جنگ اور اسلام کا تصّورِجہاد
الکا او سٹیلو۵۸: جب ہم جنیوا کنونشن کی بات کرتے ہیں تو ہمیں اس چیز کا ادراک ہونا چاہیے کہ ان معاہدوں میں طے پانے والے اصولوں کو پہلے سے زیادہ چیلنجوں اور روگردانی کا سامنا ہے لیکن ان قوانین کو جتنا للکار ا جائے گا اور ان کی جتنی خلاف ورزی ہوگی، ہمیں اس کا حل تلاش کرنے کی اتنی ہی شدید ضرورت محسوس ہوگی۔ آج وہ وقت آن پہنچا ہے کہ موجودہ عالمگیر چیلنج سے نمٹنے کے لیے مشترکہ حکمتِ عملی اختیار کریں۔ بین الاقوامی قوانین کو مغرب کی تیار کردہ چیز کے طور پر دیکھا اور پیش نہیں کیا جانا چاہیے۔ ہم موجودہ دنیا میں یک طرفہ حوالے کے ذریعے مسائل کو حل نہیں کر سکتے۔ ہمیں قوموں کے مابین تعاون کے مواقع کو تلاش کرنا ہوگا۔ ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ہم سب مل کر انسانیت کو درپیش خطرات کو کس طرح کم کر سکتے ہیں۔ بین الاقوامی اصول و اقدار کی ترقی میں مختلف اقوام کے کردار کو زیادہ بہتر طریقے سے تسلیم کرنے سے، بین الاقوامی قوانین کی بہتر قبولیت میں مدد ملے گی۔
آج جہاد کے تصور کو بالعموم غلط انداز میں سمجھا جاتا ہے اور درست فہم کا یہ فقدان، اسلام کے متعلق غلط فہمیوں کی وجہ بنتا ہے۔ جہاد کو جس طرح سے ذرائع ابلاغ اور خاص طور پر مغربی ذرائع ابلاغ میں پیش کیا جاتا ہے، اس سے اسلام کے ایک جنگجو مذہب نہ کہ پُر امن مذہب کی تصویر کشی ہوتی ہے۔ وہ لوگ جو اپنی جدوجہد کو جہاد کے نام سے موسوم کرتے ہیں، انہیں بھی اپنے رویّے میں محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔ تاکہ ایسے غلط نظریات کو پنپنے کا کم سے کم موقع ملے۔ اسلام کے قوانین جنگ کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ وہ لوگ جو لڑائی میں براہِ راست حصہ نہ لے رہے ہوں، ان کو تحفظ فراہم کیا جائے یہ عین وہی اصول ہے جس پرجنیوا کنونشن کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ طاقت کے بے جا استعمال کو روکنا، دھوکہ دہی کی ممانعت اور جوابی کارروائی اسلام کے قانونِ جنگ اور موجودہ بین الاقوامی قانون کے درمیان مماثلث کی درخشاں مثالیں ہیں۔
سوال: مسلمانوں کی جانب سے عصری مزاحمتی تحریکیں جیسے کشمیر، فلسطین، عراق وغیرہ میں ہیں۔ یہ تحریکیں حکومت کی جانب سے اعلان کردہ نہیں ہیں۔ کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس بنیاد پر ان تمام کوششوں پر ’غیر قانونی‘ کا عنوان تھوپ دیا جائے؟
ڈاکٹر غازی : میں ارادتاً اس غلط فہمی سے بچنا چاہتا تھا لیکن اگر یہ اب بھی قائم ہے تو میں اپنی بات کو دہراؤں گا کہ وہ علاقے جہاں قانونی طور پر تسلیم شدہ مسلمان حکومت موجود ہے، وہاں حکومت کی اجاز ت کے بغیر جہاد کا آغاز نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن وہ علاقے جہاں مسلمان حکومت موجود نہیں ہے اور وہاں مسلمانوں پر حملہ کیا جاتا ہے یا وہ مسلمان ممالک جن پر غیر مسلم ممالک نے قبضہ کر لیا ہے اور وہاں مسلمان حکومت باقی نہیں رہی تو کسی سے اجازت طلب کرنے کا سوال بھی باقی نہیں رہتا کیونکہ وہاں تو حکومت کا وجودہی نہیں ہے۔ اس لیے آزادی کی قومی تحریکیں جو کشمیریوں، فلسطینیوں اور بعض دوسروں نے جاری کر رکھی ہیں، بالکل جہاد کے معنوں میں شامل ہیں۔ لیکن اگر مسلمان ملک کاکوئی شہری ایسی جگہ جاتاہے، جہاں جہاد اس کی حکومت کی مرضی کے بغیر ہو رہا ہے، تو یقیناًوہ غلطی پر ہے۔ اس کے برعکس اگر کوئی غیر مسلم ملک، کسی مسلمان ملک پر حملہ کر دیتا ہے اور اُس ملک کی حکومت باقی نہیں رہتی، تب لوگوں پر یہ فرض عائد ہوگا کہ وہ ہتھیار اُٹھالیں اور جنگ کریں اور یہ لڑائی اعلیٰ درجے کا جہاد ہوگی۔
سوال: زیرِ بحث گفتگو کے سیاق میں نبی کریمؐ کی ایک حدیث نقل کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’کبھی جنگ اور جارحیت کی خواہش نہ کرو۔ ہمیشہ خدا سے تحفظ اور امن کی دعا کرو لیکن جب امن کو خطرہ لاحق ہوجائے تو جنت تلواروں کے سائے تلے ہے ۵۹۔‘‘
ڈاکٹر غازی: دراصل اس حدیث کو میں نے بھی نوٹ کر رکھا تھا لیکن وقت کی کمی کے باعث یہ میرے ذہن سے نکل گئی۔
سوال: اکثر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ اسلام بزورِ شمشیر پھیلا تھا اور مسلمان اس نقطۂ نظر کو غلط قرار دیتے ہیں۔ مسلمان علماء اسلام کے ابتدائی دور میں شمالی افریقہ کی مہمات کے متعلق کیا کہتے ہیں اور یہ حقیقت اپنی جگہ موجود تھی کہ ان علاقوں کے رہنے والے قبائل سے براہِ راست عرب کے مسلمانوں کو کوئی خطرہ نہ تھا؟
ڈاکٹر غازی: یہ درست ہے کہ اسلام کو پھیلا نے یا لوگوں کو زبردستی مسلمان بنانے کے لیے جہاد کی کبھی اجازت نہیں دی گئی۔ مسلم تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی آبادی کو طاقت کے استعمال یا ریاست کہ اثرو رسوخ کے زیرِ اثر اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا گیا ہو۔
مشرقِ بعید میں اسلام کے پُر امن پھیلنے کی شاندار اور درخشاں مثال موجود ہے ۔ آج تک کوئی مسلمان فوج ملائیشیا یا انڈونیشیایا اس خطے میں نہیں گئی لیکن آج مسلمانوں کی کل آبادی کا ایک تہائی وہاں آباد ہے۔ یہ حقیقت کہ انہوں نے ایک بھی فوجی کی موجودگی کے بغیر اسلام قبول کیا، اس بات کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ اسلام کے اندر خود اس کی اپنی قوت محرکہ موجود ہے جو اس کے پھیلاؤ کے لیے طاقت کے استعمال کی محتاج نہیں ہے۔ شمالی افریقہ میں، تیسرے خلیفہ راشدؓ اور ان کے جانشینوں کی جانب سے طاقت کا استعمال ، لوگوں کو زبردستی مسلمان بنانے کے لیے ہر گز نہ تھا۔ یہ تاریخی اعتبار سے مستندبات ہے کہ اسلامی فتح کے بعد دو صدیاں گزر جانے کے باوجود شمالی افریقہ کی اکثریت غیر مسلم ہی رہی۔ آپ کو یہ بات یاد ہوگی کہ حضرت عمرؓ بن عبدالعزیز، بنوامیہ کے خلیفہ، نے شمالی افریقی ممالک کے مقامی سرداروں اور قبائلی عمائدین کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دینے کے لیے خطوط لکھے تھے۔ اور ان کی دعوت کے جواب میں ان میں سے کچھ نے اسلام قبول بھی کر لیا تھا۔ یہ اس حقیقت کی جانب واضح اشارہ ہے کہ ان علاقوں کے لوگ دوسری صدی کی ابتدا۔ یعنی اتنی تاخیر تک ۔ غیر مسلم ہی تھے۔ اور ایسی شہادتیں بھی موجود ہیں کہ اُن میں سے بہت سے لوگ تیسری صدی کے آغاز تک غیر مسلم تھے۔ ان علاقوں میں اسلام کی قبولیت کا عمل فطری رفتار سے جاری رہا اور یہ تقریباً تین سے چار صدیوں میں مکمل ہوا۔
