عالمی معاشی بحران اور اسلامی معاشیات
علماء کی ذمہ داریاں
تو یہ ہے ہمارا وژن۔ اب اس کی روشنی میں آپ دیکھ لیجیے کہ میری اور آپ کی اس میں کیا ذمہ داری ہے۔ دیکھیے، ہماری پہلی ذمہ داری تو یہ ہے کہ ہم مسائل کو ٹھیک ٹھیک سمجھیں اور میں آپ سے کوئی رعایت نہیں برتنا چاہتا ہوں۔ علماء کی میری نگاہ میں سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ جہاں وہ قرآن و سنت اور فقہ کے مطالعہ کا اہتمام کرتے ہیں، وہاں وہ یہ بھی دیکھیں کہ آج کے مسائل کیا ہیں؟ فکری رجحانات کیا ہیں؟ عملی معاملات کیا ہیں؟ نئے ادارے کونسے وجود میں آئے ہیں؟ اُن اداروں سے تعلقات (relationship)کس طرح ہونے چاہئیں؟ اور ان میں صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے؟ نہ آنکھیں بند کرکے منع کریں اور نہ کھلی چھٹی دیں۔ آپ کو معلوم ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ نے جو ایک فقہ مرتب فرمائی ہے وہ ایک فرد کا کام نہیں ہے، وہ چالیس افراد کی ایک کونسل تھی جس میں مفسرین بھی تھے، محدّثین بھی تھے، فقہاء بھی تھے، لغت کے ماہر بھی تھے اور ان کے ساتھ ساتھ جس میں عام کاروباری افراد بھی تھے۔ اور یہ سب مل کر ایک ایک مسئلے کی تنقیح کرتے تھے اور پھر ایک رائے بناتے تھے۔ جس رائے پر اتفاق ہوجاتا تھا اُس کو متفق علیہ کہتے تھے، اور جس پر اتفاق نہیں ہوسکتا تھا دونوں آراء علیہ الجمہور کہلاتی تھیں اس تصریح کے ساتھ کہ یہ اکثریت کی رائے ہے اور یہ اقلیت کی رائے ہے۔ اور آپ واقف ہیں کہ فقہ حنفی میں امام ابو حنیفہ کے دو جلیل القدر شاگردوں یعنی امام محمد اور امام ابو یوسف کو صاحبین کہا جاتا ہے۔ اور بہت سے اُمور پر اگر صاحبین متفق ہیں لیکن امام ابو حنیفہ کی رائے مختلف ہے تو فتویٰ میں امام ابوحنیفہ کے مقابلے میں رائے صاحبین کی مانی جاتی ہے اور اسے ہی حنفی فقہ سمجھا جاتا ہے۔ تو یہ آپ کی اپنی روایت ہے۔ اس کو سامنے رکھتے ہوئے اس بات کی ضرورت ہے کہ آج کے مسائل کو آپ سمجھیں اور اس میں انگریزی جاننا بھی اہم ہے۔ انگریزی زبان کا جاننا کوئی مکروہ چیز نہیں ہے، اس کی حیثیت ایک ذریعے کی ہے۔ اس کی بھی فکر کریں نیز جو چیزیں اردو زبان میں موجود نہیں ہیں اُن کا ترجمہ کروایا جائے، تاکہ آپ معاملات کو سمجھ سکیں۔ میں شریعہ بورڈ کے حق میں رہا ہوں، لیکن شریعہ بورڈ سے مجھے جو توقعات تھیں وہ پوری نہیں ہوئیں، اس لیے کہ وہ اُس سطح سے اوپر نہیں اٹھے جو وقت کا تقاضا ہے۔ اس لیے میں آپ سے یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ آپ اپنے آپ کو جو وقت کا تقاضا ہے اُس کو پورا کرنے کے لائق بنانے کی کوشش کریں، اور یہ تربیتی پروگرام جو ہورہا ہے یہ اس سلسلے کی ایک اہم کوشش ہے۔ اس کو جاری رکھیے۔
