عالمی معاشی بحران اور اسلامی معاشیات

عالمی معاشی بحران اور اسلامی معاشیات

 

اسلامی اپروچ: عملی پہلو
    میں نے اب تک یہ کوشش کی ہے کہ موجودہ معاشی نظام کے پس منظر میں اسلام کی جو اپروچ ہے اُس کی بنیادوں کی طرف متوجہ کروں۔ اب میں عملی معاملات پر آتا ہوں۔ میری نگاہ میں، اسلامی فنانس اور بنکنگ کے بارے میں گزشتہ چالیس سال میں جو ترقی ہوئی ہے، وہ ایک بڑی اہم اور مثبت پیش رفت ہے۔ حرام سے بچنے اور حلال کی طرف بڑھنے کے لیے علمی، عملی، اداراتی اور سرکاری سطح پر جو کام بھی ہوا ہے وہ قابلِ قدر ہے، اور ہمیں اُس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، اور ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ وہ صحیح سمت میں آگے بڑھے۔ میں بہت صاف الفاظ میں یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ جہاں سود کا خاتمہ اور زکواۃ کی بنیاد پر ایک اجتماعی فلاحی نظام کا قیام اسلامی معیشت کا بنیادی ستون ہے، وہیں یہ سمجھنا بھی قطعاً غلط ہوگا کہ پوری اسلامی معیشت ان دو چیزوں کے اندر سمٹ گئی ہے۔ اسلامی معیشت دراصل سوچنے کاایک نیا انداز ہے، سارے معاشی امور کو نئے پہلو سے دیکھنے کا ایک طریقہ ہے، معاشی مسئلے کی ایک مختلف تعبیراور اس کی نئی تعریف( definition )ہے۔ وسائل کے بارے میں ایک مختلف نقطۂ نظر ہے(scarcity اور fluence کے حوالے سے) اور جن اصولوں کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے، اور آپ کو فقہی معاملات میں جس کی تفصیلات بھی ملتی ہیں، وہ سب اس کا لازمی حصہ ہیں۔ اس وضاحت کے ساتھ اس بات کی ضرورت ہے کہ اس وقت سود سے بچنے کے لیے جو کام کیا گیا ہے اُس کو سمجھا جائے اور دیکھا جائے کہ اس کے بارے میں آئندہ آپ کی اور میری ذمہ داری کیا ہے۔
     جو کام ہوا ہے، جیسے میں نے عرض کیا، اس کی دو سطحیں ہیں: ایک ہے پرائیویٹ سیکٹر، دوسرا ہے سرکاری میدان۔ پرائیویٹ سیکٹر میں ہمیشہ یہ کوشش ہوتی رہی ہے، ایسا نہیں ہے کہ یہ نئی چیز ہے، آپ دورِ خلافت ِ راشدہ کا اگر مطالعہ کریں تو وہاں آپ کو’’ صراف‘‘ کا ادارہ ملے گا۔ اور صراف کے ادارے کے جو مختلف کام تھے ان میں ایک کام یہ بھی تھا کہ لوگ صراف کے پاس اپنی قیمتی اشیاء ، خاص طور سے سونا چاندی رکھوا دیا کرتے تھے اور اُسی دور میں یعنی پہلی صدی ہجری میں صرافوں نے یہ کام بھی شروع کردیا تھا کہ بین الاقوامی تجارت کے لیے لوگ جب باہر جاتے تھے تو صراف کے پاس سونا رکھ دیتے تھے اور اُس سے رسید لے لیتے تھے اور دوسرے ملک میں جہاں سے اُس نے خریداری کی ہے وہاں وہ رسید دے کر اُس سے مال خرید سکتے تھے۔ اور اس رسید کو ’ صق‘ کہتے تھے۔ جس کو آج آپ چیک کہتے ہیں، یہ اُسی صق سے نکلا ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ کی فقہی خدمات سے آپ سب واقف ہیں۔ ہم سب کے وہ محسن ہیں۔ لیکن اُن کی جو کاروباری زندگی تھی، اگر اُس کا آپ مطالعہ کریں تو آپ یہ دیکھیں گے کہ مضاربت کی بنیاد پر انہوں نے مالیات کی وصولی اور کاروبار میں سرمایے کے استعمال اور نفع کی تقسیم کا ایک ہمہ گیر نظام قائم کیا تھا۔ اور یہ کہ اُس زمانے میں ایسا کاروبار لاکھوں کروڑوں درہم پر پھیلا ہوا تھا۔ بدقسمتی سے اس پر تحقیق کا کام بہت کم ہوا ہے،تاہم مولانا مناظر احسن گیلانی نے اُن پر جو کتاب لکھی ہے اس میں اس کا بڑی تفصیل سے ذکر ہے۔ پھر ہماری پوری تاریخ میں یہ چیز موجود رہی ہے۔ حیدرآباد دکن میں انیسویں اور بیسوی صدی میں institutionalانداز میں لوگوں کا بچت کو جمع کرنا اور قرضے دینامعروف عمل تھا اور اس کے لاکھوں ممبر تھے۔ ڈاکٹر حمید اﷲ مرحوم نے اس پر اسلامک ریویو، لندن میں مضمون لکھا تھا جس میں اُس کی تفصیلات دی تھیں۔ آپ اور میں سب جانتے ہیں کہ گھر کی خواتین جو کمیٹی سسٹم کرتی ہیں، وہ کیا ہے۔ دس افراد مل کر ہر مہینے ایک رقم جمع کرتے ہیں اور کوئی ایک لے لیتا ہے۔ مالیات کا فراہم کرنا، اس کی حفاظت اور اس کا استعمال، آج بنک یہی کام کررہے ہیں، لیکن اُس کا انداز، اُس کا اسلوب بدل گیا ہے۔ میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ یہ معاشرے کی ایک حقیقی ضرورت ہے ۔نجی سطح پر سود کے بغیر کام کرنے والا پہلا منظم کامیاب بنک ۱۹۷۵ء میں دبئی میں قائم ہوا یعنی دبئی اسلامک بنک۔ اور سرکاری سطح پر پہلا عالمی بنک — اسلامک ڈویلپمنٹ بنک –بھی۱۹۷۵ء ہی میں جدہ (سعودی عرب) میں قائم ہوا۔ اور اُس کے بعد سے پھر دنیا کے مختلف ممالک میں اس طرح کے بنک بنے۔ جزوی طور پر ایسے ادارے پاکستان، ملائیشیا ، مصراور خاص طور پر سوڈان میں بنے۔پھر ایران اور اب سعودی عرب، کویت اور اس وقت تقریباً چالیس پچاس ممالک میں ایسے اسلامی بنک کام کررہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک بہت بڑی ڈویلپمنٹ ہے، اور بحیثیتِ مجموعی یہ ادارے ایک ضرورت کو بھی پوراکررہے ہیں، ان کا رُخ بھی درست ہے۔ جو خرابی ہے وہ صرف یہ ہے کہ ابھی مثالی اسلامی ماڈل نہیں۔ جیسا کہ میں نے آپ سے کہا، اسلام کا اصل مقصود معیشت کا ایک نیا نقشہ بنانا ہے۔ سرمایہ کاری، پیداوار، تقسیمِ دولت، ایکسچینج، ان سب کے معاملات کو سرمایہ داری کے اُن اصولوں سے ہٹ کر، جن کے متعلق میں نے آپ کو بتایا کہ یہ ناانصافی پر مبنی ہیں، اسلام کے اصولوں کے تحت ان کی تشکیلِ نو کرنا۔ اس میں بلاشبہ مالیات کا بھی دخل ہے اور اس کے اندر قرض (credit)کا بھی ایک مقام ہے۔ لیکن جس طرح سرمایہ داری نے قرض کی بنیاد پر پوری معیشت کو وضع کیا، اور جس طرح قرض سے قرض پیدا ہوتا ہے، پیسے سے پیسہ بنایا جاتا ہے اور پیداوار اور خدمات میں اضافے کے بغیر دولت کمائی جاتی ہے، یہ بات اسلام کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتی ۔ اس لیے اسلامی بنکاری کے لیے ضروری ہے کہ وہ صرف کھلی کھلی شرعی خلاف ورزیوں ہی سے نہ بچے، بلکہ ایجابی طور پر اُن تمام تصورات کو اپنائے جو شریعت ہمیں دیتی ہے۔ شریعت معاشی معاملات، کاروبار، صنعت اور معیشت کا ایک منفرد تصور دیتی ہے، جس میں نفع نقصان میں شرکت، تمام عناصر کی شمولیت اور کارکردگی، شفافیت، ہر سطح پر عدل اور ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی شامل ہیں۔ حضورِ پاک صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مزدور کو اُس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے مزدوری دے دو۔ غور کیجیے کہ جہاں اس کا یہ مفہوم ہے کہ اجرت دینے میں تاخیر نہ کرو، اور پوری مزدوری دو، حق مارو نہیں، وہیں اس میں یہ پہلو بھی ہے کہ مزدور کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں پسینہ بہائے۔ یہ بالکل ایک مختلف اپروچ ہے، جس میں دونوں کو فرض کی ادائیگی پر ابھارا گیا ہے۔ یہ ہے دراصل وہ مثالی وژن، اور جب تک ہم اس وژن (vision) کی طرف نہیں بڑھتے، ہم اسلام کے نظام کی برکات سے فائدہ نہیں اٹھاسکتے۔
    اسلامی معاشیات کا تصور راسخ کرنے میں جن لوگوں نے کوششیں کیں ان میں مولانا مودودی رحمۃ اﷲ علیہ کا بہت بڑا حصّہ ہے، ڈاکٹر انور اقبال قریشی مرحوم کا بڑاحصہ ہے، ڈاکٹراحمدنجار نے بڑا کام کیا ہے، ڈاکٹرنجات اﷲ صدیقی کی بڑی خدمات ہیں، ڈاکٹر عمر چھاپراہیں۔ مجھے بھی خدمت کا کچھ موقع ملا ہے۔ ہم سب کا vision یہ تھا اور ہے کہ بلاشبہ قرض کی ایک گنجائش ہے، اُس ضرورت کو ہمیں پورا کرنا چاہیے، لیکن سرمائے کا جو استعمال ہے وہ شراکت کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔ اور اس میں مضاربت، مشارکہ، اجارہ، مرابحہ، استصناع وغیرہ یہ جائز ہیں لیکن کچھ حدود کے اندر اور کچھ شرائط کے ساتھ۔ ان سب میں قدرِ مشترک یہ ہے کہ ان ماڈلز میں مالی وسائل پیداوار کو بڑھانے، پیداوار کو فروغ دینے، خدمات کو فراہم کرنے، ضروریات کو پورا کرنے اور حقیقی معیشت کو ترقی دینے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ جبکہ ایسے مالی معاملات جس میں قرض کو قرض سے بدل لیا جائے، جیسے تورق یا مرابحہ کا ماڈل، جسے صرف خاص حالات میں جائز قرار دیا گیا ہے، اسے پوری بنکنگ کی بنیاد نہ بنا لیا جائے۔ ورنہ پھر وہ تبدیلی نہیں آسکتی جس کی طرف اسلام پوری معیشت کو اور سارے مالی معاملات کو لے جانا چاہتا ہے۔ میں اُن میں سے نہیں ہوں جو اس کی تنقیص کرتے ہیں۔ میں اس کی تائید کرتا ہوں، لیکن تحدید کرتا ہوں، اور یہ کہتا ہوں کہ اسے اپنی حدود کے اندر استعمال ہونا چاہیے۔
     دیکھیے، قرض کی صرف چار ہی ضروریات ہوسکتی ہیں ساری زندگی میں۔ ایک یہ کہ ایک شخص کی آمدنی ناکافی ہے، اور وہ مجبور ہے کہ قرض لے اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے۔ دوسرا یہ کہ اُس کی آمدنی تو اپنی ضروریات پورا کرنے کے لیے کافی ہے لیکن اُس نے اپنا معیارِ زندگی ایسا بنارکھا ہے، جسے انگریزی محاورے میں living beyond meansکہتے ہیں، اور اُس کے لیے اُسے قرض لینے کی ضرورت ہے۔ تیسرا یہ ہے کہ عام حالات میں تو اُس کی ضروریات پوری ہوتی ہیں لیکن کوئی خاص کیفیات ایسی پیدا ہوجاتی ہیں جن میں اسے قرض کی ضرورت پیش آتی ہے۔ مثلاًکوئی حادثہ ہے، کوئی موت ہے، کوئی شادی ہے، کوئی اور غیر معمولی چیز ہے کہ اسے قرض کی ضرورت ہے۔ اور چوتھی چیز یہ ہے کہ وہ کاروبار، صنعت، زراعت، خدمات وغیرہ کے آغاز یا اُس کے پھیلاؤ کے لیے اتنے وسائل نہیں رکھتا جو اُس کی ضرورت کو پورا کرسکیں اور اُسے ضرورت ہے کہ دوسرے اُس کو سرمایہ دیں تاکہ مل کر وہ کام کیا جاسکے۔ ان چار کے علاوہ قرض کی کوئی پانچویں ضرورت نہیں ہوسکتی۔
     پہلی ضرورت کا حل قرض نہیں ہے، اس لیے کہ جس قرض کو واپس دینے کی آپ صلاحیت ہی نہ رکھتے ہوں، وہ قرض ایک بوجھ بنے گا، وہ کوئی مدد فراہم نہیں کرے گا۔ اسلامی معاشرے میں اس کے لیے مدد، تعاون، معاونت، انفاق یہ ساری چیزیں ہیں۔اپنے وسائل سے بڑھ کر زندگی گزارنے کے لیے قرض لینا ناجائز ہے۔اسلامی تعلیمات میں تبذیر اور اسراف ممنوع ہے۔ انسان کو وسائل کے مطابق اپنی حدود کے اندر رہنا چاہیے۔ غیر معمولی ضروریات کے لیے نظام ہونا چاہیے، خاندان میں ہو، معیشت میں ہو، ملک میں ہو، بنکاری میں ہو، تاکہ لوگوں کو غیر معمولی ضرورت کے لیے قرض مل سکے، اس میں اخلاقاً اور عقلاً بھی سود جائز نہیں ہے،بعد میں صرف اصل رقم وہ واپس کردے۔ ہاں، اگر چوتھی ضرورت ہے تو وہ پھر شراکت کی بنیاد پر قرض کا معاملہ کرے۔ایسی صورت میں اسلام zero returnکا قائل نہیں ہے۔ اسلام یہ کہتا ہے کہ وہ سرمایہ جو پیداوار میں اضافے کا باعث ہو، جس سے نفع پیدا ہو، اُس نفع میں محنت کرنے والے اور سرمایہ فراہم کرنے والے دونوں کو شریک ہونا چاہیے۔وہ کس طرح سے شریک ہوں، یہ اپنی مرضی سے طے کریں، انصاف سے طے کریں۔ تو آپ یہ دیکھیے کہ اسلام نے ایک بالکل متبادل نظام دیا ہے، اور ہر سطح کے لیے دیا ہے۔ تو ہماری ضرورت یہ ہے کہ ہم مکمل اسلامی معیشت اور مکمل اسلامی نظام کی طرف بڑھیں ۔
    اسلامی بنکاری کے حوالے سے اب تک جو کچھ پیش رفت ہوئی ہے اور جو کچھ ہم نے حاصل کیا ہے، اِسے میں یوں کہا کرتا ہوں کہ ہم نے وہ کچھ حاصل کیا ہے جو شرعی حدود کے اندر تھا۔ اور جو کچھ شریعت سے متصادم تھا اُسے ہم نے دور کردیا، کہیں حقیقی انداز میں، کہیں حیلوں کے سہارے۔ لیکن اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارا مالیاتی نظام، ہمارا معاشی نظام اُن بنیادوں پر استوار ہو جو اسلام نے معاشی معاملات کے لیے فراہم کی ہیں۔ اور معاشی سرگرمیاں اُن مقاصد کے لیے استعمال ہوں جنہیں اسلام نے معتبر قرار دیا ہے۔ اس میں فرد، ادارہ، معاشرہ اور حکومت، چاروں اپنا اپنا کردار ادا کریں۔ اور بہتر سے بہتر کی طرف بڑھیں اور اس کی کوئی حد نہیں( Sky is the limit)۔ اصل چیز یہ ہے کہ ہم حدود کا خیال رکھیں، اور جہاں کہیں اُن حدود سے انحراف ہو، اُس کو چیک کرنے کا نظام موجود ہو۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے