عالمی معاشی بحران اور اسلامی معاشیات

عالمی معاشی بحران اور اسلامی معاشیات

اسلامی اپروچ: نظری پہلو
    تو یہ نو بنیادیں ہیں اسلامی تصورِ معیشت کی۔ان اصولوں کی بنیاد پر پہلی اہم بات یہ ہے کہ ہمیں جدوجہد کرنی ہے۔ رزقِ حلال کمانا فرض ہے، بھیک مانگنا ممنوع ہے۔ خودکشی حرام ہے، اور اگر آپ محنت نہیں کرتے، اپنے بدن کو نہیں پالتے اور موت واقع ہوتی ہے تو یہ حرام موت ہے۔ معاشرے میں ایک دوسرے کی ضرورت کو پورا کرنا تاکہ غربت دور ہو، وسائل کی فراوانی حاصل ہو، حتٰی کہ ایک عبادت ایسی مقرر کردی کہ جو ادا ہی اُس وقت ہوسکتی ہے جب مال آپ کے پاس ہو یعنی زکواۃ۔ اور صلحائے اُمت نے یہ بات کہی ہے کہ ہمیں کوشش کرکے دولت پیدا کرنی چاہیے تاکہ زکواۃ دے سکیں۔ اور پھر ایک اور عظیم ترین عبادت — حج — اُس کو استطاعت کے ساتھ وابستہ کیا ہے، کہ اگر مالی استطاعت نہ ہو تو آپ وہ عبادت ہی نہیں کرسکتے۔ تو اس لیے جہاں تک ضروری ہو دنیا کا حصول فرض ہے۔ دنیا کی جو امانت ہمیں دی گئی ہے، اُس کی فکر کرنا ہمارے دین کا مطالبہ ہے۔ اس فرق کے ساتھ کہ اگر دنیا صحیح مقاصد کے لیے ہو، اُن حدود کے مطابق ہو، تو یہ ایک عبادت اور فریضۂ دینی ہے۔ اور اگر دنیا خود مطلوب بن جائے، اور جو اصل مقاصد ہیں وہ آنکھوں سے اوجھل ہوجائیں، یا اُن کی خلاف ورزی ہو تو یہ اس زندگی میں بھی مصیبت کا باعث اور آخرت میں تباہی کا ذریعہ ہے۔ حصولِ معاش اور دین میں یہ تعلق ہے۔
    دوسری اہم بات یہ ہے کہ شخصی مفاد (Self-interest)کو اسلام نے ایک معتبر محرک قرار دیا ہے۔ قرآن صاف الفاظ میں کہتا ہے:
فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرَاتِ
’’پس بھلائیوں کی طرف سبقت کرو۔‘‘ (۲:۱۴۸)
 لیکن شخصی مفادکو بھی اخلاقی حدود اور پھر دنیا اور آخرت دونوں میں کامیابی سے مشروط کردیا تاکہ یہ شخصی مفاد آپ کو اندھا نہ کردے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی معیشت میںself-interest کا جو فوکس ہے وہ محض طلب (want) کے مقابلے میں ضروریات کی تکمیل (provision of needs)کا تصور ہے۔ نتیجہ دونوں کا ایک ہی ہے، کہ چیزیں فراہم کی جائیں۔ لیکن ایک خود مقصود بالذات بن جاتی ہے، اور دوسرا ذریعہ ہے ایک اعلیٰ تر مقصد کو حاصل کرنے کا۔نفع کا حصول ایک جائز معاشی محرک ہے لیکن اگر نفع کا محرک دوسروں کے حقوق مارنے کا ذریعہ بن جائے تو پھر یہ حرام ہے۔
    اسلام میں جائز معاشی سرگرمی کے لیے محرک دینے اور ناجائز معاشی سرگرمی کے لیے رکاوٹ پیدا کرنے کا اپنا نظام ہے۔ دیگر معاشی نظاموں کے مقابلے میں اسلام کے معاشی نظام میں ناجائز اُمور پر روک لگانے اور اسے ریگولیٹ کرنے کے کئی درجے ہیں۔ سب سے پہلا ہے فرد کا اپنا احساسِ ذمہ داری، آپ کی اپنی motivation، آپ کی اقدار( values)، آپ کا عقیدہ، آپ کاآخرت کی جوابدہی کا احساس۔ دوسرا ہے معاشرے اور خاندان کی بھلائی۔ (الدین نصیحۃ)۔ ایک دوسرے کی خیر خواہی، ایک دوسرے پر نگاہ رکھنا کہ وہ وسائل کا غلط استعمال نہ کریں۔ تیسری چیز ہے ادارے: مسجد کا ادارہ ہے، مدرسہ کا ادارہ ہے، خاندان بھی ایک ادارہ ہے، حسبہ بھی ہے۔( سرکاری نہیں)۔پھر ریاست کے قوانین اور عدالتی نظام ہے۔ یہ تمام چیزیں اپنا رول ادا کرتی ہیں۔ اور پھر آخری ذمہ داری حکومت کی ہے:
