مشرقِ وسطیٰ اورتعلیمی سامراجیت
قرآن کریم نے اپنی عالمی اخلاقی انقلاب کی دعوت کا آغاز جس کلمہ سے کیا تھا وہ ایک اُمی قوم کے لیے جانا پہچانا لفظ تھا لیکن وہ صدیوں کے دور زوال کی بنا پر اس کے مفہوم اور مضمرات کو اپنی یادداشت میں گم کر چکی تھی۔ ’’پڑھو اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا۔ جمے ہوئے خون کی ایک پھٹکی سے انسان کی تخلیق کی۔پڑھو، تمہارا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعہ علم سکھایا‘‘ (العلق۹۶:۱تا ۵)۔ علم، معرفت، تحقیق اورتفقّہ کی روایت نے نو تعمیر کردہ اسلامی معاشرہ کو دیگر معاصر تہذیبوں پر فوقیت اورامتیاز بخشااورمدینہ منورہ میں اسلامی ریاست اورمعاشرہ کے قیام کے اولین سو برسوںمیں مسلمان مختلف شعبۂ ہائے علم میں قیادت کے مقام تک پہنچ گئے۔ ان کی قرآن و سنت سے وابستگی کے نتیجہ میں جو علوم پروان چڑھے ان کی بنیاد قرآن و سنت کے فراہم کردہ عالمی اخلاقی اصولوں پر تھی لیکن ان علوم نے عصری مسائل کے علمی حل پیش کیے جس کی بنا پر غیر مسلم دنیا میں بھی ان کے اثرات تیزی سے پھیلے۔
وہ قوم جو اپنے اُمی ہونے پر فخر کرتی تھی اس دعوتِ علم و عمل کے نتیجے میں علم کے ہر شعبے میں قیادت و سربراہی کے مقام پر فائز ہوگئی اورپانچ صدیوں تک علم و ثقافت کے اتار چڑھائو کے باوجود تخلیق علم کے ذریعہ انسانیت کے مسائل کا حل کرتی رہی۔ جوں جوںاس کا تعلق قرآن کریم سے کم ہوتا گیا اس کی علمی جدت اور ولولہ میں کمی آتی گئی اور وہی امت مسلمہ جو علم ومعرفت میں قائدانہ کردار ادا کر رہی تھی غلامی اور تقلید کا شکار ہوگئی۔امت کے سیاسی زوال کے باوجود معاشرتی اور علمی میدانوں میں وقتاً فوقتاًایسے مجددین آتے رہے جن کی مساعی جمیلہ کے نتیجہ میں تاریکی میں قندیلیں روشن ہوتی رہیں۔ ایک جانب خاندانی نظام اور دوسری جانب درس گاہ کا نظام کسی نہ کسی طرح اپنی مستقل بالذات شکل میں زندہ رہا۔مغربی سامراج نے اٹھارھویں صدی میلادی سے اپنی بر تر عسکری قوت اور معاشی ترقی کے سہارے روایتی مسلمان خطوں پر تسلط حاصل کیا تو معیشت کے دروازے صرف ان افراد کے لیے کھولے جو مغربی سامراج کی زبان و ثقافت سے آگاہی رکھتے ہوں۔ چنانچہ انگریزی ،فرانسیسی اور اطالوی سامراج نے برصغیر پاک و ہند ہو یا جنوب مشرقی ایشیایا افریقہ اور مشرق وسطیٰ انگریزی، فرانسیسی، اطالوی اور پرتگالی زبانوں کی ترویج کے ساتھ وہ نظام تعلیم بھی رائج کیا جو اسے انتظامی کارندے فراہم کر سکے۔ مشرق وسطیٰ میں مصر میں انگریزی، شام، لبنان اور الجزائر میں فرانسیسی اور لیبیامیں اطالوی اثرات کے نتیجے میں سرکاری تعلیمی اداروں اور جامعات میں تعلیم پانے والی نئی نسل پر مغربی فکر کے اثرات ایک فطری عمل کی شکل اختیار کر گئے۔