تو ذمہ داریوں کے لحاظ سے پہلی چیز حالات اور مسائل کا صحیح ادراک ہے۔ میری نگاہ میں سکوک کے باب میں اور تفرق کے باب میں بہت سے علماء نے جو رائے دی ہے وہ حقائق سے صحیح صحیح واقفیت نہ ہونے کی بنیاد پر ہے، یا اس بارے میں غلط مفروضوں کی بناء پر ہے۔ تو یہ بڑی اہم ذمہ داری ہے آپ کی۔ اس لیے یہ جاننا بڑا بنیادی کام ہے کہ کیا حرام ہے، کیا حلال ہے، کیا جائز ہے، کیا ناجائز ہے، کیا ہم کرسکتے ہیں، کیا نہیں کرسکتے، اور اس کو کرنے کے لیے ضروری ہے کہ محض اپنے علمی مآخذ پر انحصار نہ ہو بلکہ عصرِ حاضر میں ہمارے گردو پیش معاشرے میں جو عملی مسائل ہیں، جو معاملات ہیں، جو عرف ہے، اُس میں عرفِ سیۂ کیا ہے ، عرفِ خیر کیا ہے، ان سب چیزوں کا تعین بہت ضروری ہے۔ اور یہ کام تحقیق سے، جستجو سے، محنت سے اور اس قسم کے پروگراموں کے انعقاد سے ہونا ضروری ہے۔ یہ پہلی چیز ہے۔
دوسری چیز یہ ہے کہ بلاشبہ فقہ اس معاملے میں ہمارا اہم ترین رہنما ہے۔ لیکن یہ بات بھی سامنے رکھیے کہ فقہ کے ارتقاء کا ایک خاص تاریخی پس منظر ہے، اور ہمیں دیکھنا پڑتا ہے کہ جو بات ایک خاص ماحول میں، ایک خاص زمانے میں اختیار کی گئی، آج اُس کی کتنی relevance ہے اور کہاں وہ بالکل غیر متعلق ہو گئی ہے۔ یہ کوئی بغاوت نہیں ہے، یہ کوئی انحراف نہیں ہے۔ یہ اُسی فقہی ارتقاء کے عمل کا جاری رکھنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اجتہادِ مطلق کے بعد اجتہاد فی المذہب، اجتہاد فی المسئلہ ، یہ سب نوعیتیں( categories )آپ کو ملتی ہیں۔ یہ محض کتابی چیزیں نہیں ہیں۔ آج ضرورت ہے کہ ان چیزوں کو پوری دیانتداری کے ساتھ، پورے علم کے ساتھ استعمال کریں۔ ہمارے پاس جو فقہی علم ہے وہ ایک بہت بڑا ذخیرہ ہے، ایک زریں ذخیرہ ہے، اس سے پورا پورا فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھنا ہے کہ آج کے حالات میں کونسی چیز متعلق ہے اور کونسی چیزغیر متعلق ہے۔ اور جیساکہ یہاں ایک بھائی نے اشارہ کیا، جو ہمارے اپنے مکاتبِ فکر ہیں، مختلف آراء جو مذہب میں لوگوں نے ظاہر کی ہیں، ان سب کو سامنے رکھیے، دلیل کی بنیاد پر پرکھیے۔ جن میں وزن ہو ان چیزوں کو قبول کیجیے، تعصب نہ رکھیے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم ایک تازگی کیساتھ اس معاملے کو دیکھیں۔ ساتھ ہی میں یہ کہوں گا کہ یہ بھی بہت ضروری ہے کہ فقہ کے احکام اور جو بھی چیزیں ہم نے اخذ(Drive) کی ہیں اُن کے ساتھ ساتھ جو مقاصدِ شریعہ ہیں اُن کو بھی سامنے رکھیے، اُن کاایک بڑا گہرا ربط ہے۔ قرآن و سنت کی جو اصولی، عمومی تعلیمات ہیں مقاصدِ شریعت بھی اُن کے پس منظر میں ہی پوری طرح ہماری سمجھ میں آتے ہیں۔ ہماری ترتیب ہمیشہ یہ رہنی چاہیے کہ قرآن و سنت، مقاصدِ شریعت، فقہ، تاریخ، تعامل۔ ان سب کو اپنے سامنے رکھیں، کسی ایک کے اسیر نہ ہوجائیں، اور کوشش کریں کہ ہم آج کے حالات میں اﷲ کے دین کے حکم اور روح کو سامنے رکھ کر اپنی استعداد کے اندر صحیح رہنمائی کرسکیں۔ تو یہ دوسرا پہلو ہے جس کی طرف میں آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں۔
تیسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جو کچھ جدید اسلامی معاشیات کے حوالے سے موجود ہے، بڑی ضرورت ہے اُس کی تعلیم و آگہی (awareness)کی۔ یہ آگہی طبقۂ علماء میں بھی ہونی چاہیے لیکن یہ عام لوگوں میں بھی کرنے کی ضرورت ہے۔ میری نگاہ میں اسلامی یونیورسٹی نے اس سلسلے میں بڑی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں اور میں جب دیکھتا ہوں کہ ہماری بہت سی کمزوریوں کے باوجود جو گریجویٹ اس نے تیار کیے ہیں، یہ بہت قیمتی کام ہوا ہے۔ خوشی ہوتی ہے کہ یہ لوگ آج کہاں کہاں اور کس طرح خدمات انجام دے رہیں ہیں، صرف پاکستان ہی میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں۔ لیکن یہ کام بہت ہی ذمہ داری کیساتھ مزید کرنے کا ہے، اور اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ آپ لوگ بھی awareness پیدا کریں۔ آپس میں مذاکرات کریں، گفتگو اور بحث کریں، یعنی ایک دوسرے کی تنقیص اور تکفیر کے چکر سے نکلیں۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس قسم کے مباحث بھی پاکستان میں پچھلے دس پندرہ سال میں میری نظر سے گزرے۔ میں نے استفادے کے لیے اُسے بھی پڑھا۔ لیکن مجھے دکھ ہوا ہے کہ جس گفتگو اور بحث سے بہت خیر نکل سکتا ہے اُس میں ہم ٹانگ کھینچنے میں الجھ جاتے ہیں، یہ نہیں ہونا چاہیے۔ تو ا س لیے یہ بات بھی میں آپ سے کہنا چاہتا ہوں۔
آخری چیز میں آپ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جس دور سے ہم گزر رہے ہیں اُس میں، حقیقت یہ ہے کہ، دین اور اہلِ دین کو خصوصی طورپر ہدف بنایا جارہا ہے، اور اُن کومعاشرے میں الگ تھلگ کرنے اور بے وقار کرنے کی منظم کوششیں کی جارہی ہیں جو ہمارے ملک میں بھی ہورہی ہیں اوریہ دنیا بھر میں ہورہا ہے۔ ان حالات میں ہماری یہ کوشش ہونی چاہیے کہ ہم غصے میں نہ آئیں۔ ردّعمل میں ہم کوئی ایسی چیز نہ کریں جو تشدد یا اسلام کی جو حسین تعبیر ہے، کسی حیثیت سے بھی اُس کو متأثر کرے۔ مداہنت نہ برتیں۔ محض کسی کو خوش کرنے کے لیے حق کو چھپانا یہ ہمارا شیوہ نہیں ہے۔ لیکن اس بات کی ضرورت ہے کہ علماء خصوصیت سے نوجوانوں کا دل جیتنے کی کوشش کریں، اُن کے اعتراضات کو سنیں، اُن پر حرف زنی اور تنقید کے پہلو سے احتیاط برتیں۔ نصیحت اور اصلاح کی ضرور کوشش کریں، یہ ہمارا فرض ہے۔ اور جو اسلوب اختیار کریں وہ وہی ہونا چاہیے جس کی طرف قرآن نے ہمیں تعلیم دی ہے کہ
اُدْعُ إِلَیٰ سَبِیلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْھُم بِالَّتِي ھِیَ أَحْسَنُ
’’اے نبیؐ! اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ، اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقہ پر جو بہترین ہو۔‘‘ (۱۶:۱۲۵)
جواب دیں