مشرق وسطیٰ چند اہم عوامل
فلسطین میں گروہ بندی اور گولڈ سٹون رپورٹ
سوال: حماس اور الفتح میں اختلاف کی بنیاد کیا ہے اور اسرائیل کے ساتھ امن عمل پر اس اختلاف کے کیا دُور رَس اثرات مرتب ہوسکتے ہیں؟
حماس اور الفتح مسئلہ فلسطین کو حل کرنے کے لیے دو مختلف نقطۂ نظر کی نمائندگی کرتی ہیں۔ اوسلو معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد الفتح نے نام نہاد امن عمل کو شروع کرنے کے لیے امریکہ اور اسرائیل کی عائد کردہ شرائط کو تو تسلیم کرہی لیا ہے۔ یعنی اسرائیل کو ایک جائز ریاست کے طور پر تسلیم کرنا اور مسلح جدوجہد سے دست برداری۔ تب سے الفتح کے زیر اثر فلسطینی اتھارٹی مقبوضہ علاقوں میں اسرائیل کے نائب کے طور پر مغربی کنارے میں امن و امان قائم رکھنے اور اسرائیل کے اندر ہونیو الے حملوں کو روکنے کے لیے بھرپور طریقے سے کام کررہی ہے۔ اس امر سے اسرائیل کو اپنی افواج مغربی کنارے کی بجائے غزہ میں دوبارہ تعینات کرنے میں مدد ملی ہے، تاکہ وہ مزاحمت کرنے والے حماس جیسے اسلامی گروپوں کی کمر توڑ سکے۔
الفتح امریکہ اور اس کے یورپی اور عرب اتحادیوں کے ساتھ بھی خصوصی قربت رکھتی ہے جوکہ اس خطے میں بڑھتی ہوئی اسلامی طاقتوں کے متعلق فکر مند ہیں۔ اس کے برعکس حماس اپنے اصل میثاق پر قائم ہے جوکہ اس تصور کو رد کرتا ہے کہ اسرئیل ایک جائز ریاست اور صرف یہودیوں کے لیے مخصوص وطن ہے۔ حماس یہ سمجھتی ہے کہ اپنے وطن کو آزاد کرانے کے لیے مسلح جدوجہد مقبوضہ لوگوں کا فطری حق (اسلامی فریضہ) ہے، جسے اقوامِ متحدہ کے دستور العمل میں بھی تسلیم کیا گیا ہے۔ حماس تاریخی طور پر تسلیم شدہ پورے فلسطین پر فلسطینی لوگوں کے اقتدار کی بحالی چاہتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی چاہتی ہے کہ فلسطینی پناہ گزین اپنے گھر بار اور املاک میں واپس آجائیں جنہیں اسرائیل کے قیام کے بعد یہودی آبادکاروں نے زبردستی ہتھیا لیا تھا۔ قضیۂ فلسطین کے تصفیے کے لیے حماس نے گفت و شنید کے راستے کو کبھی یکسر مسترد نہیں کیا۔ لیکن گزشتہ امن مذاکرات میں اسرائیلی ہٹ دھرمی کو دیکھتے ہوئے حماس اسے امن عمل میں حصہ دار بنانے کی روادار نہیں ہے کیونکہ اسرائیل نے مقبوضہ علاقوں میں ناجائز آبادکاری اور فلسطینیوں کے قتل عام کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ تاہم حماس کی قیادت نے عمومی طور پر اس کا اشارہ دیا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ اس شرط پر طویل المیعاد جنگ بندی (ہُدنہ) کے لیے تیار ہے اگر وہ اُن علاقوں کو خالی کردے جن پر اس نے ۱۹۶۷ء کی جنگ میں قبضہ کرلیا تھا۔
حماس کے روحانی رہنما شیخ احمد یاسین نے اس مؤقف کا برملا اظہار کیا تھا۔ حالیہ مہینوں میں دمشق میں مقیم حماس کی قیادت نے کئی مواقع پر اسی مؤقف کا اعادہ کیا ہے۔ اگرچہ حماس اور الفتح کے مابین فلسطینیوں کو ان کے سیاسی حقوق دلانے کے مسئلے پر بنیادی اختلافات موجود ہیں لیکن یہ حقیقت بھی نظروں سے اوجھل نہیں ہونی چاہئے کہ حماس نے فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے مابین نتیجہ خیز امن مذاکرات کی کبھی بھی مخالفت نہیں کی۔ اس کے برعکس ۱۹۹۰ء کی دہائی میں صدر کلنٹن کی ثالثی کے ذریعے صدر یاسر عرفات اور اسرائیل کے درمیان ہونے والے نہایت اہم امن مذاکرات میں انہوں نے یاسر عرفات کی مکمل اخلاقی و سیاسی حمات کی۔ حماس نے یہ بات واضح کردی ہے کہ وہ تب تک فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے مابین ہونے والے امن مذاکرات کا حصہ نہیں بنیں گے جب تک امن معاہدہ ایک آزاد، حقیقتاً خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام، مقبوضہ علاقوں سے اسرائیلیوں کے مکمل انخلائ، مشرقی یروشلم کو فلسطین کا دارالحکومت تسلیم کرنے اور فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی کے حق کو تسلیم کرنے پر منتج نہ ہوں۔