درحقیقت جب فتحِ مصر مکمل ہوچکی، مسلمان افواج شمال کی جانب سے مستقل خطرہ محسوس کررہی تھیں۔ مؤ رخین نے تقریباً درجن بھر ایسے واقعات نقل کیے ہیں جہاں مصر میں مسلمانوں کے فوجی خیموں پر شمال سے حملے کیے گئے۔ قزاق بحری جہازوں پر حملے کیا کرتے تھے اور وہاں پناہ لے لیتے جسے آج تیونس کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مسلمان تاجروں کو ہراساں کیا جاتا اور ان حملہ آوروں کو موجودہ الجیریا، لیبیا اور تیونس نامی علاقے میں مقامی سردار تحفظ فراہم کیا کرتے تھے۔مسلمان تاجروں اور مسلمان ملاحوں کو محفوظ راستہ مہیّا کرنے، مسلمانوں کے علاقوں میں مداخلت روکنے اور مصر کے علاقے میں مسلمان افواج کی چھاؤنیوں پر حملوں سے بچاؤ کے لیے سخت قدم اُٹھایا گیا جس کا نتیجہ ایک طویل جنگ کی صورت میں نکلا۔ مسلمان مجبور ہوگئے تھے کہ معاملے کو اس کے منطقی انجام تک پہنچا یا جائے۔ ان کا مقصد اُنہیں اسلام قبول کرنے پر مجبور کرنا نہیں تھا کیونکہ اگر یہی مقصد ہوتا تو یہ لوگ چوتھی صدی کے آغاز تک غیر مسلم نہ رہتے۔
سوال: شریعت کی رُو سے مسلمان ملک کے شہری کو جہاد میں شرکت سے قبل ریاست کی اجازت حاصل کرنا ہوتی ہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمان نوجوان بعض مسلمان مذہبی لوگوں کے درس اور وعظ سے متاثر ہوکر مسلح جدوجہد میں شامل ہوجاتے ہیں۔ یہ واضح ہے کہ یہ نوجوان بہت باہمت ہیں اور اسلام کی عظمت کے لیے کچھ کرگزرنے کا جذبہ رکھتے ہیں۔آپ کے خیال میں وہ کون سے اقدامات ہونے چاہییں جن سے ان مسلمان نوجوانوں کی توانائیوں کو درست سمت دی جاسکے اور اسے پائیدار اور مثبت تبدیلی کے لیے استعمال کیا جاسکے؟
ڈاکٹر غازی: نبی اکرمؐ نے جہاد کے سیاق میں بار بار صبر کی تاکید کی ہے۔ ایک جانب تو قرآن وسنت کے احکامات مسلمانوں سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ جب بھی ضرورت ہو، وہ جہاد کریں، دوسری جانب انہیں صبر کی بھی تعلیم دی گئی ہے۔ ان سے اپنے طرزِ عمل میں صابر اور ثابت قدم رہنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ قرآنِ پاک میں جہاں کہیں جہاد کی آیات کاذکر کیا گیا ہے، وہیں جہاد کے لیے مطلوب شرائط کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔ مسلم نوجوانوں کو اس بات کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے کہ اصلاح کی مہم میں مسلح جدوجہد سے قبل بہت سے مراحل آتے ہیں۔ انہیں چاہیے کہ ان مراحل کا حق ادا کرنے اور اپنے آپ کو پاک صاف کرنے کے لیے صبر سے کام لیں۔ نبی کریمؐ نے اپنے ساتھیوں کی تیرہ برس تک تربیت کی۔ ان میں سے بہت سے نوجوان تھے۔ حتیٰ کہ مدینہ میں آجانے کے بعد بھی انہوں نے بہت سے نوجوانوں کو حقیقی جنگ میں حصہ لینے کی اجازت نہ دی ۔ جب غزوۂ احد میں ، مدینہ کے دفاع کا معاملہ تھا، بہت سے نوجوان ایسے تھے جو جنگ میں حصہ لینا چاہتے تھے لیکن آپؐ نے ان فوجیوں کو مسلمان فوج میں شامل ہونے سے منع کردیا۔ غالباً وہ اپنے لوگوں کو صابر اور نظم و ضبط کا پابند بنانے کی کوشش کررہے تھے۔ تاکہ وہ قیادت کے احکام کے پابند رہیں اور ذاتی جذبات و خواہشات کو مشترکہ مفادات پر غالب نہ آنے دیں۔
سوال: زیرِ بحث گفتگو کے تناظر میں ۔ براہِ مہربانی۔ کیا آپ اس معیار کی نشاندہی کر سکتے ہیں جس کی بنیاد پر مسلمانوں کے ذریعے چلائی جانے والی حکومت کو واقعی سچی اسلامی حکومت کہا جاسکتا ہے؟
ڈاکٹر غازی: جب ہم نبی کریم ؐ کی احادیث کے مجموعوں پر نظر ڈالتے ہیں، تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے اس سوال کا پہلے ہی اندازہ کر لیا تھا جو آپ پوچھ رہے ہیں۔کسی شخص کو جہاد پر جانے یا نہ جانے دینے کی اجازت کا اختیار اچھی یا بُری حکومت پر منحصر نہیں ہے۔ نبی کریمؐ نے واضح الفاظ میں فرمایا ہے:
الجھاد ماض الی یوم القیامۃ لا یبطلہ جورجائر ولا عدل عادل ۶۰ یعنی جہاد شریعت میں بیان کردہ شرائط کے مطابق قیامت کے دن تک جاری رہے گا۔ یہ اس وجہ سے روکا نہیں جا سکے گا کہ کوئی حکمران جابر ہے اور نہ اس بنیاد پر جائز قرار دیا جاسکے گا کہ کوئی حکمران جابر نہیں ہے۔
جہاد کا مطلب ہے اجتماعی کوشش، جس میں فیصلہ سازی، مشقوں کوکنٹرول کرنے، نظم و ضبط کو یقینی بنانے اور اعتماد کی فضا سے لطف اندوز ہونے کے لیے مرکزی حکومت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر کوئی جنگ مسلمانوں کی اجتماعی طاقت کو مؤثر بنائے اور اکثریت کا اعتماد حاصل کیے بغیر، افراد اور گروہوں کی جانب سے شروع کردی جاتی ہے تو اس کے نتیجے میں بعض پاکیزہ نفوس کا خاتمہ تو ہوسکتا ہے لیکن حقیقی تبدیلی کا آنا مشکل ہے۔
سوال: جب ہم جہاد کی بات کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ قرآن و سنت میں بہت سے ایسے بیانات ملتے ہیں جو جہاد کی عظمت بیان کرتے ہیں اور بڑے مؤ ثر انداز میں اس کی دعوت دیتے ہیں۔ ان آیات کو ان حالات میں استعمال کیا جاسکتا ہے جہاں مسلمانوں کی زمینوں پر قبضہ کیا گیا ہے اور مسلمان آبادی کو ایذا پہنچائی گئی یا ان کا استحصال کیا گیا ہے جیسے فلسطین کا مسئلہ ہے۔ لیکن ایسی مثالیں بھی ہو سکتی ہیں جہاں قرآن و حدیث کے انہی الفاظ کو دہشت گرد گروپ اپنی کارروائیوں کے جواز کے لیے استعمال کریں۔ کیا اسلامی فقہ میں کوئی ایسا معیار ہے جس کے ذریعے تفریق کی جاسکے کہ کون لوگ اپنی کوشش میں عین حق پر ہیں اور کون نہیں ہیں؟