مشرق وسطیٰ میں مغرب کی تعلیمی سامراجیت کی ایک نمائندہ مثال بیروت میں ۱۸۶۶ء میں Syrian Protestant College کا وجود میں آناہے،جسیامریکی مشنریوں نے قائم کیا۔شام اوردیگر مقامات پر Jesuitعیسائی فرقے کے مشنری پہلے ہی سے تعلیمی میدان میں سرگرم تھے۔امریکی مشنریوں کے قائم کردہ کالج اور بعد میں امریکی یونیورسٹی بیروت کا قیام مستقبل میں مشرق وسطیٰ کے علمی اور سیاسی حلقوںپر گہرے اثرات کا باعث بنا ۔ان اداروں سے جن عیسائی اور مسلمان طلبہ نے تعلیم حاصل کی وہ غیر محسوس طور پر مغربی فکر سے متاثر ذہن لے کر سیاست ،تعلیم اور معیشت کے میدانوں میں اترے۔ ان میں عرب قومیت جس کی بنیاد عربی زبان کا اشتراک تھانمایاں تھی۔جو عرب قوم پرست یہاں سے نکلے وہ دیگر ممالک ،مصر اور عراق ،پر بھی اثر انداز ہوئے اور اس طرح یورپی تعلیمی سامراجیت نے مشرق وسطیٰ میں جڑیں پکڑیں۔
یورپی تعلیمی سامراجیت نے مشرق وسطیٰ میں سیکولر ازم ،مادیت اور قوم پرستی کے تصورات کو پھیلانے میں اپنے تمام وسائل کو انتہائی ذہانت کے ساتھ استعمال کیا۔اس سلسلہ میں ۱۸۲۲ء میں مصر میںپرنٹنگ پریس کے قیام نے عربی زبان میں ایسے مواد کی اشاعت کو بہت آسان بنا دیا جو لادینیت، عرب قوم پرستی اور ’’روشن خیالی‘‘کو تقویت دے سکے۔عرب قوم پرستی کا ایک تقاضا ترکوں کے اثرات سے نکلنا تھا۔جس طرح یورپ میں نیشن اسٹیٹ کے تصور نے فروغ حاصل کیا تھا بالکل اسی طرز پر مشرق وسطیٰ میں ترکوں کے اثرات کو زائل کرنے اورامت مسلمہ کو شعوب و قبائل میں بانٹنے کی حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے مغربی استعمار نے قومی عصبیتوں کو ابھارنے میں سر گرمی سے حصہ لیا۔
اس سلسلہ میں مغربی تعلیمی استعماریت تین جہتوں سے سرگرم عمل ہوئی اولاًایسے تعلیمی اداروں کا قیام جن کا مقصد مشنری جذبہ کے ساتھ عیسائیت کی اشاعت تھا۔اگرچہ یہ ادارے مسلمانوں کو عیسائی بنانے میں بالکل کامیاب نہیں ہوسکے لیکن اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے میں ان کا بڑا دخل رہا۔ دوسری جانب مغربی تعلیمی استعماریت نے مشرق وسطیٰ میںمستعمل نصاب تعلیم میں بنیادی تبدیلیاں کیںاور معاشرتی علوم میںمغربی مفکرین کی تالیفات کے عربی تراجم کو متعارف کرایا۔چنانچہ علم سیاست،معاشیات، عمرانیات،تاریخ،فلسفہ غرض تمام معاشرتی علوم کی تدریس میں مغربی مصادر پر انحصار سے جو ذہنی کیفیت پیداہوئی اسے معروف الجزائر ی مفکر مالک بن نبی Colonizibilityسے تعبیرکرتے ہیںاور اسے سیاسی غلامی سے زیادہ مہلک قرار دیتے ہیں۔ نتیجتاًجو نئی نسل عرب قوم پرستی اورمغربی لادینیت کے زیراثر اورخود اختیاری طور پرغلامانہ ذہنی مرعوبیت کے ساتھ پیدا ہوئی وہ چاہے اشرافیہ سے تعلق رکھتی ہو یا تجارت پیشہ طبقہ سے اُس نے مغربیت کو بطور معیار مطلوب اختیار کر لیا اور اب ہر وہ فکر اور ہر وہ چیز جس پر مغرب کی چھاپ تھی پسندیدہ قرار پائی۔
تعلیمی سامراجیت نے سیاست کاروں اور نوکر شاہی کے ایک ایسے طبقہ کو پیدا کیا جو مغربی سامراج سے دوستی اور نمک خوارا نہ تعلق کو اپنے لیے باعث افتخار سمجھتا اور اپنے ماضی کی تاریخ اور روایات کوباعث شرمندگی تصور کرتاتھا-مسلم تاریخ کے ان پہلوئوں کو جن میں شدت پسندی یا حصول اقتدار کے لیے خون خرابے کا تذکرہ تھانمایاںکر کے پیش کیا گیا ۔مسلم دانش وروں کے ایک اچھے خاصے طبقے نے اس فکری یلغار کا جواب معذرت خواہانہ انداز میں دینا چاہا ۔جن موضوعات پر خاص توجہ دی گئی ان میں خاتم النبیّن ﷺکی ذاتی زندگی،اسلام میں خواتین کا مقام و کردار ،تاریخ کے مختلف ادوار میں مسلمان فرمانروائوں کاحق حکمرانی (Legitimacy)،اسلام کی اشاعت میںتلوار کا کردار اور اسلامی تعلیمات کا یہودی و عیسائی روایات سے ماخوذہونا،قابل ذکر ہیں۔