چنانچہ فلسطینی معاشرے کی یہ اندرونی تقسیم نام نہاد امن عمل کو صرف ایسی صورت میں بری طرح متأثر کرے گی کہ اگر الفتح کی قیادت ایسے معاہدے کے سامنے ہتھیار ڈال دے جو فلسطینی عوام کی مجموعی رائے کے خلاف ہو۔ جہاں تک اسرائیل سے امن مذاکرات کا تعلق ہے تو حماس اور الفتح کے مابین اختلافات بہت شدید نوعیت کے نہیں ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں کہ حماس اور الفتح کی باہمی کشمکش نے نہ صرف اسرائیل کو غیر معینہ مدت کے لیے امن مذاکرات ملتوی کرنے کا معقول عذر تراشنے کا موقع دیا ہے بلکہ فلسطینی عوام اور ان کے خیر خواہوں کو بھی بد دل کیا ہے۔
سوال: امریکہ کی طرف سے گولڈ سٹون رپورٹ کو مسترد کرنے کی کیا وجوہات ہیں؟ کیا یہ مشرق وسطیٰ میں لوگوں کے’’ دل و دماغ‘‘ جیتنے کی کوشش، اوباما کے پُرخلوص عندیات اور اقدامات کو کوئی نقصان پہنچائے گی؟
گولڈ سٹون رپورٹ اگرچہ انتہائی ناکافی اور محتاط انداز میں مرتب کی گئی ہے لیکن یہ کسی طور پر بھی کسی بین الاقوامی تنظیم کی طرف سے اپنی نوعیت کی پہلی رپورٹ نہیں ہے جس میں اس شک کا اظہار کیا گیا ہو کہ اسرائیل جنگی اور انسانیت کے خلاف جرائم کا مرتکب ہوا ہے۔ تاہم جب بین الاقوامی اکھاڑے میں قوت یا رسوخ کے بل پر سیاست کرنے والوں کے مفادات کی بات آتی ہے تو بدقسمتی سے اخلاقی اور قانونی پہلو شاذ و نادر ہی زیر بحث لائے جاتے ہیں۔ امریکہ-اسرائیل تعلقات کی تاریخ اور واشنگٹن میں اسرائیلی لابی (حلقۂ اثر) کے زبردست اثر و رسوخ کو دیکھتے ہوئے یہ بات حاشیۂ خیال میں لانا بھی ناممکن تھا کہ امریکہ اس رپورٹ کو اقوامِ متحدہ کے اداروںمیں زیر بحث لانے کی اجازت بھی دے گا۔ اس کی قبولت اور اس پر عمل درآمد تو درکنار، عرب-اسرائیل تنازعے میں تمام عملی مقاصد کے حصول کے لیے امریکی پالیسی، اندرونی امریکی سیاست ہی کی ایک توسیع ہے۔ یہاں یہ امر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ امریکی کانگریس کی غالب اکثریت نے گولڈ سٹون رپورٹ پڑھے بغیر اس کی مخالفت کی یاد داشت پر دستخط کردیے۔ ان کے لیے اس یادداشت پر دستخط کرنے کے لیے اتنا ہی کافی تھا کہ امریکن-اسرائیل پبلک افیئر کمیٹی (AIPAC)، جوکہ واشنگٹن میں اسرائیل دوست حلقۂ اثر کا ایک گروہ ہے، نے انہیں ایسا کرنے کی ہدایت کی تھی۔ لہٰذا یہ ایک یقینی امر تھا کہ واشنگٹن اِس رپورٹ کو زیر بحث لانے کی اجازت نہیں دے گا۔
گولڈ سٹون کے معاملے میں جو چیز زیادہ باعثِ شرم تھی وہ یہ کہ امریکہ نے اس مقصد کے لیے اپنے عرب مسلمان اتحادیوں (جن میں قوتِ ارادی سے عاری فلسطینی صدر محمود عباس بھی شامل ہیں) کو اس رپورٹ پر بحث و تمحیص سے روکنے کے لیے استعمال کیا۔
تقریباً ایک سال پہلے کیے گئے قاہرہ میں اپنے خطاب میں صدر اوباما نے کہا تھا کہ عرب اور مسلمان لوگ مجھے میرے کارناموں کی بنا پر جانچیں گے نہ کہ الفاظ کی بناپر ۔اس کے ان الفاظ نے پوری دنیا کے مسلمانوں میں اُمید کی کرن پیدا کردی تھی۔ لیکن اس کے اعمال (اور بے عملی) Pagebreakابھی تک مایوسی کے سوا کسی چیز کا پیغام نہیں لائے۔
جواب دیں