مشرق وسطیٰ چند اہم عوامل
عالمی سرمایہ داری،توانائی کی سیاست اور مشرقِ وسطیٰ
سوال: موجودہ عالمی معاشی بحران مشرقِ وسطیٰ میںتوانائی کی سیاست اوروہاں کے معاشی وسیاسی حالات پر کس طرح سے اثر انداز ہوسکتا ہے؟ موجودہ صورتِ حال میںاوپیک ممالک کا متوقع کردار یا اُن کے ممکنہ مطالبات کیا ہوسکتے ہیں؟
حالیہ معاشی اور مالیاتی بحران پر نظر ڈالی جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ بنیادی طورپر عالمیسرمایہ داری نظام کے اندرونی عوامل کی پیداوار ہے۔ اس کی تہہ میں اخلاقی مسائل، دولت کی فراوانی، حرص، استحصال اور سرمایہ کاروں، سٹے بازوں اور بنکاروں کے مٹھی بھر مگر مضبوط ٹولے کی گرفت میں رہنے اور اس سے متاثر ہونے والی معیشت جیسے عوامل کار فرما ہیں۔
عالمی کھلاڑیوں کے غلبے اور جدید سرمایہ دارانہ نظام میں حکومتوں کے خطرناک حد تک بڑھتے ہوئے کردار کی وجہ سے رفتہ رفتہ اس غبارے میں سے ہوا نکلنا شروع ہوگئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف تو حکومتوں کے کم از کم کردار پر بات کی جارہی ہے اور دوسری جانب سرمایہ داری نظام کو چلانے، اس کی ناکامیوںپرپردہ ڈالنے اور بد انتظامی کا شکار اس کے اہم اداروں کے نقصانات کی تلافی کے لیے حکومت ہی اصل مہرہ ہے۔ مشرقِ وسطیٰ اور مسلم ممالک جو کہ تیسری دُنیا کا۴۰فیصدحصّہ ہیں، اس نظام سے براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔ جہاں تک بالعموم مسلم دُنیا اور بالخصوص مشرقِ وسطیٰ کا تعلق ہے تو وہ کم از کم تین پہلوئوں سے آزمائش میں مبتلا ہیں۔
اوّلاً: گزشتہ کئی برسوں سے مسلم ممالک اور خاص طور پر تیل کی دولت سے مالا مال مشرقِ وسطیٰ کے ممالک بھاری سرمائے کے ساتھ یورپ اور امریکہ میں سرمایہ کاری کرتے رہے ہیں۔ ڈالر کی قدر میں مسلسل کمی نے مشرقِ وسطیٰ کے سرمایہ کاروں اور بچت کاروں کو اُن کی بچتوں اور سرمائے کے تقریباً ۴۰فیصدحصّے سے محروم کر دیا ہے۔ جب اسٹاک ایکسچینج میں ارزانی ہوتی ہے تو اس سے سب سے زیادہ متاثر وہ لوگ ہوتے ہیں جو مفروضوں کی بنیاد پر لین دین کرتے ہیں۔کچھ اندازوں کے مطابق مشرقِ وسطیٰ کے تقریباً ۳سے ۴ٹریلین (کھرب) ڈالر یورپی منڈیوں میں ہیں۔حالیہ رپورٹس کے مطابق گزشتہ۱۸ماہ میں کل نقصان۹کھرب ڈالر سے تجاوز کر چُکا ہے جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کے بیش قیمت اثاثوں کا ایک بڑا حصّہ بھی ضائع ہو چُکا ہے۔ مغربی طاقتیں، مشرقِ وسطیٰ کی قیادت اور طاقتور طبقہ اشرافیہ کو آلۂ کار بنا کر سیاسی حربے استعمال کرتی ہیں۔
نقصان کا دوسرا پہلو عالمی منڈیوں کے حجم میں کمی واقع ہونا ہے۔ اس سے تیسری دُنیا کے ممالک کی برآمدات میں کمی واقع ہورہی ہے۔ امریکہ دُنیا کی سب سے بڑی اور یورپ دُنیا کی دوسری بڑی منڈی ہے۔ اگر مارکیٹ کے حجم میں کمی واقع ہو تو اس کے اثرات یقینا منفی ہوں گے کیونکہ اس کی اصل بنیاد برآمدی سامان پر ہوتی ہے چنانچہ ایک عام آدمی ہی ہے جو سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔
