتاب ہے جو ٹکڑے ٹکڑے ہوکر گر رہی ہے۔ تو ایک نئی معیشت کی ضرورت، معاشی معاملات کو ایک نئے اپروچ کی ضرورت، یہ اس وقت ایک ایسی طلب ہے جو دنیا بھر میں پائی جاتی ہے۔ اور یہ بڑا سانحہ ہوگا کہ مسلمان، جن کے پاس اﷲ کی کتاب ہے اور اس کی بنیاد پر ایک دوسرے متبادل نظام کا پورا نقشہ موجود ہے، وہ اپنی کوتاہی یا بدعملی کی بناء پر دنیا کے سامنے اُس نظام کو پیش نہ کرسکیں۔
دیکھیے، جدید سرمایہ داری کا بظاہر تو آغاز۱۸ویں صدی کے وسط میں ہوا ہے۔ لیکن سرمایہ داری کی سوچ اس سے پہلے سے موجود ہے، وہ فکری میدان میں بھی، عملی میدان میں بھی ترقی کررہی تھی، لیکن صنعتی انقلاب نے ایک ایسی کیفیت پیدا کردی جس کی بناء پر معیشت کا یہ تصور اور معاشی نظام کا یہ خاکہ ایک غالب قوت کی حیثیت سے سامنے آیا۔ جس نے دنیا کے نقشے کو بدل ڈالا اور معاشی ترقی کے ایسے نئے تصورات کو جنم دیا جنہوں نے معاشی قوت کے توازن کو مغربی اقوام کی طرف منتقل کردیا۔ اُس وقت سے اب تک یہی نظام ایک غالب معاشی نظام رہا ہے۔ اندرونی طور پر اس میں بڑی تبدیلیاں آئی ہیں۔ اس کا آغاز صنعتی سرمایہ داری یعنی Industrial Capitalism سے ہوا تھا۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ معاشی وسائل کو نجی ملکیت اور نجی سرمایہ کاری اور سود اور بنکنگ کے ذریعے منظم اور مرتب کرکے پیداوار کو بڑھانے کا کام انجام دیا جائے۔ اور یہ سوچ کہ ہر چیز جس کسوٹی پر پرکھی جائے وہ یہ ہے کہ پیداوار بڑھے، جس چیز کی طلب ہو، اسے فراہم کیا جائے، بلالحاظ اِس کے کہ وہ طلب جائز ہو یا ناجائز ہو۔ اگر اُس طلب کو پورا کرنے کے لیے قوتِ خرید (purchasing power)موجود ہے تو اس کی رسد کے لیے یہ وجہ کافی ہے۔ اورطلب اور رسد کے یہ تمام فیصلے منڈی کے ذریعے سے انجام دیے جائیں۔ یہی ترقی کا مؤثر ترین راستہ ہے، اور یہی وہ صورت ہے جس میں سرمایہ دار باقی تمام وسائل کو اپنے نقشے کے مطابق استعمال کرکے بہترین معاشی نتائج پیدا کرسکتا ہے۔ اس طرح صنعتی سرمایہ داری(Industrial Capitalism )سے اس کاآغاز ہوا اور مالیات اُس کا ایک بڑا ہی اہم ستون اور ذریعہ تھا۔پھر آہستہ آہستہ بیسویں صدی میں ، اور خاص طور پر پچھلے پچاس برسوں میں یہ صنعتی سرمایہ داری نظام ایک مالیاتی سرمایہ داری نظام یا Financial Capitalism میں تبدیل ہوگیا۔آغاز میں مالیات کا کام یہ سمجھا جاتا تھا کہ وہ حقیقی معاشی قوتوں کو متحرک کرے۔ اُس کے ذریعے سے محنت بھی، مشینری بھی، ٹیکنالوجی بھی اور دوسرے وسائلِ پیداوار بھی استعمال میں لائے جاسکیں۔ لیکن آہستہ آہستہ مالیات کو ایسا غلبہ حاصل ہوگیا کہ محض قرضوں اور مالیات کا تبادلہ یعنی credit اور financesکا تبادلہ پورے معاشی نظام پر چھا گیا، بلالحاظ اس سے کہ ان سے پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے یا نہیں۔ اب عملاً صورت یہ ہے کہ جو معاشی پیداوار اورمادی وسائل(physical resources) ہیں، اُن کے مقابلے میں مالیاتی نظام پچاس گنا زیادہ ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ بنک اور سرمایہ کاری ادارے( investment houses)اور وہ لوگ جو مالیات کو اپنی گرفت میں رکھتے ہیں، وہ ہر چیز پرچھائے ہوئے ہیں۔ ایک طرف دولت میں اضافہ ہورہا ہے، لیکن دوسری طرف غربت ، بے روزگاری اور عدم مساوات میں اضافہ ہورہا ہے۔
آج دنیا کی آبادی سات ارب ہے، اس میں سے ۲ء ۱ ارب خط غربت سے نیچے زندگی گزاررہی ہے۔ اور یہ معاملہ صرف ترقی پذیر اور ایشیا اور افریقہ کے ممالک کا نہیں ہے بلکہ دنیا کے ہر حصے میں، حتیٰ کہ امیر ترین ممالک میں بھی غربت موجودہے۔ امریکہ میں اس وقت غربت ۱۵ فیصد سے بڑھ چکی ہے، بے روزگاری ۱۰ فیصد ہے۔ لیکن اگر آپ معاشی اُمور طور پر سفید اور سیاہ فام لوگوں میں مقابلہ کریں تو سیاہ فام لوگوں میں۲۸ فیصدی بے روزگار ہیں۔ اسی طرح عدمِ مساوات کا پہلو ہے کہ دنیا کی ایک فیصدی آبادی دولت کے۳۷ فیصدی پر قابض ہے۔ ۱۰ فیصدی ۸۰ فیصدی پر قابض ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ اس وقت دنیا میں عوامی سطح پر ایک تحریک چل رہی ہے جسےWall Street Occupationکہتے ہیں، یعنی Wall Street پر جو وہاں مالیاتی منڈی کا مرکز ہے، اُس پر قبضہ کرو۔ یعنی۹۹ فیصدی ایک فیصدی کے خلاف اُٹھ رہے ہیں۔ تو یہ ہے وہ کیفیت ۔
میں آپ کو بہت سے اعداد و شمار دینے کی کوشش نہیں کروں گا، صرف اصولی بات آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ وسائل کی فراوانی کے باوجود وسائل کا غلط استعمال، دولت کا ارتکاز اور احتکار، ایک طبقے کا غلبہ اور معیشت،سیاست، تہذیب و تمدن، میڈیا، ان سب پر اُن کا قابض ہوجانا، اور ان کی قوت میں برابر اضافہ، یہ ہے بنیادی مسئلہ۔
جواب دیں