جنگ اور اسلام کا تصّورِجہاد
طاقت کے استعمال کا جواز
موجودہ بین الاقوامی قانون، جس کی اصل روح کو اقوامِ متحدہ کے منشور اور دوسرے بین الاقوامی اعلامیوں اور معاہدوں میں بیان کیا گیا ہے، طاقت کے استعمال کے لیے یہ نسبتاً زیادہ صحیح اوردرست تصور پیش کرتا ہے۔ معاصر تحریریں منصفانہ یا غیر منصفانہ جنگوں کے ذکر سے خالی ہیں ان کا اب مزید حوالہ نہیں دیا جاتا۔ تاہم پچھلے تقریباً۵۰سالوں سے، اقوامِ متحدہ کے قیام کے بعد سے ، اہلِ علم نے ان بنیادوں اور حالات کے متعلق لکھا ہے جو ایک ریاست کی جانب سے طاقت کے استعمال کو جائز بناتے ہیں اور جہاں طاقت کے استعمال کو بین الاقوامی قانون کی رو سے جائز قرار دیا جا سکتا ہے۴۔
پہلی بنیاد، ذاتی دفاع ہے جو کہ علمی حلقو ں، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی، سلامتی کونسل تمام کی جانب سے طویل مباحث کا موضوع رہا ہے۔ ذاتی دفاع کا تصور، اس کا مطلب اور اس کے استعمال کی حدود عالمی عدالت انصاف کے کئی اہم فیصلوں میں تفصیل سے زیرِ بحث آئے ہیں اور انہیں واضح کیا گیا ہے۔ ذاتی دفاع کا تصور ان حالات تک وسعت اختیار کر گیا ہے جہاں ایک فوری اور محسوس ہونے والا خطرہ، جودفاع کا تقاضا کرے، خواہ موجود نہ بھی ہو۔ اس وسیع مطلب نے پیش بندی اقدامات کے تصور کو ہوا دی ہے۔ نتیجتاً ، ممکنہ نشانے کی طرف سے ممکنہ جارح کے خلاف کیے جانے والے اقدام بھی ذاتی دفاع کی وسیع تر تعریف میں شامل کر لیے گئے ہیں۔
دوسرا معاملہ، جہاں طاقت کے استعمال کو جائز قرار دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ خانہ جنگی، شورش یا تصادم کی صورت میں، ایک ملک اپنے ہمسایہ ملک کو مداخلت کی دعوت دیتا ہے اور بلا جواز خانہ جنگی کے مرتکب افراد کے خلاف، طاقت استعمال کرکے، حالات درست کرتا ہے بین الاقوامی قانون پر لکھی جانے والی بہت سی تحریروں میں ایسی مداخلت کو طاقت کے استعمال کی درست وجہ قرار دیا گیا ہے۔
طاقت کے استعمال کی تیسری بنیاد جوابی کارروائی یا ’ادلے کا بدلہ‘ کا قدیم اصول، یعنی کسی اقدام کے جواب میں ویسا ہی سخت جوابی قدم اُٹھانا ہے۔
چوتھی بنیاد، بیرونِ ملک مقیم، کسی ملک کے باشندوں اور ان کی املاک کا تحفظ ہے۔ اگر کسی ملک کے باشندوں یا ان کی املاک پر کسی دوسرے ملک میں حملہ کردیا جائے تو ایسے ملک کے لیے اپنے شہریوں اور املاک کے تحفظ کے لیے طاقت کے استعمال کو جائز سمجھا جائے گا۔
’’قانونی طور پر درست‘‘ ان تسلیم شدہ بنیادوں کے علاوہ، ایک بنیاد ایسی ہے جو شکست خوردہ کے مطابق مثبت مقاصد کے لیے استعمال کی گئی ہے۔ اسے ’’انسانی فلاحی بنیادوں پر مداخلت‘‘ (humanitarian intervention)کے نام سے جانا جاتا ہے۵۔ لیکن دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی بنیاد نیز خفیہ اور غیر روایتی محرکات رکھنے والے افراد کے ذریعے مداخلت کی اس شکل کابڑی آسانی کے ساتھ غلط استعمال کیا جا سکتا ہے۔ آزادی کی قومی تحریکوں کا سوال، انسانی فلاحی مداخلت کے سوال سے بہت قریبی تعلق رکھتا ہے اور حال ہی میں بین الاقوامی قانون کی کتابوں میں ایسی تحریکوں کا ذکر آیا ہے۶۔ آزادی کی قومی تحریکیں۲۰ویں صدی کے نصف میں اُبھریں اور بہت سے افریقی اور ایشیائی ممالک میں بڑی تیزی سے مقبول ہو ئیں۔ تقریباً ایسے تمام معاملات میں، استعمار، مغربی یا یورپی طاقتیں تھیں اور جو لوگ آزادی کی تحریکوں کو چلا رہے تھے یا ان کی قیادت کر رہے تھے، وہ زیادہ تر افریقی یا ایشیائی ممالک سے تعلق رکھتے تھے۔ ان ممالک میں آزادی کی تحریکوں کے تیز رفتاری سے اور مسلسل اُبھرنے کی وجہ سے یہ سوال پیدا ہوا کہ آیا بین الاقوامی قانون کے تحت ان تحریکوں کے خلاف طاقت کا استعمال درست ہے یا ان تحریکوں کی طرف سے کیا جانے والا طاقت کا استعمال، اور اگر ایسا ہے تو کس حد تک ؟ فریقین کے لیے اپنا جواز ثابت کرنے کی کیا بنیاد ہے؟ اگر آزادی کی تحریکوں کے خلاف طاقت کا استعمال درست ہے تو ان تحریکوں کی سرگرمیوں کو غیر منصفانہ تسلیم کرنا پڑے گا۔ دوسری جانب، اگر آزادی کی تحریکیں، سامراجیوں کے خلاف طاقت استعمال کرنے میں حق بجانب ہیں تو ایسی صورت میں سامراجیوں کی طرف سے۔ کسی طرح سے بھی۔طاقت کے استعمال کا جواز پیش نہیں کیا جا سکتا ۔ اس طرح یہ سوال ایک دو دھاری تلوار کی مانند ہے، جس کا حل، احتیاط کے ساتھ تلاش کرنا ہوگا۔
گذشتہ چار دہائیوں سے سرگرم تعاقب (Hot pursuit)کے تصور نے کسی دوسرے ملک کے خلاف طاقت کے استعمال کی ممکنہ بنیاد کے طور پر بین الاقوامی قانون کی کتب میں جگہ بنائی ہے۔ بہت سی صورتوں میں ، سرگرم تعاقب، آزادی کی قومی تحریکوں کے خلاف اقدامات کا شاخسانہ ہے۔
یہ بنیادیں عالمی عدالت انصاف کے ۱۹۸۶ء کے شہرۂ آفاق فیصلے،نکارا گووابنام ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں وضاحت کے ساتھ بیان ہوئی ہیں۔ اس فیصلے میں کچھ بنیادیں تصورات کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ فیصلے میں، بنیادی گفتگو کے علاوہ، ججز کے تبصرے ، متعلقہ قانونی معاملات کو سمجھنے کے لیے بہت اہم ہیں۷۔
۴۔ ملاحظہ ہو، ولسن، ۱۹۸۸ء۔
۵ ’’انسانیت کے نام پر مداخلت‘‘ مقابلتہً ایک نئی اصطلاح ہے جو دیگر نوعیتکی مداخلتوں سے ممیزکرنے کے لیے وضع کی گئی ہے، جیسے اندرونی یا بیرونی مداخلت یا سزا کے لیے مداخلت وغیرہ جن کی بین الاقوامی قانون میں حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ انسانیتی مداخلت کو واحد جائز وجہ کی حیثیت سے اقوام متحدہ کے منشور میں دفعہ ۲(۴) میں شامل کیا گیاہے۔ انسانیتی مداخلت پر ایک اچھی بحث کے لیے دیکھیے :براؤن لی، ۱۹۷۴ء
۶مختصر حل کے لیے دیکھیے: لیوی،۱۹۹۱ء،صفحات ۶۹،۷۰
۷ ۔ دیکھیے، بین الاقوامی قانون کی امریکن سوسائٹی، ۱۹۸۶ء،صفحات۱۰۲۳۔۱۰۹۱
جواب دیں