مشرق وسطیٰ چند اہم عوامل
عراق میں موجودہ پیش رفت اور مستقبل کے امکانات
سوال: کیا عراق میں امریکی ایجنڈا کامیاب ہورہا ہے؟
نئے قدامت پرستوں(نیوکانز) نے تین نکاتی لائحۂ عمل پیش کیا جس نے جارج ڈبلیو بش کو صدام حسین کے خلاف حملے کی بنیاد فراہم کی۔
(۱) امریکہ عراق کی ایک جمہوری ملک کے طور پر تعمیر نو کرے گا، جوکہ باقی مشرقِ وسطیٰ پر گہرے اثرات مرتب کرے گی۔ اس طرح امریکہ پورے مشرقِ وسطیٰ میں جمہوریت کی شمع روشن کرسکے گا۔ یہ مقصد فی نفسہٖ بُرا نہیں تھا لیکن عراق پر حملے کے مابعد اثرات کو دیکھا جائے تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ یہ مقصد کبھی بھی حاصل نہیں کیا جاسکتا اور اِس سے اس امر کی وضاحت بھی ہوتی ہے کہ جمہوریت سازی کے اس منصوبہ عمل کو عملی جامہ پہنانے کے لیے امریکی حتیٰ کہ اوباما انتظامیہ بھی عراق کا ذکر تک کیوں نہیں کررہے۔ اگرچہ اس منصوبے میں عراق کو بنیادی نکتے کے طور پر استعمال کرنے کا وسیع تر مقصد تو حاصل نہیں ہوا، مگر حکومت کی تبدیلی کا عمل واقع ہوچکا ہے۔ رائج الوقت حکومت جمہوری طور پر منتخب شدہ ، امریکہ کی ہمدرد حکومت ہے جو غالباً اس خطے میں امریکہ کے بنیادی مفادات کو نقصان نہیں پہنچائے گی۔ مالکی حکومت نے درحقیقت امریکہ کو کھلی مداخلت کا موقع فراہم کیا ہے اور اسے اپنا اثر و رسوخ قائم رکھنے اور بالوسطہ موجودگی کی اجازت بھی دے دی ہے جو غالباً قابلِ قیاس مستقبل تک جاری رہے گی۔
(۲) دوسرا مقصد یہ تھا کہ عراق کو وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کو تیار کرنے کی صلاحیت سے محروم کردیا جائے۔ اب یہ بات ہم سب کے علم میں ہے کہ عراق کے پاس کبھی یہ صلاحیت تھی ہی نہیں اور عراق پر حملے کے لیے یہ ہتھیار محض ایک بہانہ تھے۔ حال ہی میں سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے یہ بیان دیاہے کہ اگر عراق کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار نہ بھی ہوتے تو بھی وہ عراق پر حملہ ضرور کرتے کیونکہ ان کے خیال میں صدام کی آمرانہ حکومت اس بات کا اخلاقی جواز فراہم کرنے کے لیے کافی تھی کہ مغربی ممالک طاقت استعمال کریں اور وہاں کی حکومت کو تبدیل کردیں۔
(۳) تیسرا مقصد جوکہ بہت سے لوگوں کے خیال میں عراق پر امریکی حملے اور وہاں اس کی مستقل فوجی موجودگی کی تہہ میں کارِ فرما اصل مقصد ہے، وہ عراق کے تیل کے ذخائر ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ عراق کے تیل میں گہری دلچسپی رکھتا ہے۔ ۲۰۰۷ء میں ہونے والے ایک معاہدے کے تحت اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ عراقی تیل کے اثاثوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے امریکی کمپنیوں کو ترجیحی بنیادوں پر مواقع فراہم کیے جائیں گے۔ چنانچہ اس سے یہ مقصد کسی حد تک پورا ہوگیا۔
