پاکستان کو درپیش آب و ہوا کی تبدیلی کے مسائل پر گول میز کانفرنس
آب و ہوا کی تبدیلی سے پیداہونے والے حالات کا پاکستان اکیلے مقابلہ کرہی نہیں سکتا کیونکہ نہ تو یہ اپنے ترقیاتی منصوبوں کو روکنے کا متحمل ہو سکتا ہے اور نہ اس کے عوامل کو کم کرنے کے لیے درکار اخراجات میں اضافے کا بوجھ اٹھا سکتا ہے۔ پچھلی دو دہائیوں سے فضامیں کاربن کی آلودگی میں پاکستان کا کردار0.08فی صد ہے لیکن آب و ہوا کی تبدیلی کے باعث مرتب ہونے والے اثرات کا انتہائی خوفناک نتیجہ بھگت رہا ہے اور اس ضمن میں آٹھ متاثرہ ترین ممالک میں سے ایک ہے۔
’’پاکستان اور موسمیاتی تبدیلی: چیلنج اور ردعمل‘‘ کے عنوان سے منعقد ہونے والی گول میز کانفرنس میں شریک تمام افراد نے اس بات سے اتفاق کیا۔ یہ کانفرنس انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اور رفاہ انسٹی ٹیوٹ آف پبلک پالیسی (RIPP)کی مشترکہ کاوشوں سے منعقد ہوئی۔
لیڈ پاکستان (لیڈر شپ فار اینوائرمنٹ اینڈ ڈویلپمنٹ)کے سینئر ایڈوائز اور ورلڈ میٹر و لوجیکل آرگنائزیشن کے سابق نائب صدر ڈاکٹر قمر الزمان اور آئی پی ایس کی نیشنل اکیڈمک کونسل کے ممبر اور سابق سیکرٹری وزارتِ پانی و بجلی مرزا حامد حسن کانفرنس کے مرکزی مقررین تھے۔ وائس چانسلر رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی ڈاکٹر انیس احمد ، ڈائریکٹر جنرل انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز خالد حمن اور رفاہ انسٹی ٹیوٹ آف پبلک پالیسی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر راشد آفتاب دیگر مقررین میں شامل تھے۔ کانفرنس میں ماحولیاتی سائنسدانوں، پالیسی ایڈوائزرز، طالب علموں اور سرگرم کارکنوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔
ماہرین اور شرکاء نے اس بات پر اتفاق کیا کہ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی کی روک تھام اور موافق پہلوئوں پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے کیونکہ آب و ہوا میں تبدیلی کے عوامل میں کمی کے لیے جن ترقیاتی منصوبوں کی ضرورت ہوتی ہے وہ بہت زیادہ لاگت پر مبنی ہوتے ہیں۔
کانفرنس میں اس بات کو بھی اجاگر کیا گیا کہ ماحولیاتی تبدیلی کا مسئلہ بہت سے شعبوں سے تعلق رکھتاہے اس لیے اس کے چیلنجوں سے نبرد آزما ہونا وفاقی یا صوبائی سطح پر صرف وزارت ماحولیات کی ذمہ داری قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس کی بجائے ہر وزارت، محکمہ اور ایجنسی کی ذمہ داری ہونی چاہیے کہ وہ اپنے اپنے دائرہ عمل کو سامنے رکھتے ہوئے ماحولیاتی یا آب و ہوا کی تبدیلی کی پالیسی پر کام کرے اور انہیں ترقی دے۔
جواب دیں