تیسراپہلو، رئیل اسٹیٹ او راسٹاک ایکسچینج کے کاروبار سے متعلق ہے، دبئی کا حالیہ بحران اسی کا ذیلی نتیجہ ہے اور یہ تمام دُنیا کی معیشتوں، معاشی کھلاڑیوں، کاروباری حضرات، بینکاروں اور کھاتہ داروں کو براہِ راست متاثر کررہا ہے۔
اب ہم عالمی معاشی بحران اور انرجی کے ساتھ اس کے تعلق کی طرف آتے ہیں۔ دُنیا میں توانائی یعنی تیل اور گیس کے۷۰فیصدذخائر مُسلم دنیا میں ہیں اور مسلم دنیا میں بھی نہ صرف مشرقِ وسطیٰ بلکہ وسط ایشیائی ریاستوں میں بھی موجود ہیں۔ اس معاملے کا ایک انتہائی اہم پہلو یہ ہے کہ امریکہ عراق، افغانستان، وسط ایشیائی ریاستوں اور حتیٰ کہ پاکستان پر سیاسی تسلط کا ارادہ رکھتا ہے اور ان علاقوں سے اس کے معاشی مفادات بھی وابستہ ہیں اس مقصد کے لیے امریکہ اس امر کو یقینی بنانا چاہتا ہے کہ تیل کی پیداوار،تیل نکالنے کی مقدار اور تیل کی مصنوعات کو قابل استعمال بنانے کے کام پر اس کی مضبوط گرفت رہے۔مشرقِ وسطیٰ اور مُسلم دُنیا کا امریکہ، یورپ اور ان کی کثیر القومی کمپنیوں پر انحصار عالمی سرمایہ داری نظام کا جزوِ لانیفک ہے۔ اس کے علاوہ یہ سیاسی جنگوں، دبائو، حکومتوں کی تبدیلی، اپنی پسند کی گروہ بندی اوران کی شکست و ریخت-جو کہ مغرب کی انرجی پالیٹکس کا ایک بہت اہم حصّہ ہے-سے بھی عبارت ہے۔ بد قسمتی سے اس پرمستز ادیہ کہ اصل مفادات اور استحصال و بد نیتی پر مبنی مفادات باہم مربوط ہیں۔ جیسا کہ بجا طور پر کہا جاتا ہے کہ تیل کو پیا نہیں جاسکتا اس کو لازماً بیچنا ہی پڑتا ہے مگر اس ضمن میں بھی یہ سو الات جو اب طلب ہیںکہ اگر بیچنا ہے تو کن شرائط پر ؟ کتنی مقدار میں؟ کس شکل میں اور کس قیمت پر؟
۱۹۷۳ء میں عرب دنیا نے تیل کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا اور یہ بہت کار گر ثابت ہو ا مگر اس کے بعد مغرب نے اپنی دفاعی حکمت عملی کچھ اس طرح سے ترتیب دی کہ طاقت حاصل کرنے کا یہ ذریعہ غیر اہم ہو کر رہ گیا ہے اگرچہ مکمل طور پر غیر موثر نہیں ہوا۔ آج بڑی بدقسمتی مسلمان قیادت میں بصیرت اورہمت کی کمی اور تیل کے اس کار گر ہتھیار سے فائدہ اُٹھانے کی صلاحیت نہ ہونا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور مغربی دُنیا میں تیل اور توانائی سے متعلق لابی،فوجی، صنعتی اور کاروباری ادارے اپنادائوپیچ لگارہے ہیںان کے بینکار اور سرمایہ کار اس کھیل کے اصل کھلاڑی ہیں۔ موجودہ تناظر میں اسلامی دُنیا کی آزادی محض سطحی اورفریب نظر ہے۔ انہوں نے انتہائی عاجزی کے ساتھ خود کو عالمی سامراجی طاقتوں کا آلۂ کار بننے کی اجازت دے رکھی ہے۔ اگرچہ صرف تیل کا مسئلہ ہی توجہ کا متقاضی نہیں ہے۔ سیاسی عوامل خاص طور پر اسرائیل کا مسئلہ بہت اہمیت کا حامل ہے لیکن توانائی کا عامل، پھر بھی، اہم ترین عوامل میں سے ایک ہے خواہ یہ۱۹۹۰ء کے ادائل میں بُش سینئر کی جنگ ہو یا۱۱/۹کے بعد بُش جونیئر کی__جس جلد بازی سے انہوں نے عراق پر حملہ کیا جو کہ ان کے اپنے دفاعی تجزیہ کا روں کے الفاظ میں ’’نہایت نا مناسب سرعت‘‘ تھی اور جس کے لیے انہوں نے ’بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں‘ (WMD) کی گھنائونی اصطلاح استعمال کی،اور جس جنگ نے افغان جنگ سے توجہ ہٹا دی، یقینا توانائی کا پہلو ہی اس جنگ کا اہم ترین سبب تھا۔ اب وہا ں سے نام نہاد انخلا کی حکمت عملی بھی مستقبل میں انرجی کنٹرول کے انتظامات کے ساتھ ہی تشکیل پا رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں عراق میں جو بولیاں ہوچکی ہیں یا جو بولیاں ہورہی ہیں، اسی کھیل کا ایک حصّہ ہیں۔ توانائی،نہ صرف معاشی بلکہ ایک اہم سیاسی ایشو بن چکا ہے۔ جب تک ایک سیاسی حکمتِ عملی مرتب نہیں کی جاتی، مشرقِ وسطیٰ اور وسطی ایشیاکے ممالک اپنے اثاثوں کی صیحح قیمت وصول نہیں کرسکتے۔
جہاں تک اوپیک ممالک کے متوقع کردار کا تعلق ہے تو غالباً اوپیک ممالک اپنا اثرو نفوذ کھو چکے ہیں۔ ۱۹۸۰ء کی دہائی تک یہ ایک قوت تھے۔تیل کی اس تجارت میں غیر عرب اور غیر مسلم خاص طور پر لاطینی امریکہ، افریقہ اور نائیجریا کی شمولیت کے بعد سے اوپیک ممالک کا کردار کم ہونا شروع ہوا۔ ان کے پاس ایک مربوط حکمت عملی کی بھی کمی تھی۔ مشرقِ وسطیٰ میں زیر زمین پایا جانے والا ایک بیرل تیل، پائپ لائن میں موجود ایک بیرل تیل سے زیادہ قابلِ قدر گردانا جاتا ہے لیکن وہاں کی قیادت اس بنیادی حقیقت کا ادراک کرنے سے قاصر ہے۔ انہیں عالمی، معاشی و سیاسی ٹھیکیداروں نے مختلف حیلوں بہانوںکے ذریعے اور ڈرا دھمکا کر مجبور کیا ہوا ہے کہ وہ انکی مرضی کے مطابق تیل کی پیداوار جاری رکھیں۔ اس بات کو تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں ہے کہ مغرب نے اپنی حکمت عملی معاشی اور سیاسی پہلوئوں کو سامنے رکھتے ہوئے زیادہ بہتر فہم و فراست کے ساتھ ترتیب دی ہے۔ مثال کے طور پر امریکہ نے تیل کی درآمد کو کئی جہتوں میں منقسم کر دیا ہے اور اس طرح مشرقِ وسطیٰ پر اس کا انحصار ۲۰فیصد کی حد تک کم ہو کر رہ گیا ہے جو کہ کبھی۶۰فیصدتھا۔ امریکہ کے تیل کے محفوظ ذخائر پہلے ۱۵دن کی مدت کے لیے کارآمد تھے پھر یہ مدت ۳۰دن ہوگئی بعد میں اس میں تین ماہ تک کا اضافہ ہوا اور اب کہا جاتاہے کہ توانائی کی محفوظ مقدار۱۲۰ دنوں یعنی۴ماہ کے لیے موجود ہے۔
چنانچہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر کوئی ملک تیل کا ہتھیار استعمال کرنا بھی چاہے تو یہ ان کے حفاظتی اقدامات کی وجہ سے بہت کار گر نہ ہوگا۔
کیونکہ پیداوار میں اضافہ سے مشرقِ وسطیٰ کے ممالک نہ صرف مغرب کی روزمرہ ضروریات کو پورا کرتے ہیں بلکہ ان کے تیل کے محفوظ ذخائر میں بھی اضافہ کرتے ہیں۔ اس امر نے اوپیک کے کردار اور اس کی قوت میں کمی کر دی ہے۔ پھر اوپیک ممالک کے مابین پیداوار کے معاملے میں تقسیم در تقسیم کا مسئلہ درپیش ہے اور ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جہاں چند ممالک نے پیداوار میںکمی کا فیصلہ کیا جبکہ ایک بڑے مُلک کا فیصلہ اس کے برعکس رہا۔ یہ کھیل اسی طرح چلتا رہا اور اب اوپیک ممالک فیصلہ کُن کردار سے محروم ہوچکے ہیں۔ یہ انتہائی خطرناک صورتحال ہے اور مجھے نہایت افسوس سے یہ کہنا پڑرہا ہے کہ مسلمان اور عرب قیادتیں یا تو اس امر سے بے خبر ہیں یا اپنے مخصوص مفادات کی وجہ سے مغرب کے معاشی اور سیاسی رہنمائوں کے ساتھ باہم شیر و شکر ہیں اور اس طرح برضاو رغبت اپنا استحصال کروا رہی ہیں۔ تاہم اس بحران سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ آخر کار یہ صورتحال عرب اور اسلامی دُنیا کے عوام اور قائدین کی آنکھیںکھول دے گی اور انہیں اس حقیقت کا ادراک ہو جائے گا کہ بقاکابا وفارراستہ خود انحصاری کی جانب جاتا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ اور مُسلم دنیا میں پیداواری، صنعتی بنیاد کے بغیر اور مطلوبہ ماہر افرادی قوت کو تیار کیے بغیر ہر جگہ صارف کی معیشت ہے۔ یہ وہ خامیاں ہیں جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں ایک انتہائی اہم قدم یہ ہے کہ معیشت کو رفتہ رفتہ اور جزوی طور پر عالمی نظام سے غیر منسلک کیا جائے۔ یہ انقطاع جزوی طور پر ہونا چاہیے کیونکہ اس نظام سے بہر حال مکمل طور پر غیر منسلک نہیں رہا جاسکتا۔ برآمدات، سرمایہ کاری، پیسے کی گردش، افراد، سامان اور سرمایہ کاری کے بہائو جیسی اہم سرگرمیوں کو بلاتعطّل جاری رہنا چاہیے۔ جس چیز کو موثر طور پر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے وہ دوسروں پر انحصار کی بنیاد پر معاملات ہیں۔ اس کی بجائے ایسے خود مختار تعلقات قائم کرنے چاہیں جہاں مسلم دُنیا اپنی ترجیحات کا ازسرِ نو تعیّن کرے اور اپنے مفادات کومدسِّ نـظر رکھتے ہوئے اپنے وسائل کو دوبارہ منظم کرے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ امر بھی پیشِ نظر رہے کہ موقع کا برمحل استعمال کیا جائے نیز یہ حقیقت بھی سامنے رہنی چاہیے کہ گزشتہ برسوں میں اس کو تباہی کی کتنی قیمت چُکانا پڑی ہے۔
جہاں تک عالمی معیشت سے جزوی طور پر غیر منسلک ہونے کا تعلق ہے۔ مشرقِ وسطیٰ اور مُسلم دنیا کو مندرجہ ذیل اہم اُمورپر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
تعلیم،ٹیکنالوجی کا حصول اورغذائی تحفظ کی بڑھوتری کی حکمتِ عملی اورصنعت و ٹیکنالوجی کی پیداواری بنیاد میں بتدریج اضافہ جو خود انحصاری کا باعث ہو۔
اگر وہ اس میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو کچھ ہی عرصے میں وہ اس قابل ہوسکیں گے کہ اپنی پالیسیاں اور اپنے فیصلے خود ترتیب دے سکیں ۔ مزید برآ ں خود انحصاری اور خود مکتفیت کو دو الگ الگ پہلوئوں کے طور پر لیا جانا چاہیے۔ خود کفالت کو حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ جو چیز قابل حصول ہے وہ ہے خود انحصاری ۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی خطے کا کوئی مُلک دوسروں پر اس حد تک منحصر نہ ہو کہ ان کی معاشی اور سیاسی ترجیحات ان پر مسلط کی جاسکیں اور وہ اپنی ترجیحات کا تحفظ کرنے اور انہیں بُروئے کار لانے سے معذور ہوجائے۔ یہ وہ چیز ہے جسے حقیقی مقصد ہونا چاہیے اور یہی وہ طریقہ کار ہے جو یورپ اور چین نے امریکہ کے بالمقابل اختیار کیا ہے۔ مُسلم دُنیا، مجموعی طور پر ، اس سے کہیں زیادہ وسائل سے مالا مال ہے۔جس چیز کی کمی ہے وہ قوت ارادی اور باہم مربوط حکمت عملی کا نہ ہونا ہے۔ تاہم جب جزوی طور پر غیر منسلک ہونے کی بات کی جاتی ہے تو مذکورہ بالا تمام پہلوئوں کو پیش نظر رکھنا چاہیے، یعنی:
(۱) اندرون مُلک معاشی، صنعتی اور پیداواری بنیاد میں ترقی
(۲) غذا میں خود کفالت __غذائی تحفظ جس کا اہم ترین عنصر ہے
(۳) مقامی پیداوار کو مستقل بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے مقامی منڈیوں کو فروغ دینا
مندرجہ بالاحکمتِ عملی یقینی طور پر بارآور ہوگی جس کے نتیجے کے طور پر مغرب پر اسلامی دُنیا کا انحصار تیزی سے کم ہوگا۔ رُوس کی مثال ہمارے سامنے ہے جس نے دیوار برلن گرنے کے بعد کے عرصے میں سرمایہ داری کی مداخلت کے مقابلہ میںاندھا دھند اور زبردست کیپٹلائزیشن کے ذریعے بند باندھے رکھا۔ ایک پہلو جس نے بھرپور معاشی یورش کے مقابلے میں رُوس کو باقی رہنے میں مدد دی ، وہ غیر رسمی معیشت کے وسیع اور محفوظ اثاثہ جات تھے جو کہ عالمی تجارت پر منحصر نہیں تھے۔ آج ہمارے سامنے اُبھرتی ہوئی طاقت چین کی تابناک مثال موجود ہے اس نے بھی ایک وسیع اور اندرونی منڈی کی وجہ سے بھر پور ترقی کی۔ پھر دُنیا بھر اور امریکہ کی منڈیوں تک براہ راست رسائی کے لیے ملک میں صنعت کاری اور ٹیکنالوجی کی درآمد کا سلسلہ شروع کیا۔ مُسلم دنیا کو بھی ایسی ہی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ یہ راتوں رات ہونے والا کام نہیں ہے اس کے لیے وقت درکار ہے اس مقصد کے لیے انتہائی احتیاط سے کام لینا اور تبدیلی کی اس سمت قدم اُٹھانا ہوگا۔
اس امر کا تذکرہ بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ ۱۹۷۳ء کے بعد سے اسلامی دُنیا نے کس طرح قوت و اقتدار حاصل کرنے کے ذریعے سے ہاتھ دھوئے۔ ہنری کسنجر، جو کہ سیکرٹری آف اسٹیٹ اور صدر نکس کا دفاعی مشیر تھا اس نے ایک غیر معمولی حکمت عملی __جسے ری سائیکلنگ کا نام دیا گیا __ کی تیاری میں مرکزی کردار ادا کیا۔ کسنجر کا فلسفہ مغربی ذہنیت کا عکاس تھا جس نے مغرب کو یہ باور کرایا کہ وہ اسلامی دُنیا خاص طور پر مشرق وسطیٰ کو تیل کی مد میں ایک بڑی قیمت کی صورت میں ادائیگی کر رہا ہے اور اگر وہ ان ڈالروں کو دوبارہ حاصل کرسکے تو یہی مغرب در حقیقت فائدہ اُٹھا سکے گا۔ اس عمل کو ری سائیکلنگ کا نام دیا گیا۔ اس طرح اسلامی دُنیا کی برتر حیثیت ختم ہو کر رہ گئی اور اس سے مغرب پر انحصار کا نیا راستہ کُھل گیا۔ کیونکہ مُسلم دنیا نے توانائی کے لامحدود ذرائع کو اپنی پیداواری بنیاد کو ترقی دینے کی بجائے حقیقتاً امریکہ اور مغرب کے حوالے کر دیا اور اس ذریعے سے حاصل ہونے والی آمدنی کو مغرب نے سرمایہ کاری، تحدید نقصان اور رقم مہیا کرنے کی صورت میں سٹے بازی اور سرمایہ کاری کے اداروں کی شکل میں استعمال کیا جو کہ سب کے سب مغرب کے زیر انتظام اور اس کے مکمل اختیار میں تھے، اس طرح عرب اور اسلامی دُنیا نے طاقت حاصل کرنے کا ایک اہم ذریعہ کھودیا۔
مسلم ممالک عموماً اور عرب دُنیا خصوصاً اس امر کا ادراک کرنے سے قاصر رہی کہ دولت کے اِس بہائو کو اسراف، ضیاع اور کھوکھلے دکھاوے پر مبنی طرزِ زندگی کو فروغ دینے کی بجائے اپنی معیشت کی صلاحیتوں کو نکھارنے کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا تھا۔ ایسا طرزِ زندگی صرف ان لوگوں کے لیے موزوں تھا جو مغرب پر انحصار کیے رکھیں اور ان کے مطالبات پورے کرتے رہیں۔ عرب دُنیا تیل سے حاصل ہونے والی آمدنی کی رسیا ہوگئی۔ اس آمدنی کو اقتصادی شعبے اور مستقبل کے مواقع کی فوری منصوبہ بندی کے لیے استعمال کرنے کی بجائے عرب لوگ پُر آسائش اور تصنع سے بھرپُور طرزِ زندگی کے عادی ہوگئے اور یہ غلط اور انتہائی تباہ کن حکمتِ عملی تھی۔
تیل کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا ایک بابصیرت اور حوصلہ مند قیادت پر منحصر ہوتا ہے، ایک ایسی قیادت جو کہ خود غرضانہ ذاتی مفادات کی بجائے، لوگوں کے مفادات میں دلچسپی رکھتی ہو۔ یہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ شاہ فیصل مرحوم کے بعد عرب دُنیا کو دوبارہ ویسا مد بر اور حوصلہ مند قائد میسّر نہیں آیا۔ قذافی نے ابتدا میں مزاحمت کی کچھ کوشش کی لیکن پھر امریکی دبائو کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ہتھیار ڈالنے کا یہ عمل عرب دُنیا کے لیے کسی عظیم المیے سے کم نہ تھا اور آج حالت یہ ہوچکی ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کی ساری کی ساری قیادت مغرب اور اس کے کارندوں کے ہاتھوں انکی آلۂ کار بنی ہوئی ہے۔ مغربی کارندے اسلحہ استعمال نہیں کرتے کیونکہ ان کا کام تھپکی دیتے رہنا اور پھر اپنی شرائط تسلیم کروا کے ہتھیار ڈالوانا ہے۔ یہ اسی وجہ سے ہوا ہے کہ اسلامی دُنیا خود انحصاری کی باعزت حکمتِ عملی کی بجائے، مغرب پر انحصار اور ان کے مفادات کی بجا آوری کے تباہ کن رویے پر گامزن ہوگئی۔ جب تک ایک بنیادی سیاسی تبدیلی نہیں آتی، عرب اور اسلامی دُنیااپنی طاقت استعمال نہیں کرسکتی،خواہ یہ سیاسی ہو یا توانائی کے ذریعے سے حاصل شُدہ۔
سوال: مغرب میں مسلمان دشمن اقدامات، اسلامی دُنیا اور مغرب کے تعلقات کو کس طرح تشکیل دیں گے؟ اور مستقبل میں سیاسی اور دفاعی تناظر میں، علاقائی اور بین الاقوامی سطحوں پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
مغربی ممالک کے عوام اور اسلامی دُنیا کے عوام کے مابین بنیادی اور مستقل نوعیت کے مفادات کا ٹکرائو نہیں ہے۔یہ مغرب کے حکمران اور طبقہ خواص ہیں جو اپنے چند مخصوص مفادات کے لیے تصادم چاہتے ہیں۔امریکہ میں آج بھی۱۴فیصدسے زیادہ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ کیلی فورنیا جو کہ امریکہ کی سب سے بڑی اور امیر ترین ریاست اور دُنیا کی ساتویں بڑی معیشت ہے، وہاں غربت کی شرح۳۰فیصدسے زائد ہے۔ آبادی کا تقریباً ۲۵فیصد حصّہ صحت کی سہولیات سے محروم ہے۔ اگر کہیں مفادات کا ٹکرائو ہے بھی تو وہ دونوں طرف اسلامی دُنیا اور مغرب کے حکمران اور طبقہ خواص کی وجہ سے ہے۔
تاریخی اعتبار سے بھی اہلِ مغرب اسلام سے نفسیاتی خوف یااسلام فوبیا کا شکار رہے ہیں اگرچہ صلیبی جنگوں نے اپنا رنگ ڈھنگ اور شدّت تبدیل کرلی ہے لیکن درحقیقت یہ ابھی جاری ہیں اور یہ ماضی قریب کی دو اہم پیش رفتوں سے واضح ہوتا ہے۔
اول،۱۹۷۹ء میں ایران میں بپاہونیوالا اسلامی انقلاب- اور
دوم، افغانستان میں روسی مداخلت کے خلاف اسلامی مزاحمت-
اگرچہ افغانستان میں کچھ عرصے کے لیے مفادات مشترکہ تھے لیکن یہ اشتراک عارضی اور انتہائی سطحی تھا۔ جس وقت امریکہ افغان جہاد کی سرپرستی کر رہا تھا اس وقت وہ ساتھ ساتھ دفاعی اعتبار سے نئی سیاسی گروہ بندی کی منصوبہ سازی بھی کر رہا تھا۔۸۴/۱۹۸۳ء میںجبکہ افغان جنگ اپنے پورے عروج پر تھی، صدر نکسن کے ایک اہم مضمون (جوکہ فارن افیئرزمیں شائع ہوا) میں اس خیال کو پیش کیا گیا کہ روس اور امریکہ کے مابین اختلافات کی نسبت اقدارِ مشترک زیادہ ہیں۔
تہذیبوں کے تصادم کا نظریہ۱۹۷۰ء کی دہائی کے اوائل میںظاہر ہوا۔ برنارڈلیوس وہ پہلا شخص تھا جس نے اس کے متعلق لکھا اور بعد میں ہنٹنگٹن نے اس نظریے کو تقویت دی۔ مزید برآں جب رُوسی افواج افغانستان سے چلی گئیں تو نیٹو کے سیکرٹری جنرل نے برملا یہ کہا کہ سُرخ خطرہ (کمیونزم) جاچُکا ہے لیکن سبز خطرہ (اسلام) اُبھر آیا ہے۔ لہذا یہ محض ۱۱/۹کا واقعہ نہیں ہے بات تو بہت دُور تک جاتی ہے۔ اس نقطئہ نظر کے لحاظ سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ اسلامی دُنیا اور مغرب، دونوں کا طبقہ خواص ہے جنہوں نے اپنے چند مخصوص اور بے رحمانہ خود غرض مفادات کے حصول کے لیے اپنا اپنا کھیل کھیلا ہے اور عرب اور مسلمان آبادی اس کا شکار ہوئی ہے۔
یہ وہ تہذیبی اور نظریاتی شورش اور امریکہ اور مغرب کی سیاسی تغلّب کی ذہنیت ہے جس نے اسلامی دنیا میں انتہا پسندی اور پُر تشدد رویّے کے کینسرکو جنم دیا۔محبت کا جواب محبت سے اور نفرت کا نفرت ہی سے دیا جاتا ہے۔مسلم دنیا کے کچھ حصوں میں نام نہاد دہشت گردی -امریکہ ،اسکے اتحادیوں اوراسکی ناجائز اولاد اسرائیل کی جانب سے شروع کی گئی دہشت گردی اوردہشت گردی کے خلاد جنگ کے ایک ردِّعمل کے سواکچھ نہیں۔مسلمانوں کو،موجودہ تناظر کو گہرائی سے پرکھنا ہوگا۔ ان کی حکمتِ علمی محض ردِّ عمل پر مبنی نہیں ہونی چاہیے؟ اورانہیں محض محاذ آرائی سے بھی گریز کرناچاہیے۔انہیں پیش قدمی پر مبنی ایسی جوابی حکمتِ عملی اپنانے کی ضرورت ہے جس سے مغر ب کے اسلام فوبیا پر قابو پایا جاسکے۔ ایک ایسی حکمتِ عملی جو اہل مغر ب کو اسلام کی صحیح قدروقیمت سکھائے اورانہیں یہ بتائے کہ مسلمان بطور قوم عظیم اقدار کے امین ہیں اورقرآن کی تعلیمات کے مطابق انسانیت کی خدمت کے لیے پُر عزم ہیں۔
یہ جوابی حکمتِ عملی ان کے جال میں پھنسنے کے لیے نہیں ہونی چاہیے بلکہ سماجی، ثقافتی ،سیاسی اورمعاشی بنیادوں پر مستقبل کے حوالے سے اپنے نقطۂ نظر کو مرتب کرناچاہیے۔مزید یہ کہ عرب اوراسلامی دُنیا کے اپنے تصورات ،ترجیحات اورمقاصد ہونے چاہئیں۔اپنے گھر کا قبلہ درست کیے بغیر وہ کامیاب نہیں ہوسکتے۔
تشدّد کاجواب تشدّد سے ،دھمکی کادھمکی سے اورگالی کاجواب گالی سے دینا مسئلے کاحل نہیں ہے۔مسلمانوں کو ایک طویل المعیادمنصوبۂ عمل کی ضرورت ہوگی جو کہ مستقبل کے حوالے سے حقیقی اورواضح تصورات پر مبنی ہو۔ایسی جوابی حکمتِ عملی بنانا جو کہ مغرب کے عوام کو اپنا دشمن سمجھے، خلافِ منشا ہوگا۔ہمیں خوب سوچ بچار کرکے ایسی حکمتِ عملی بنانے کی ضرورت ہے جو مغرب کے عوام کے ساتھ دوستی کا آغاز کرے اورانہیں یہ دوستانہ پیغام بھی پہنچائے ۔تاہم ہمیں ان گروہوں سے جن کے مفادات مغرب سے وابستہ ہیں اورمُسلم دُنیا کے غداروں سے فاصلہ رکھنا ہوگا۔عرب اوراسلامی دُنیا کو ان لوگوں سے چھٹکارا حاصل کرناہوگا جو کہ یاتو بزعم خود خلوص کے ساتھ یا مسلمان دشمن قوتوں کے آلۂ کارکے طور پر اسلام کو غلط طورپر استعمال کررہے ہیں۔اسلامی دُنیا اورمغرب کے مابین کشمکش ،تصادم اورجنگی فضا کو ہی واحد راستہ متصور کرنا مناسب نہ ہوگا۔مسلمانوں کو کہیں زیادہ سنجیدگی سے سوچنے، تحقیق،تجزیے،بات چیت اورایک ایسی انقلابی قیادت کی ضرورت ہے جو کہ مغرب کی کٹھ پُتلی نہ ہوبلکہ اپنے لوگوں پر اعتماد کرے۔ایسی قیادت جو اسلامی طرزِ عمل کوفروغ دے اوراسے پروان چڑھائے۔ پھر وہ (مسلم دنیا) یقینا وقار،مساوات اورعزت اورایک ایسے نقطۂ نظر کے ساتھ زندگی گزارنے کے قابل ہوسکیںگے جہاں اشتراک اورمشترکہ مفادات کو تصادم اورکشمکش پر فوقیت حاصل ہوگی۔
(ترجمہ: منزہ صدیقی)
جواب دیں