ڈاکٹر غازی: دراصل اس سوال کے دو پہلو ہیں۔ ایک پہلو اصولی اور نظریاتی ہے اور دوسرا اس کے نفاذ اور حقیقت کا ہے۔ نظریاتی طور پر اور اسلامی اصولوں کی رُو سے ، اگر ایک مسلمان مُلک یا مسلمان علاقے پر حملہ ہوجاتا ہے اور ان کے اپنے ملک میں، مسلمانوں کی آزادی کے حق کی نفی کی جاتی ہے تو وہ ہتھیار اُٹھانے میں حق بجانب ہیں اور یہ ہتھیار اُٹھانا اسلامی قانون کے عین مطابق ہوگا۔
اس معاملے کا دوسرا پہلوعملی ہے اور اس کے بارے میں۔ اس لحاظ سے کہ کہاں اس نظریے کو لاگو کرنا درست ہے یا نہیں ۔ رائے میں اختلاف اور نظریات میں بھی اختلاف ہو سکتا ہے۔ کوئی علاقہ مسلمان ملک کہلا سکتا ہے یا نہیں۔ اس بات کا فیصلہ کرنے کے لیے بہت سے پہلوؤں کو مدِ نظر رکھناہوتا ہے۔ ایسے ہر معاملے کو علاحدہ علاحدہ ، اس کے خاص حالات کے حوالے سے پرکھا جاتا ہے۔ اس بارے میں عمومی رائے نہیں دی جاسکتی۔
سوال: سرگرم تعاقب (Hot Pursuit)، بین الاقوامی قانون میں مشتبہ الفاظ ہیں، یہ عام طور پر سمندر کے حوالے سے قبول کیے جاتے ہیں اور اگر کوئی بحری جہاز، غیر قانونی یا قزاقوں کا تعاقب کر رہا ہو تو ایسی صورت میں قومی سرحدوں کے سوال سے اجتناب کیا جاتا ہے۔ لیکن جہاں تک زمین پر سرگرم تعاقب کا تعلق ہے۔ بین الاقوامی قانون کی کتب کو شُبہ ہے کہ یہ تسلیم شدہ قانون ہے یا نہیں۔ کیا ’سرگرم تعاقب‘ اسلام کے مطابق جنگ کرنے کی وجہ ہو سکتی ہے یا نہیں؟
جب ’امام‘ کے لفظ کاترجمہ جدید تناظر میں ’حکومت‘ سے کیا جاتا ہے تو اس سے غلط فہمی پیدا ہوسکتی ہے۔ امام ایک فرد ہے جبکہ حکومت ایک ادارہ ہے اور تمام چیزیں جو نقل کی گئی ہیں ان میں امام کو مخاطب کیا گیا ہے نہ کہ حکومت کو۔
ڈاکٹر غازی: درحقیقت ، میں جو بات کہنا چاہ رہا تھا ان بنیادوں کا ذکر تھا جو جنگ کے لیے جائز سمجھی جاتی ہیں۔ ان میں سے کچھ شریعت کے ساتھ مطابقت رکھتی ہیں اور براہِ راست قرآن میں مذکور ہیں، سوائے ’سرگرم تعاقب‘ کے۔میں نے واضح طورپر بیان کیا ہے کہ مسلم لٹریچر میں اس نوعیت کے سوال کا ذکر ہی نہیں ملتا۔ اس لیے مسلمان فوج کی جانب سے ہتھیار اُٹھانے کے لیے اسے جائز بنیاد قرار نہیں دیا جاسکتا۔
’امام‘ کے لفظ کو مسلمان فقہاء نے عمومی معنوں میں استعمال کیا ہے۔ اگرچہ لغوی طور پر اس کا معنی ’قائد‘ یا ’صدرِ مملکت‘ کا ہے لیکن عام طور پر یہ ساری فقہی زبان میں ان معنوں میں استعمال ہو ہے جن معنوں میں ہم روزمرہ گفتگو میں ’صدر‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً ’’صدر صاحب کو آپ کے تقررّ سے خوشی ہوئی ہے‘‘، ’’صدر صاحب نے بخوشی یہ فیصلہ کیا ہے‘‘ وغیرہ۔ ہر بات صدر کا نام لے کر کی جاتی ہے لیکن یہ ساری حکومت مل کر کرتی ہے نہ کہ ایک فرد۔ بالکل اِسی طرح ، فقہی ادب میں، خاص طور پر چوتھی صدی اور اس کے بعد سے ’امام‘ کا لفظ، مسلمان حکومت یا امام کی سربراہی میں قائم حکومت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
۵۸۔ عزت مآب الکا اوسٹیلو پاکستان میں یورپی کمیونٹی وفد کی قیادت کرتے رہے
۵۹۔ زیلعی، ص ۳۸۱۵۹۔ زیلعی، ص ۳۸۱
۶۰۔ بخاری، باب الجہاد
جواب دیں