اس بات سے قطع نظر کہ یہ جنگ جمہوریت سازی، وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کو جڑ سے اکھاڑنے یا عراق کے تیل اور توانائی کے ذخائر پر قبضہ حاصل کرنے کے لیے مسلط کی گئی۔ اس حقیقت سے آنکھیں چُرانا ناممکن ہے کہ امریکہ کو اس جنگ کی بڑی بھاری قیمت چُکانا پڑرہی ہے۔ کچھ اندازوں کے مطابق امریکہ اس جنگ میں تین کھرب ڈالر سے زائد کا نقصان اُٹھاچکا ہے۔ امریکہ کے بہت سے پالیسی ساز اس قدر زیادہ مالی نقصانات کو دیکھتے ہوئے اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ یہ جنگ لڑی ہی نہیں جانی چاہیے تھی۔ لہٰذا عراق میں حقیقی امریکی مقاصد سے قطع نظر اس جنگ سے ہاتھ کھینچ لینے کے لیے امریکی پالیسی سازوں کے پاس بڑی ٹھوس وجوہات موجود ہیں۔
سوال: عراق کی موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے کیا امریکہ کے لیے اپنے انخلاء کی پالیسی کو بروئے کار لانا ممکن ہوگا؟
اولاً، اس جنگ سے ہاتھ کھینچ لینے کے لیے بنیادی امر امریکہ میں اس حقیقت کا ادراک ہونا ہے کہ یہ ایک غلط جنگ تھی اور اس نے امریکی قوم کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیا ہے۔ امریکہ نے نہ صرف ہزاروں عراقی شہریوں کا خون بہایا ہے بلکہ اپنے خزانے اور خون سے بھی بھاری قیمت ادا کی ہے۔ لہٰذا اوباما اس جنگ کو ختم کرنے کے لیے پُرعزم نظر آتے ہیں۔
ثانیاً، اس جنگ کی معاشی قیمت امریکی توقعات سے کہیں بڑھ کر ہے۔ پہلے پہل امریکی پالیسی سازوں کا خیال تھا کہ اس جنگ کے اخراجات عراقی تیل کی آمدن سے پورے کیے جاسکیں گے، لہٰذا یہ جنگ واشنگٹن کے لیے قابلِ برداشت ہوگی۔ لیکن یہ توقع اس لیے پوری نہیں ہوئی کہ تیل کی قیمتیں۱۸۰ ڈالر فی بیرل تک متجاوز ہوکر۷۷ ڈالر فی بیرل کی نچلی سطح تک آگئیں۔تیزی سے انحظاط پذیر ہوتی تیل کی آمدنی نے امریکہ کمپنیوں کو مجبور کردیا کہ وہ زیادہ مقدار میں تیل نکالیں۔ اس بات نے صورتحال کو مزید گھمبیر کردیا۔ کیونکہ عراقی حکومت بھی اپنے آپ کو مستحکم کرنے اور اپنے ملک کی معاشی بحالی کے کٹھن کام کا آغاز کرنے کے لیے تیل کی آمدن کے اِسی ذریعے سے رقم چاہتی ہے۔
ثالثاً، افغانستان میں جنگ جیتنا ناگزیر ہے۔ صدر اوباما نے جارحانہ حکمتِ عملی کے ایک حصے کے طور پر افغانستان میں صورتحال کو مستحکم کرنے کے لیے مزید۳۰ہزار فوجی تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان میں سے کچھ دستے عراق سے نکال کر افغانستان بھیجے جائیں گے۔ اس تناظر میں عراق سے امریکی فوجیوں کا انخلائ، افغانستان میں جارحانہ حکمت عملی سے گہری مناسبت رکھتا ہے۔