تعلیمی سامراجیت کے نتیجے میں نوکر شاہی ،فو ج اور سیاست کاروں میں ایک بڑی تعداد ایسے افراد کی پیدا ہوئی جس نے اپنی ذاتی اور سیاسی زندگی میں اپنا قبلہ اوّل مغرب کو قرار دیا۔ چنانچہ فیصلہ کن مقامات پر پائے جانے والے ان افراد نے ہر معاملہ میں Look Westکی پالیسی کو اختیار کیا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مشرق وسطیٰ کا سیاسی نقشہ ہو یا اس کی معاشی حکمت عملی یا تعلیمی نظام ہر شعبہ میں مغرب کی پیروی کرنے کو ترقی کی علامت سمجھاگیا۔تعلیمی سامراجیت نے جو زاویہ نگاہ پیدا کیا اس کے حامل سیاست کار،معاشی ماہرین اوردانشور مشرقِ وسطیٰ میں مغربی سامراجی مفادات کے پشتی بان اورمحافظ قرارپائے چنانچہ مشرقِ وسطیٰ کے تیل کے ذخائر ہوں یا ان ممالک کی دفاعی حکمت عملی اوربین الاقوامی سیاسی پالیسی،ہر شعبہ میں فیصلہ کن عنصر مغرب کے مفاد کا تحفظ رہا۔مغرب زدہ محکومانہ ذہنیت رکھنے والے سیاست کاروں اورعرب قوم پرست دانشوروں کے اس ہجوم میں ہمیں ایسے افراد بھی نظر آتے ہیں جنہوں نے مغربی تعلیمی سامراجیت کے خلاف علم بلند کیا۔ان میں الجزائر کے معروف مفکر مالک بن نبی ،مصر میں حسن البنا شہید اورترکی میں علامہ سعید نورسی نمایاں مقام کے حامل ہیں۔
ان حضرات کی کوششوں کے نتیجہ میں مغرب میں نوجوان اہلِ علم و فن کا ایک ایسا طبقہ وجو دمیں آیا جس نے اپنی فکر کی بنیاد قرآن و سنت پر رکھی اورمغربی علوم سے آگاہی کے ساتھ ان پر علمی محاکمہ اور تنقیدی رویہ اختیار کیا۔ان مسلمان مفکرین میں فلسطینی نژاد امریکہ میں مقیم علومِ اسلامی کے استاد ڈاکٹر اسمٰعیل راجی الفاروقی نے نوجوان مسلمان محققین پر گہرے اثرات چھوڑے اورامریکہ میں قائم ہونے والی تنظیم ایسوسی ایشن آف مسلم سوشل سائنٹسٹس سے وابستہ پاکستانی، مصری، شامی، سوڈانی، ملیشین اور عراقی نژادمسلم مفکرین نے تعلیمی سامراجیت کے خلاف اپنے قلم کا استعمال کیا۔
مسلم دنیا میں خود انحصاری کا قیام صرف اسی وقت ممکن ہے جب مشرق وسطیٰ کے پالیسی ساز اپنے تعلیم یافتہ افراد کو مغربی تعلیمی سامراجیت سے گلوخلاصی کا موقع فراہم کریں۔ عالمگیریت کے نام پر ترقی پذیر ممالک میں جدید نو آبادیاتی نظام قائم کرنے کا عزم اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ یہ عالمگیریت معاشی بھی ہے اورسیاسی بھی اورتعلیمی و ابلاغی بھی،اس کا مقابلہ صرف اسی وقت کیا جاسکتاہے جب مشرق وسطیٰ اوردیگر مسلم ممالک تعلیمی سامراجیت سے ذہنی اورعملی طورپر آزاد ہوں اوراپنے مستقبل کا نقشہ اپنی ترجیحات کی روشنی میں مرتب کریں۔ دوسروں کی نقالی اوراخذ کردہ تعلیمی نظام اس مسئلہ کا حل نہیں ہے۔
ماخذ: مغرب اور اسلام، شمارہ 35، 2011 کا پہلا شمارہ، خصوصی اشاعت، مشرقِ وسطیٰ
نوعیت: جریدہ کا ابتدائیہ
جواب دیں