جنگ اور اسلام کا تصّورِجہاد
جنگ سے کیسے بچا جائے
مختلف اوقات میں، مختلف تہذیبیں بین الاقوامی قانون کو ترقی دیتی رہی ہیں اُن کا ایک ہی بنیادی مقصد تھا یعنی جنگ کو روکنا اور جہاں جنگ ناگزیر ہو جائے تو طاقت کے استعمال کو زیادہ سے زیادہ قابو میں رکھنا اورروکنا۔ اس مقصد کو دیکھتے ہوئے کسی بین الاقوامی اور خاص طور پر جنگی قانون کی ناکامی یا کامیابی کو ماپنے کا صحیح ترین پیمانہ یہی ہو سکتا ہے کہ دیکھا جائے کہ آیا اس قانون نے طاقت کے استعمال کو روکا ، منع کیا یا کم کیا ہے یا نہیں۔ کسی جنگی قانون کو کس حد تک کامیابی حاصل ہوئی ہے، اس بات کا فیصلہ اس بنیادی معیار کی روشنی میں کیا جانا چاہیے۔ محض نیک خواہشات کے اظہار، متاثر کن مثالی نمونے اور فصیح و بلیغ بیانات اور اعلانات کو کسی قانون کی کامیابی یا ناکامی کو ماپنے کے لیے بہت زیادہ وزن نہیں دیا جاسکتا۔ اقوام متحدہ اور دوسرے بین الاقوامی اداروں کی متعلقہ دستاویزات، خاص طور پر بین الاقوامی انسانی قوانین سے متعلق دستاویزات میں بین الاقوامی قانون کا مقصد یہ ہے۱:
-
جنگ کو روکنا
-
اس امر کو یقینی بنانا کہ بین الاقوامی اور مختلف ممالک کے مابین تنازعات پُر امن طریقے سے حل ہوں۔
-
اگر جنگ ناگزیر ہوجائے تو اسے کم سے کم حد تک روکے رکھنا۔
-
جنگ کے اثرات کو کم کرنا، خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو شریکِ جنگ نہ ہوں اور کسی جنگی سرگرمی میں براہِ راست حصّہ نہ لے رہے ہوں۔
-
ان لوگوں کو تحفظّ فراہم کرنا جو جنگ سے حادثاتی طور پر متاثر ہوگئے ہوں۲۔
تاریخِ انسانی میں، مختلف انداز اور مختلف ادوار میں وکلاء اور قانون دانوں کی جانب سے کی جانے والی عظیم کاوشوں کے باوجود، بین الاقوامی قانون طاقتور کو قابو میں رکھنے اور کمزور کا تحفظّ کرنے میں ناکام رہا ہے۔ تاریخ انسانی میں ایسی مثالیں بہت ہی کم ملتی ہیں جہاں ایک طاقتور ملک، طاقتورحکمران یا طاقتور فوج کو، جو کسی جنگ کو جاری رکھنے پر تُلی ہو،محض قانونی اصولوں یا اخلاقی اقدار کا حوالہ دیکر جنگ سے روکا جا سکے یا اس سے باز رہنے پر راضی کیا جاسکے۔ اس کے باوجود بھی، یہ ایک ایسا خواب ہے، جس کو انسانوں کو تعبیر دینا ہے۔ تاہم انسانی معاشروں میں اس بات پر اتفاق رائے کے باوجود کہ حتی الامکان جنگ سے گریز کیا جانا چاہیے، اس امر پر بھی اتفاق رہا ہے کہ بعض حالات میں جنگ لازمی ہو جاتی ہے اور وہاں طاقت کے استعمال کی اجازت دی جانی چاہیے۔ لیکن مشکل ترین سوال جوں کا توں ہے: اس بات کا فیصلہ کون کرے کہ کون سی خاص جنگ یا کون سے خاص حالات میں طاقت کا استعمال قابلِ اجازت اور جائز ہے؟
ماضی میں، تقریباً ۲۰ویں صدی کے آغاز تک، بہت سے مغربی مصنفین ایک ’’منصفانہ جنگ‘‘۳ کے تصور پر یقین رکھتے تھے۔ بین الاقوامی قانونی مباحثوں میں منصفانہ جنگ کے قابلِ عمل اور درست تصور کو سامنے لانے پر زور دیا گیا۔ منصفانہ جنگ کو پہچاننے اور غیر منصفانہ جنگ سے اس کوممیزکرنے کے لیے بہت سے اصول پیش کیے گئے۔ تاہم ، عملی اعتبار سے، ہمیشہ طاقتور ہی یہ فیصلہ کرتا تھا کہ اس کی جنگ مبنی برحق ہے۔ کمزوروں یا مفتوحین کی جنگوں کو فاتحین اور طاقتوروں نے ہمیشہ غیر منصفانہ جنگیں کہا۔ فتح کو تو ہمیشہ سے بہت سے دعویدار اور وارث ملِ جاتے ہیں جبکہ شکست کے لیے ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ شکست کا دعویٰ کبھی کسی نے نہیں کیا۔ ایسا اس وجہ سے ہے کہ ’’منصفانہ‘‘ جنگ تو ہمیشہ طاقتور نے لڑی ہے۔