رابعاً، اگر اوباما اقتدار میں رہتا ہے، جیساکہ بہت سے لوگ یہ پیش گوئی کرتے ہیں کہ وہ نہ صرف بقیہ دو سال پورے کرے گا بلکہ دوسری مدت کے لیے بھی منتخب ہوگا، تو انخلاء کی پالیسی پر عمل ہوتا رہے گا۔ لیکن اس سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ اس قابل ہوسکے گا کہ وہ عراق میں برسرِ پیکار تمام فوجی دستے نکال لے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اوباما عراق سے زمینی افواج کی واپسی کا وعدہ تو پورا کرے گا لیکن فضائی اڈے اور خفیہ معلومات تک رسائی کے لیے بنائے گئے اپنے نظام کو ملک کے مختلف حصوں میں قائم رکھے گا۔ چنانچہ بہت سے عوامل اور دباؤ کے زیر اثر اوباما کو اپنی صدارت کی پہلی مدت کے اختتام تک عراق سے تمام فوجی دستوں کی واپسی کا وعدہ پورا کرنا ہوگا۔ لیکن اگر زمینی حالات اس قدر خراب ہوجاتے ہیں کہ امریکی پالیسی ساز یہ محسوس کرنے لگیں کہ فوجوں کی واپسی سے ملک مزید عدم استحکام کا شکار ہوگا تو ممکن ہے کہ وہ انخلاء کے طریقہ کار کو مزید طول دیں۔ یہ ناممکن ہے کہ امریکی عوام، اس کے معاشی حتیٰ کہ سیاسی سربراہ اس دلیل پر متفق ہوسکیں کہ عراق میں لمبے عرصے تک فوجوں کی موجودگی ان کے وسیع تر فوجی یا دفاعی مفاد میں ہوگی۔
سوال: ایران نے عراق میں کس طرح سے اپنا کردار ادا کیا ہے؟
امریکی پالیسی ساز اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ عراق کی نسلی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم ملک کو عدم استحکام کا شکار کردے گی اور وہ کوئی ایسا قدم اُٹھانے سے گریز کریں گے جو اس تناؤ میں مزید اضافہ کرے اور نتیجتاً شیعہ اکثریتی آبادی اور سُنی اقلیتی آباد ی کے درمیان تعلقات کو خراب کرے۔ بالآخر وہ اس حقیقت کو تسلیم کرچکے ہیں کہ عراق کی شیعہ آبادی پر ایران کا اچھا خاصا اثر و رُسوخ ہے اور رہے گا۔ اور انہوں نے اس کو کم کرنے کی کوشش بھی نہیں کی۔ اس موقع پر تہران نے اپنے پتے نہایت عقلمندی سے استعمال کیے ہیں اور اس معاملے کا اہم ترین فریق بننے کے لیے عراق میں اپنا اثر و رُسوخ استعمال کیا ہے۔ مزید برآں ایران، عراق کے کسی علاقے پر قبضے کا ارادہ نہیں رکھتا، کیونکہ اس کا خیال ہے کہ:
ا یہ اس کے ہمسایوں کے لیے ناقابل برداشت ہوگا۔
ب یہ ایران کی طرف سے قوت کا بے جا استعمال سمجھا جائے گا۔
ج یہ عراقی عوام کے ایک بڑے حصے کے لیے ناقابل قبول ہوگا، حتیٰ کہ اس کی شیعہ آبادی کے لیے بھی جو ایران کے ساتھ ہمدردی اور نظریاتی وابستگی رکھتے ہیں۔