 کلکم راع، وکلکم مسؤلُٗ عن رعیتہ
(تم میں سے ہر ایک حاکم ہے اور تم سب اپنے محکوموں کے بارے میں جواب دہ ہو۔)
ہر شخص درجہ بدرجہ حاکم ہے اور جو پوری ریاست کا حاکم ہے وہ ریاست کی تمام رعایا کے لیے اﷲ کے سامنے جواب دہ ہے۔ اس طرح معاشی میدان میں ہر سطح پر اسلام نے روک ٹوک کا نظام وضع کیا ہے۔ خواہ market mechanism ہو، خواہ ذاتی نفع کی کوشش ہو۔ پھر اس کے ساتھ ساتھ اسلام نے تقسیمِ دولت کا ایک نظام بنایا ہے،اس کی نظر محض پیداوار پر نہیں بلکہ پیداوار کے ساتھ ساتھ تقسیمِ دولت پر بھی ہے۔ تقسیمِ دولت میں آپ جانتے ہیں ، اور مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وہ چیزیں جو ہماری فقہ کا حصہ ہیں، ہم انہیں بھولے ہوئے ہیں۔ یعنی ذمہ داری کا احساس ماں باپ سے شروع ہوتا ہے۔ اولاد کے لیے، خاندان کے لیے، بیوی بچوں کے لیے۔ پھر وراثت کا نظام ہے۔ جس طرح دولت کی تقسیم کے لیے وراثت کا نظام ہے، اُس کے بالکل متوازی معاشی ذمہ داریوں کی تقسیم کے لیے نفقۃ العقاربکا نظام ہے۔یعنی جو وراثت میں جتنے حصے کا مستحق ہے، اسی تناسب سے وہ جوابدہ ہے اس کی ولایت کا یعنی یتیم بچے کے نان و نفقہ کا ذمہ دار اس کا قریبی رشتہ دار ہے۔ تو دیکھیے کس طریقے سے معاشی تحفظ کا ایک سسٹم بنایا۔ پھر زکواۃ ہے، صدقات ہیں، ریاست کی ذمہ داری ہے، قرض کے بارے میں پالیسی ہے، ریاست اور قانون کا کردار ہے۔ اسلام میں وہ صورت نہیں ہے جو سرمایہ داری نظام میں ہے کہ سب کچھ افراد کریں اور حکومت ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم۔ اسلام میں حکومت کی ایک مثبت ذمہ داری ہے۔ بلاشبہ ایسی قومی ملکیت جس میں تمام وسائل کو سرکاری تحویل میں لایا جائے، اسلام میں نہیں ہے۔ لیکن اگر وسائل کا غلط استعمال ہورہا ہے تو اُس کو روکنا بھی ذمہ داری ہے۔ اور فقہ میں آپ نے حَجر کا قانون پڑھا ہے۔ کس طرح فرد کی سطح پر بھی اور نظام قضاۃ کی سطح پر بھی اسلام نے اپنے نظام میں اس کو شامل کیا۔ سود کو ختم کرنا، یہ ایک بڑی ہی بنیادی چیز ہے۔ اس لیے کہ یہ مالیات کے استعمال کا بالکل منفرد ماڈل ہے، جو سرمایہ داری اور اشتراکیت دونوں سے بالکل مختلف ہے۔گزشتہ کچھ عرصہ میں غیر سودی بنک کاری اور مالیات کے میدان میں غیر معمولی پیش رفت ہوئی ہے۔ اور ہماری اور آپ کی ذمہ داری ہے کہ ہم دیکھیں کہ جو کچھ حاصل ہوا ہے وہ کیا ہے، اُس میں کیا مثبت چیزیں ہیں، کیا اُس میں خامیاں اور خطرات ہیں اور آگے کے لیے ہم نے اس میں کیا فکر کرنی ہے۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے