مشرق وسطیٰ چند اہم عوامل
امریکی خارجہ پالیسی اور مشرقِ وسطیٰ
سوال: امریکہ کے قومی مفادات، خاص طور پر مشرقِ وسطیٰ میں، کیا ہیں اور انہیں درپیش متوقع یا حقیقی خطرات کون سے ہیں؟
مشرق ِ وسطیٰ میں امریکی مفادات، حقیقتاً ’قومی مفادات‘ نہیں ہیں۔ تیل کی کمپنیوں کی ایک مختصر تعداد، وال اسٹریٹ بینکوں، سیاسی انتظامیہ اور بھاری تنخواہیں وصول کرنے والے ان کے کارندوں کے مفادات اور مُلک کی بیشتر آبادی پر مشتمل تمام نسلوں، رنگوں اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے ملازمت پیشہ طبقے کے مفادات یکساں نہیں ہیں۔ کم و بیش دنیا کے تمام ممالک دو طبقوں پر مشتمل ہوتے ہیں ایک بالائی طبقہ یا اشرافیہ جو زیادہ تر دولت اور سیاسی اثرونفوذ رکھتا ہے اور دوسرا زیریں طبقہ جو ان میں سے کسی کا بھی مالک نہیں ہوتا۔ کسی مُلک کے ’قومی مفادات‘ نہیں ہوتے۔ دراصل حکمران طبقہ اپنے مخصوص مفادات کو قومی مفادات کے رُوپ میں پیش کرتا ہے۔
امریکی حکمران طبقے کے مشرقِ وسطیٰ میں واضح مفادات ہیں جن کے حصول کے لیے وہ تقریباً ایک صدی سے مسلسل کوشاں ہیں۔ ان مفادات کو ’سامراجی مفادات‘ کے نام سے موسوم کیا جاسکتا ہے۔ جنہوں نے ہمیشہ اس خطے کے توانائی کے ذرائع یعنی تیل، گیس، پائپ لائن اور عالمی منڈیوں سے ملانے والے سمندری راستوں پر کنٹرول کے لیے جغرافیائی تذویراتی مفادات کے حصول کی کوششوں پر زور دیا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد، مشرقِ وسطیٰ میں، امریکہ نے ایک غالب سامراجی طاقت کے طور پر برطانیہ کو پیچھے چھوڑ دیا۔ اسکے مفادات تین باہم مربوط مقاصد پر مشتمل ہیں۔
(۱). اس خطے کے تیل اور گیس کے ذخائر پر قبضہ حاصل کرنا۔
(۲). جہاں تک ممکن ہوسکے خطے کی حکومتوں خاص طور پر اسرائیل، سعودی عرب، عراق، ایران، مصر اور پاکستان کی حکومتوں کو قابو میں رکھنا۔
(۳). ایسی تمام تحریکوں کے احیاء کا راستہ روکنا__خواہ وہ اشتراکیت پسند ہوں، سوشلسٹ ہوں، قومیت پرست ہوں یا مذہبی __جو کہ خطے میں توانائی کے ذخائر پر قبضے اور اسکی طفیلی حکومتوں کے استحکام میں امریکہ کے لیے خطرہ بن سکتی ہوں۔
جب یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ منافقت پر مبنی بلند و بالا دعوے عوام کو دھوکا دینے کے لیے ہیں تو اس امر کو جاننا بھی مشکل نہیں رہے گا کہ۲۰ویں صدی کے پہلے نصف میں جس چیز نے دو خوفناک جنگوں کو جنم دیا وہ سرمایہ داری مفادات کے حصول کے لیے ذرائع، سستی مزدوری، منڈیوں تک رسائی اور جغرافیائی بر تری حاصل کرنے کا سخت مقابلہ تھا۔
امریکہ اپنے تیزی سے وقوع پذیر ہوتے ہوئے زوال کو روکنے کے لیے کوشاں ہے جبکہ نئی اُبھرتی ہوئی طاقتیں خاص طور پر چین امریکہ کو للکار رہا ہے۔
گزشتہ کئی برسوں کے دوران برازیلین صحافی Pepe Escober __جو کہ ’ ایشیاٹائمز آن لائن‘ میں باقاعدگی سے لکھتے ہیں__نے تیل کے معاملے پر عالمگیر جنگوں سے متعلق انتہائی معلوماتی مضامین اور کتب شائع کی ہیں اور اس کے لیے انہوں نے انتہائی علمیت اور حسِ مزاح کا ثبوت دیتے ہوئے ’’پائپ لائنستان‘‘ (Pipelinestan)کی اصطلاع استعمال کی ہے اور اِسے مشرقِ وسطیٰ اور وسط ایشیا پر قبضے کی دوڑ کہا ہے۔بڑی طاقتوں کے مابین اس مقابلے میں اچھے لوگ نہیں ہیں۔ یہ سب اپنے مادی مفادات کے لیے لڑتے ہیں اور اس مقصد کے لیے لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے سے نہیں ہچکچاتے۔
۱۹۷۹ء کے اوائل میں امریکہ نے سعودی، پاکستانی اور اپنے دوسرے اتحادیوں کے ساتھ مل کر اپنی بین الاقوامی ذاتی فوج تیار کی تاکہ وہ افغانستان میں مداخلت کرے اور اسے تباہ و برباد کرکے رکھ دے۔ دراصل یہ وسطی اور جنوبی ایشیا میں توانائی کے ذرائع اور تیل کی ترسیل کے اہم اور اصل راستوں پر قبضہ کرنے کی جنگی حکمتِ عملی تھی۔ تقریباً دو عشروں سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد۱۱/۹کے دہشت گرد حملے امریکہ کی اس دفاعی حکمت عملی کے منہ پر طمانچہ تھے جس کے تحت اس نے روس کی حمایت یافتہ ترقی پسندافغان حکومت کے خلاف سیاسی اسلام کی انتہائی شکل کی نہ صرف حوصلہ افزائی کی بلکہ اُسے کھلا چھوڑے رکھا۔
امریکہ جس کا فوجی اسلحے کا ذخیرہ دُنیا کے دیگر تمام ممالک کے مشترکہ اسلحے سے زیادہ ہے اور جو اسلحہ جات پر سب سے زیادہ خرچ کرتا ہے اور دُنیا کی دوسری تمام اقوام کی مشترک مقدار سے زیادہ اسلحہ فروخت کرتا ہے۔ اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ دہشت گردی کررہا ہے اور اس کا سب سے بڑاسرپرست ہے۔ یہ دہشت گردی کے خلاف اس وقت تک جنگ جاری نہیں رکھ سکتا جب تک یہ خود اپنے خلاف جنگ شروع نہ کرے۔ تاہم ریاستی اور غیر ریاستی دہشت گردی کے وجود سے انکار نہیں کیا جاسکتا جو کہ امریکی اثر سے بالکل آزاد ہے اور بعض اوقات امریکہ کے خلاف بھی استعمال ہوتی ہے۔
دہشت گردی ایک ایسا ہتھیار ہے جو سامراجی طاقتیں ایک عرصے سے ابتداً نو آبادیات میں مقبوضہ اور محکوم عوام کے خلاف اور پھر ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرتی رہی ہیں۔ سرد جنگ کے خاتمے کا دور اپنے ساتھ ان چیلنجز کا خاتمہ بھی لایا جو امریکہ کے سامراجی مفادات کو سوویت بلاک اور مشرقِ وسطیٰ میں اس کے حمایت یافتہ اشتراکی اور قومیت پسند تحریکوں سے وابستہ تھے۔ پُورے مشرقِ وسطیٰ میں بائیں بازو کی لادین طاقتیں اپنی طاقت اور اثرو نفوذ کھو بیٹھیں۔ اس چیز نے امریکہ کو تھوڑا سا موقع فراہم کیا کہ وہ روس کی کسی مخالفت کے بغیر عراق کے خلاف پہلی خلیجی جنگ شروع کردے۔ تاہم جلد ہی مشرقِ وسطیٰ پر امریکی غلبے کے خلاف نئی طاقتیں اُبھر آئیں۔ جونہی امریکہ نے اِس خطے میں تیل کے ذخائر اور حکومتوں کو زیادہ بہتر طور پر اپنے زیر اثر لانے کے لیے یہاں اپنی فوجی موجودگی کو وسعت دینا چاہی تو یورپی یونین کی ریاستوں، روس اور چین نے امریکہ کو دُنیا کی اُبھرتی ہوئی واحد عالمی طاقت کے طور پر دیکھنا شروع کیا جو کہ ان کے اپنے مفادات کے خلاف تھا چنانچہ انہوں نے اس خطے میں امریکی پالیسیوں کو چیلنج کیا ۔ مثال کے طور پر چین اور روس کی مدد نے ایران کو اس قابل بنایا کہ وہ اُس راستے پر چل نکلے جو امریکی مفادات کے خلاف ہے اور ایران نے لبنان میں حزب اﷲ اور فلسطین میں حماس جیسے گروہوں کی معاونت کی جنہوںنے امریکہ کی حمایت یافتہ اسرائیلی حکومت اور لبنان میں اسکے اتحادیوں کے خلاف مزاحمت شروع کردی۔
سوال: قومی، علاقائی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کا کیا کردار ہے اور امریکہ اپنی خارجہ پالیسی کو فروغ دینے کے لیے اس پر کیوں خرچ کررہا ہے؟
امریکہ میں تمام ذرائع ابلاغ متفقہ طور پر، پورے اخلاص کے ساتھ، حکومتی پالیسیوں کے مقاصد کے حصول کے لیے کام کرتے ہیں اور مسلسل اس بات کے لیے کوشاں ہیں کہ امریکی عوام کا ایک بڑا حصّہ درست معلومات تک رسائی اور اُن کی حکومت جو کچھ مشرقِ وسطیٰ اور باقی دُنیا میں کر رہی ہے اسکی صیحح نوعیت جاننے سے محروم رہے۔ اگرچہ میڈیا کے ایک بڑے حصّے نے ’’اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چُگ گئیں کھیت‘‘ کے مصداق بعد ازاں اس امر کا اعتراف کیا کہ۲۰۰۳ء میں عراق میں امریکی مداخلت کے وقت انہوں نے جارج بش کی جھوٹ بولنے میں مدد کی۔ یہی میڈیا امریکی حکومت کو مسلسل یہی خدمات فراہم کر رہا ہے وہ خود کا رپوریٹ انتظامیہ کا حصّہ ہے اور اپنی پالیسیاں نہیں بدلے گا۔
مثال کے طور پر انہوں نے اسرائیل کی طرف سے غزہ کی ناکہ بندی کے مجرمانہ فعل اور حالیہ دنوں میں مصر کی طرف سے مصر اور غزہ کی سرحد پر لوہے کی دیوار تعمیر کرنے کے لیے امریکی امداد پر اس کی حمایت کو جاری رکھا ہوا ہے۔ جنگ سے متعلق خبریں دیتے وقت وہ انرجی مقاصد کے حصول سے متعلق معلومات تک کبھی رسائی فراہم نہیں کرتے جو کہ افغانستان میں امریکی جنگ کا اصل محرک ہے۔
ہیٹی میں آنیوالے خوفناک زلزلے تک ذرائع ابلاغ نے تقریباً ایک صدی پر محیط امریکی سامراجی غلبے اور استحصال کو عام لوگوں سے مخفی رکھا۔ وہ حال ہی میں بنائے جانے والے معاشی بحالی کے منصوبوں اور ہیٹی کے دو منتخب حکمرانوں کا تختہ اُلٹنے کی سازش کا ذکر نہیں کرتے وہ لوگوں کو یہ بات باور نہیں کراتے کہ ۱۱/۹سے پہلے امریکہ نے ہزاروں ہیٹی مہاجرین کا راستہ روک کر انہیں کئی سالوں تک گوانتا نامو میں قید رکھا۔ وہ غلط طور پر ہیٹی باشندوں کو انتہائی پر تشدد بنا کر پیش کرتے ہیں تاکہ جان بچانے والی امداد پر ملٹری سیکورٹی کو مقدم رکھنے کی توجیہہ پیش کی جاسکے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ جو کچھ مشرقِ وسطیٰ میں کررہا ہے وہی کچھ اپنے بالکل قریب واقع چھوٹے جزائر پر مشتمل قوموں کے ساتھ بھی کر رہا ہے۔
سوال: کیا اوباما عرصہ دراز پر محیط اسرائیل فلسطین تنازعے پر کسی اہم پیش رفت کے قابل ہوسکے گا اور کیا وہ اپنے تعلقات عامہ اور اپنے نام کے درمیانی حصّے (حسین)کا برمحل استعمال کرکے امریکہ مخالف جذبات کو ٹھنڈا کر سکتا ہے؟
صدر اوباما نے اسرائیل فلسطین تنازعے سے متعلق انتہائی واضح اور فیصلہ کن انداز میں طویل عرصے سے جاری امریکی پالیسیوں کی حمایت کی ہے۔ اس نے اقوام متحدہ کی گولڈ سٹون رپورٹ کی کُھل کر مذمت کی جس نے غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی جنگی جرائم کے ناقابلِ تردید ثبوت فراہم کیے تھے۔ اس نے اسرائیل کی بڑے پیمانے پر فوجی امداد کو جاری رکھا ہوا ہے اور فلسطینیوں کو تقسیم کرنے کے لیے اسرائیل کے اتحادی الفتح کے کچھ حصوں کو مسلح کرنے کا کام بھی جاری رکھا ہوا ہے۔ یہ کوشش اتنی خفیہ بھی نہیں کہ مصر، اردن اور سعودی عرب کی حکومتوں کی شراکت اور مدد کے بغیر جاری ہوں۔ واقعات کا ممکنہ تسلسل اس طرح سے ہوسکتا ہے کہ مغربی کنارے اور پروشلم میں اسرائیلی بستیوں کی توسیع کا کام جاری رہے۔ اور ناکہ بندی کا شکار غزہ کے لوگ بدترین آزمائشوں سے دوچار رہیں۔ امریکہ اسرائیل کو ایسا طاقتور پہریدار بنانا چاہتا ہے جسے علاقے کی کسی دوسری طاقت سے سنگین خطرات لاحق نہ ہوں اور اس ضمن میں ایران کی طرف سے حزب اﷲ اور حماس کی حمایت اہم مسئلہ بن رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور اسرائیل ایران کو مسلسل فوجی حملے کی دھمکیاں دیتے رہتے ہیں۔ اس فارمولے کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اس علاقے میں اسرائیل جوہری ہتھیاروں کا تن تنہا مالک رہے۔ قرین قیاس اہم پیش رفت جو اوباما کرسکتا ہے وہ تابعدار فلسطینی قیادت کو ایسی نیم خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے آمادہ کرنا ہے جو حقیقی اقتدارِ اعلیٰ اور آزادی سے محروم ہو لیکن کسی حد تک اس قابل ہوکہ ایسے دھوکے کے خلاف فلسطینیوں کے غصّے کو دبائے اور ٹھنڈا کرسکے۔ بالفاظ دیگر امریکہ اور اسرائیل __اسرائیل اور نیم خود مختار فلسطین کے درمیان علیحدگی پر مبنی تصفیہ کرانا چاہیں گے۔اس بات کے امکانات انتہائی کم ہیں کہ اس حل کو فلسطینیوں اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ان ہزاروں لاکھوں لوگوں پر مسلط کیا جاسکے جو فلسطینیوں کے مستقبل کے متعلق فکر مند ہیں اور اسرائیل اور فلسطین کے مابین منصفانہ معاہدہ چاہتے ہیں۔ امریکہ میں اسرائیلی لابی کے متعلق بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ یقینی طور پر یہ لوگ امریکی حکومت پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں تاہم زیادہ بنیادی سطح پر، امریکی حکومت طبقہ خواص کے مفادات کی حفاظت کے لیے کام کرتی ہے۔ تقریباً ایک صدی سے زائد عرصے سے ایک سلطنت کے قیام کی کوشش امریکی حکمت عملی کامسلسل حصّہ رہی ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ کون سی پارٹی اکثریت میں ہے اور کونسی لابی زیادہ اثر انداز ہو رہی ہے۔امریکی سلطنت کے قیام اور اس کے دفاع کے لیے امریکی حکمرانوں میں کوئی تقسیم نہیں ہے۔
فلسطینی امریکن جوزف مساد جو کہ نیویارک سٹی میں واقع کولمبیا یونیورسٹی میں عرب سیاسیات کے معروف پروفیسر ہیں۔ انہوں نے اس نکتے کو ۲۰۰۶ء میں لکھے گئے اپنے مضمون ’’اسرائیلی لابی کو موردِالزام ٹھہراتے ہوئے:یہ امریکی پالیسی ہی ہے جو عرب دُنیا کو اشتعال دلاتی ہے‘‘ میں انتہائی موثر انداز میں بیان کیا ہے۔
مشرقِ وسطیٰ میں امریکی پالیسی اور باقی تمام دُنیا میں اسکی پالیسیوں میںکوئی قابل ذکر فرق نہیں ہے اور نہ ہی یہ صیہونیت کے آغاز اور اسرائیل کی ریاست کے قیام سے کئی عشرے قبل کی امریکی پالیسیوں سے مختلف ہے۔ ترغیب کار حکمتِ عملی اور مختلف تدابیر اختیار کرنے میں تو اختلاف کرسکتے ہیں لیکن امریکہ کے حکمران طبقہ میں سلطنت مخالف کوئی دھڑے بندی موجود نہیں ہے۔صدر اوباما نے اپنے پیش رو کی نسبت مختلف لہجہ تو اختیار کیا ہے لیکن اس نے انتہائی سرعت کے ساتھ ایسے عملی مظاہر دکھا دیے ہیں جو یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ وہ امریکی سلطنت کا ایک وفادار خادم ہے۔ افغانستان میں اس کا جوش وجذبہ ، پاکستان میں ڈرون حملے، عراق میں امریکی افواج کا قیام، یمن میں بمباری، صومالیہ میں آپریشن کا تسلسل اور افریقہ کے لیے پینٹاگون کی نئی کمان کے زیر سایہ افریقہ کے Sub Sahara کے طول و عرض میں عسکر سازی سے یہ واضح ہوتا ہے کہ امریکی خارجہ پالیسی کے جارحانہ عزائم کسی مثبت تبدیلی کے لیے نہیں ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ صدر اوباما نے وال اسٹریٹ بینک، انشورنس کمپنیز اور دوسرے بڑے مالیاتی اداروں اور کارپوریٹ مفادات کے یقینی تحفظ کے لیے واضح اشارے دیئے ہیں۔
۲۰۰۸ء کے الیکشن میں ری پبلکن کو جتنی رقم ملی تھی، ڈیموکریٹک پارٹی کو امریکی معاشرے کے امیر ترین طبقے سے اس سے زیادہ رقم وصول ہوئی ہے۔ کسی کو بھی یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ ڈیموکریٹک پارٹی، امریکہ کی خارجہ یا مُلکی سیاست کا رُخ بدلے گی۔ ایسا صرف اس وقت ہوسکتا ہے جب کہ ایک عوامی تحریک، جو کہ ان دونوں پارٹیوں کے اثر سے بالکل آزاد ہو، امریکی معاشرے کے حکمران طبقے کو للکارنے کی ہمت کرے۔
(ترجمہ: منزہ صدیقی)
جواب دیں