ابھی تک ایرانی اثر و رُسوخ نے عراق میں حالات کی بہتری میں مدد دی ہے اور ایران یہ نہیں چاہتا کہ عراق سعودی عرب جیسی علاقائی طاقتوں کے لیے نیا میدانِ جنگ بن جائے ۔ تاہم ایران سے متعلق امریکہ کی سب سے بڑی پریشانی یہ ہوسکتی ہے کہ وہ ایک ایسی حکمتِ عملی ترتیب دے جس کے ذریعے اس خطے میں بڑھتے ہوئے ایرانی اثر و رُسوخ کو کم کیا جاسکے اور بغداد اور تہران میں بڑھتے ہوئے فوجی و سیاسی تعلقات کی بحالی کو روکا جاسکے۔ امریکہ ایک طویل عرصے سے ایران، عراق دونوں ممالک کی مخالفت کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اگرچہ امریکہ نے عراق میں جنگ اور امریکہ نواز حکومت مسلط کرکے عراق دشمنی کا ثبوت دے دیا ہے، تاہم اس کی ایران مخالف پالیسی ابھی تک روبہ عمل نہیں ہوئی۔اس سلسلے میں ایران اگر عراق کے ساتھ مل کر ایک دفاعی / فوجی اتحاد بنالیتا ہے یا سیاسی و معاشی وجوہات کی بناء پر عراق کے ساتھ مصالحت کرلیتا ہے تو امریکہ اور سعودی عرب اسے ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کریں گے۔
تاہم اپنی اندرونی کمزوریوں اور مسائل کی بناء پر ایک ریاست اور علاقائی طاقت دونوں کے طور پر عراق اس خطے میں کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ایران اس خطے میں اثر و رسوخ حاصل کرنے کے لیے اپنی بڑھتی ہوئی فوجی اورمیزائل صلاحیت کے بل بوتے پر عراق میں اپنے اثرات ثبت کرنا پسند کرے، لیکن امریکہ جس چیز سے سب سے زیادہ خوفزدہ ہے وہ ایک ایسی صورتحال ہے جہاں سماجی، نسلی اور فرقہ وارانہ تقسیم اس قدر شدت اختیار کرلے کہ وہ عراقی ریاست کی سا لمیت اور حکومت کے لیے خطرہ بن جائے۔ متحدہ عراق، جہاں کُرد، شیعہ اور سنی اتفاق سے رہتے ہوں، کی نسبت ایسی (تقسیم شدہ) صورتحال ایران کے لیے زیادہ سود مند ہوگی۔ اس تناظر میں امریکی انتظامیہ، خاص طور پر امریکی زمینی افواج کے انخلاء کے بعد، ایسی عراقی حکومت چاہے گی جو ان اختلافات سے اور عراق کے حالات سے اپنے طور پر نبرد آزما ہوسکے۔ اس امر کو یقینی بنانے کے لیے کہ عراق سے امریکی فوجوں کے چلے جانے کے بعد عراق اپنے پاؤں پر خود کھڑا ہوسکے، کچھ اقدامات اُٹھائے جاچکے ہیں۔ چنانچہ جب تک عراق کی مرکزی حکومت مضبوط رہتی ہے، عراق کی سا لمیت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔
سوال: کیا عراق کی معاشرتی، نسلی، سیاسی، مذہبی بنیادوں پر تقسیم اور خاص طور پر کُرد شورش عراق کا شیرازہ بکھیرنے پر منتج ہوگی؟
ایک مرحلے پر بیرونی سازشوں کی وجہ سے عراق کے چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم ہوجانے کا خطرہ واقعی موجود تھا۔ بعد ازاں امریکہ کو یہ احساس ہوا کہ ایک کمزور عراق خطے میں عدم استحکام پیدا کرے گا۔ اور نہ تو وہ امریکیوں کو اور نہ ہی کسی اور طاقت کو کوئی فائدہ پہنچاسکے گا۔ اس حقیقت نے عراق کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کی خواہش کو ٹھنڈا کردیا۔ تین حصے: یعنی جنوب میں شیعہ اکثریت، مرکز میں سنی اور شمال میں کُردوں پر مشتمل منقسم عراق۔