ایسے میں طاقتور کی جانب سے طاقت کے حقیقی استعمال کو کون روک سکتا ہے؟ کیا اخلاقی جذبہ یا مذہبی تعلیم جنگ روک سکتی ہے؟ یا غیر جانبدار لوگوں کا جذبہ، جو جنگ کے میدا ن سے باہر ہوں، متاثر کن انداز میں طاقت کا استعمال کم کر ا سکتا ہے؟ یہ سوالات جنگ کے قانون اور اسلام کے تصورِ جہاد پر گفتگو کرنے کے لیے اہم ہیں۔
دوسری جنگِ عظیم سے قبل جنگ کا قانون طاقتور کو قابو میں رکھنے، جنگ کم کرنے یا روکنے میں، بالکل بے اثر اور کمزور ہوگیا تھا۔ یہ مختلف ممالک کی طرف سے پیش کردہ کئی معاہدوں اورسمجھوتوں پر مشتمل تھا۔ اس کے علاوہ روایتی اصول او رمسلّمات کی بنیاد پر روایتی قوانین تھے، جنہیں کم از کم نظری طور پر ہی سہی اہلِ علم اور قانون دان وزن دیتے تھے۔
عموماً ۱۹۴۵ء کے بعد سے جنگ کے قوانین کو زیادہ تفصیل سے پیش کیا گیا۔ یہ تفاصیل زیادہ درست اور دنیا کی حقیقتوں سے مطابقت رکھتی تھیں۔ اقوامِ متحدہ کے منشور نے جنگ کے قانون کو نئی جہت عطاکی۔ انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ،۱۹۴۰ء کے عشرے کے اواخر میں، کم سے کم نظریاتی اعتبار سے تو بنیادی تصورات اور اصولو ں پر اتفاق رائے پیدا ہو ا جس کی بنیاد پر جنگ کے قانون کو بتدریج ترقی دی گئی اور طاقت کے استعمال کو روکنے کی حکمتِ عملی مرتّب کی گئی۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چُکا ہے پرانے قانون دانوں نے زیادہ تر منصفانہ جنگ کے تصور پر ہی توجہ مرکوز رکھی تھی۔ انہوں ے اپنے آپ کو زیادہ تر اسی بات میں مصروف رکھا کہ وہ منصفانہ یا غیر منصفانہ جنگ کے قوانین اور معیار بناتے رہیں اور جنگ کے برحق ہونے یا نہ ہونے کو جانچتے رہیں۔ سینٹ آگسٹائن (St. Augustine)۔ جو عیسائی تاریخ اور مذہبیات کا بہت بڑا نام ہے، ہو گو گروشیس(Hugo Grotius)جسے کم از کم مغرب میں بین الاقوامی قانون کا بانی سمجھا جاتا ہے اور ان کے علاوہ بہت سے اہلِ علم اور مصنفین، 20ویں صدی کے آغاز تک منصفانہ اور غیر منصفانہ جنگ کے موضوع پر نہ ختم ہونے والی بحث میں مصروف تھے۔ ان مصنفین کا عام رحجان، ایسی قانونی حکمتِ عملی ترتیب دینا تھا جہاں، منصفانہ جنگ کے علاوہ، تمام جنگوں کو روکا جا سکے اور انہیں غیر قانونی گرد انا جاسکے۔ لیکن عملی طور پر دلیل یا عقل کی منطق کی بجائے، طاقت کی منطق ہی راج کرتی رہی۔
۱۔ اقوامِ متحدہ کی اہم ترین دستاویز،تنظیم اقوام متحدہ کامنشور،۱۹۹۵ء ہے۔اس منشور کا آرٹیکل۲، پیرا گراف۴ رکن ممالک کی جانب سے طاقت کے استعمال کی حدود بیان کرتا ہے، اس طرح جارحیت کے دائرہ کی وضاحت کرتا ہے۔ تاہم یہ بات کہ آرٹیکل۲(۴)اب بھی اپنے مقاصد کے حصول میں کار گر ہے یا نہیں، ایک سنجیدہ علمی بحث کاموضوع بنی رہی ہے۔۱۹۶۰ء کے عشرے کے اواخراور۱۹۷۰ء کے عشرے کے اوائل میں بہت سے اہلِ علم نے اس پر بحث کی جسے وہ اس آرٹیکل کی ’موت‘ یا قتل قراردیتے تھے۔ دوسرے بین الاقوامی اداروں کی متعلقہ دستاویزات کے تفصیلی مطالعے اور تجزیے کے لیے ملاحظہ کیجیے، سسّولی (Sassuli)بووئیر(Bouvier)۱۹۹۹ء
۲۔ ڈکسن،۲۰۰۱ء، ص۲۹۳
۳۔ صدیوں تک، قانونی دائروں میں اس بات پر بحث ہوتی رہی ہے کہ کیا چیز کسی جنگ کو منصفانہ یا غیر منصفانہ بناتی ہے اور ان میں کیا فرق ہے۔ Jusاور Bellumنیز Jusاور Belloپر گفتگو انتہائی قدیم عرصے سے مشرق اور مغرب کے مصنفین کی گفتگو کا موضوع رہے ہیں۔ سینٹ آگسٹائن، سینٹ تھامس ایکوی ناس اور ہوگو گورشیس نے عیسائیت کی تعلیم اور اس کے ساتھ ساتھ فطری قانون کے تصور کے تحت طاقت کے استعمال کا جوازپیش کرنے کی کوشش کی۔ دیکھیے Elshtain(ایڈیشن)،۱۹۹۲ء
جواب دیں