اگرچہ عراقی معاشرہ بنیادی طور پر نسل پرستی کے جذبات سے معمور رہا ہے لیکن جب کبھی بیرونی طاقتوں سے جنگ کا موقع آیا تو عراقی قوم پرستی کے جذبات ہمیشہ غالب آگئے۔ یہ قوم پرستی کے فطری جذبات ہی تھے جو ۱۹۳۰ء میں برطانیہ کے خلاف جنگ میں حرکت میں آگئے تھے۔ یہ سلسلہ اسی طرح جاری ہے اور یکے بعد دیگرے دو امریکی انتظامیہ — بش اور اوباما — مجبور ہوگئیں کہ وہ عراقی بغاوت کو بیرونی طاقتوں کے خلاف ایک ملک گیر تحریک کی شکل میں دیکھیں۔ تقسیمِ عراق کے سرگرم حامیوں پر یہ حقیقت عیاں ہوگئی کہ ملک کو تین چھوٹی اکائیوں میں تقسیم کرنے کی کوشش ایک غیر معمولی اور پُرخطر کوشش ہے۔
عراق کو تقسیم کرنے کی منطق نے اپنے ملک پر امریکی قبضے کے خلاف عراقی قوم پرستی کے فطری جذبات کو اُبھارنے کے لیے تُرپ کے پتے کا کام دیا۔ چنانچہ عراق ایک متحدہ وحدت کی صورت میں اس وجہ باقی نہیں ہے کہ واشنگٹن ایسا چاہتا تھا بلکہ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ عراقی عوام نے’’ نیوکانز‘‘ کی تقسیم کی سازش کا شکارہونے سے انکار کردیا۔
کُرد علیحدگی پسند تحریکوں کو ہوا دینا شام، ترکی اور ایران سمیت خطے کے کسی بھی ملک کے مفاد میں نہیں۔ ان تینوں ممالک میں کُرد ایک بڑی تعداد میں آبادہیںترکی کو کُرد بغاوت اور رجوعیت کا مسئلہ درپیش رہا ہے۔ ان علاقائی طاقتوں کا مفاد اسی سے وابستہ ہے کہ وہ کُرد اقلیتوں کو اپنی اپنی سرحد کے اندر آباد دیکھیں۔ آزاد کُردستان کی تحریک ان تینوں ممالک کو غیر مستحکم کرسکتی ہے اور نسلی بنیادوں پر تقسیم کی حامی مرکز گریز قوتیں قابو سے باہر ہوسکتی ہیں۔ ان خطرات کی وجہ سے اس بات پر اس علاقے میں مکمل اتفاق رائے موجود ہے کہ عراقی کرد، عراق کی حد میں ہی رہیں۔ ساتھ ہی ساتھ ان طاقتوں کو اس بات کا بھی احساس ہے کہ متحدہ عراقی ریاست کے نظام میں کردوں کو وسیع تر شمولیت کا احساس دلایا جانا چاہیے۔ اگرچہ بظاہر تو یہ ایران کے لیے بہت خوش کن دکھائی دیتا ہے کہ وہ عراق میں علیحدگی پسندوں کو ہوا دے لیکن اس کا منفی اثر عظیم کردستان کی تحریک کی شکل میں بھی نکل سکتا ہے جوکہ اس ترغیب کے اثر کو بالکل زائل کردے گا۔
سوال: عراق میں جمہوریت اور عراقی فوج کے تعلق کا کیا مستقبل ہے؟
عوامی سطح پر امریکہ مخالف جذبات میں بہت شدت پائی جاتی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی، ہلاکتوں اور امریکی مداخلت کی وجہ سے ہونے والی تباہی کے نتیجے میں یہ جذبات ایک طویل عرصے تک ایسے ہی رہیں گے۔ عراقی عوام کے خلاف امریکی فوج کے مظالم کی تمام داستانیں ابھی تک منظر عام پر نہیں آئیں۔ عراقی عوام، جنہوں نے امریکیوں کے بے پناہ مظالم برداشت کیے ہیں، اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ امریکی لشکر کشی کا کیا مطلب ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ وہ انتہائی حد تک امریکہ کے خلاف ہوچکے ہیں۔ اس پس منظر میں مستقبل میں بننے والی کسی بھی عراقی حکومت کے لیے اپنی پالیسیاں ترتیب دیتے وقت ان امریکہ مخالف جذبات سے صرفِ نظر کرنا ممکن نہ ہوگا۔ اگر حقیقی طور پر منتخب شدہ کسی بھی عراقی حکومت کو امریکی مفادات کے سلسلے کی ایک کڑی کے طور پر دیکھا گیا تو وہ بہت لمبے عرصے تک نہیں چل سکتی۔ ہوسکتا ہے کہ امریکہ عراق سے تیل اور اس کے توانائی کے ذخائر تک بآسانی رسائی کی صورت میں تو کچھ فوائد حاصل کرسکے لیکن امریکہ کے لیے عراق میں عراقی عوام کی خواہشات کے برعکس ایسی حکومت بنانا جو امریکہ کے گلے کا ہار ہو، بہت مشکل نظر آتا ہے۔
یہ بات ہر خاص و عام کو معلوم ہے کہ امریکی حکمران جمہوریت کو وسعت دینے اور اسے مضبوط کرنے کے تو دعویدار ہیں لیکن اگر کسی ملک میں جمہوریت کی وجہ سے ایسے قائدین سامنے آئیں جو اُن کی خواہشات کے سامنے گھٹنے نہ ٹیک سکیں تو وہ ایسی ممکنہ جمہوریت کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں۔ لہٰذا امریکہ ایک ایسی جمہوریت چاہتا ہے جو امریکہ کے لیے قابل قبول حکمران پیدا کرے۔ بین الاقوامی سیاست کے میدان میں اور خاص طور پر تیسری دنیا کے ممالک کے لیے یہ مسئلہ امریکی رویے میں سرایت کرچکا ہے۔
چونکہ جمہوری طور پر منتخب رہنماؤں کا ااپنا لائحۂ عمل، رجحانات اور عوامی اعتماد ہوتا ہے، چنانچہ امریکہ آمروں کی سرپرستی کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔ عراق کے معاملے میں ایرانی انقلاب کے بعد ۱۹۷۹ء سے ۱۹۹۱ء تک صدام حسین اسی امریکی شعبدہ بازی کے سحر میں گرفتار رہا۔ ان گیارہ سالوں کے دوران امریکہ صدام حسین کا سب سے بڑاحامی تھا اور اس کو خطے کے استحکام کے لیے ایک اہم طاقت کے طور پر پیش کرتا رہا، جیساکہ رمز فیلڈ اور صدام حسین کی چند انتہائی اہمیت کی حامل ملاقاتوں سے یہ تأثر دیا گیا۔ چونکہ ایران اس وقت ایک بڑا خطرہ محسوس ہوتا تھا چنانچہ سعودی عرب اور کویت کو ایران کے خلاف اس جنگ میں عراق کی مدد کے لیے گھسیٹ لیا گیا۔
امریکہ اپنے مفادات اور سیاسی ضروریات کے تحت انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ کبھی آمریت اور کبھی جمہوریت کی سرپرستی کرتا رہا ۔دنیا بھر میں حکومتوں کی سرپرستی کے اس رویے کو دیکھتے ہوئے یہ کہنابعید از قیاس نہیں کہ امریکہ کی عنایت سے عراق میں ایک مضبوط امریکہ نواز حکمران کی حکومت بنادی جائے۔ تاہم امریکہ نے آمرانہ نظامِ حکومت کو ختم کرکے عراقیوں کو ایک موقع فراہم کیا ہے۔ اگر عراق امریکہ کی دفاعی اور سیاسی مفادات کی باجگزار جمہوریت کی بجائے ایک خودمختار جمہوریت بننا چاہتا ہے تو عراقی رہنماؤں کو خصوصاً اور عراقی عوام کو عموماً اپنا لائحہ عمل مرتب کرنا ہوگا۔ ممکن ہے کہ امریکہ کی تربیت یافتہ افواج امریکی ایجنڈے پر ہی عمل پیرا رہیں۔ عراقی قیادت خاص طور پر فوجی سربراہان امریکہ کے ممنونِ احسان ہیں کیونکہ امریکیوں ہی نے ان کو تربیت دی، اسلحہ فراہم کیا، فوجی سازو سامان سے آراستہ کیا اور انہیں اقتدار میں لائے۔ آخری مر تبہ جب میں واشنگٹن گیا تو ایک عراقی جنرل (اس کا نام ظاہر نہیں کروں گا) سے ملا، اس سے گفتگو کرتے ہوئے مجھے ایسا محسوس ہوا کہ وہ عام امریکیوں سے بڑھ کر امریکی حکمرانوں کا وفادار تھا۔ اس وقت مجھے حیرت کا شدید دھچکا لگا کہ یہ جنرل امریکی حمایت پر مبنی اپنے صریح مؤقف کے ساتھ کس طرح اس ملک (عراق) پر حکومت کرے گا!اگر یہ آغاز ہے تو مستقبل کی قیادت کے سلسلے میں عراق ایک حقیقی مشکل سے دوچار ہے۔
فوج کو ایک ایسے امریکی حمایت یافتہ اور پروردہ ادارے کے طور پر دیکھا جائے گا جوکہ غیر معمولی امریکی اثر و نفوذ رکھتا ہے۔ اور امریکہ مخالف جمہوریت کو امریکی تربیت یافتہ عراقی فوج کے ذریعے دبائے جانے کو خارج از امکان نہیں کہا جاسکتا۔
سوال: عراق سے امریکہ کے چلے جانے کے بعد علاقائی اور عالمی اداکاروں کا کردار کیا ہوگا؟
ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ عراق سے امریکی افواج کے چلے جانے کے بعد بھی یہ مکمل انخلاء کی صورتحال نہیں ہوگی۔ عراقی حکومت کا اپنا مقام ہے لیکن بہت کچھ اس پرمنحصر ہوگا کہ یہ خود کو کن ممالک کے ساتھ ہم آہنگ کرتی ہے۔ مثال کے طور پر کوئی بھی عراقی حکومت اپنے ہمسایوں مثلاً ایران، اُردن، سعودی عرب، شام اورترکی وغیرہ سے لاتعلق ہوکر نہیں رہ سکتی۔ امریکی کوشش یہ ہوگی کہ ان میں سے کچھ طاقتیں عراق پر کسی حد تک اپنا اثر و رسوخ قائم رکھیں۔ اگرچہ ان ممالک کے اپنے ایجنڈے ہیں لیکن اس معاملے کیلئے وہ اُردن اور سعودی عرب پر دباؤ ڈال سکتا ہے۔ علاوہ بریں عراق اتنا کمزور بھی نہیں ہے کہ وہ علاقائی طاقتوں کے لیے اس طرح سے میدان جنگ بن جائے جس طرح افغانستان سے رُوس کے چلے جانے کے بعد افغانستان بن گیا تھا۔
عراق ایک باوقار قوم ہے اور یہ اپنے وسائل، اپنے دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرتے، مضبوط ہوتے جذبہ حب الوطنی سے سرشار ہے جوکہ اس کا سب سے بڑا اثاثہ ہے اور کوئی بھی ملک جو فیصلہ کن انداز سے بغداد پر اثر انداز ہونے کا ارادہ رکھتا ہو، اس کی راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ چنانچہ ممکن ہے کہ عراق میں امریکی فوجی موجودگی کی جگہ لینے کے لیے اس خطے میں کوئی بھی سخت مقابلہ نہ ہو۔ مزید برآں تیل کی بدولت چین بھی یہاں داخل ہوچکا ہے، روس کے بھی عراق میں طویل المدت مفادات ہیں۔ صدام حسین کے ساتھ اس کا بیس سالہ دوستانہ معاہدہ ہے۔ ۱۹۹۰ء اور ۲۰۰۳ء کے علاوہ روسی تکنیکی ماہرین یہاں موجود رہے ہیں۔اگرچہ اب روس کے اثرات ختم ہوچکے ہیں تاہم عراق میں یہ اپنے اثرو رسوخ کو دوبارہ قائم کرنے کی کوشش کرے گا۔نظر آتا ہے کہ روس اور چین عراق کے ساتھ خصوصی تعلقات استوار کررہے ہیں لیکن یہ تعلقات محض منطقی اور معاشی بنیادوں پر استوار ہیں نہ کہ کسی قسم کی جغرافیائی اور سیاسی بنیادوں پر۔ بصورتِ دیگر انہیں عراق میں امریکی موجودگی اور اس کے اثر و رسوخ پر یا ان کی بالواسطہ موجودگی کی وجہ سے آنے والی ایک طویل مدت تک خاصا مقابلہ کرناہوگا۔
عراق میں قوم پرستی کے جذبات بہت شدت رکھتے ہیں اور یہ امریکہ موافق صورتحال کے ساتھ لمبے عرصے تک میل نہیں کھاسکتے۔ رسہ کشی کی اس صورتحال میں عراق کی حکومت کے لیے اس میں توازن قائم رکھنا ایک نازک مرحلہ ہوگا۔
سوال: امریکی اور عراقی حکومتوں کی حکمتِ عملی کے اہداف کیا ہونے چاہئیں؟
ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے لیے:
امریکہ کو چاہئے کہ وہ عراق سے اپنی افواج نکال لے اور اگر اسے رکھنا پڑتی ہی ہیں تو ان کی تعداد کم سے کم ہونی چاہیے اور عراقی قوم کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کا موقع دینا چاہئیے۔ اس کے علاوہ یہ کہ اس حوالے سے کسی غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہئیے کہ عراق اپنا مستقبل خود ترتیب دینے کی صلاحیت اور قابلیت نہیں رکھتا۔ عراقی معاشرہ ایک تعلیم یافتہ، انتہائی مہذب اور ادب و ثقافت کے میدانوں میں دنیاکے جدید ترین معاشروں میں سے ایک ہے۔ یہ دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک ہے اور اسے معمولی ریاست نہیں سمجھنا چاہئیے۔ لہٰذا اگر عراق کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے تو عراق کے عوام اپنا مستقبل بخوبی ترتیب دے سکتے ہیں جوکہ اپنی اساس کے اعتبار سے جمہوری ہوگا۔ کیونکہ ایک طویل عرصے تک ان پر آمر مسلط رہے ہیں۔ اِن آمروں نے ہمسایہ ممالک پر حملے کیے اور تباہی پھیلائی۔ اپنے لیے آمرانہ حکومت کے بھیانک نتائج دیکھنے کے بعد وہ مستقبل قریب میں صدام حسین جیسے کسی آمر کو خود پر مسلط ہونے کا موقع نہیں دیں گے۔ اس کے علاوہ سول سوسائٹی، خاص طور پر اس کے ذرائع ابلاغ، اب بہت مضبوط ہوچکے ہیں اور انہوں نے جمہوریت کے ثمرات چکھ لیے ہیں۔ انہیں ایک آزاد معاشرے کی قدر و قیمت کا احساس ہوچکا ہے۔ یہ وہ مثبت پہلو ہیں جنہیں مزید مضبوطی اور تقویت دی جانی چاہیے۔ اس مرحلے پر امریکہ کو اس ذمہ داری کا احساس ہونا چاہئے کہ اس نے جنگ کی ابتداء کی جس سے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلی۔ اب اسے آگے بڑھ کر تعمیری کردار ادا کرنا چاہیے جوکہ عراقی عوام کا اس پر قرض ہے۔ جمہوری تبدیلی کے عمل کے آغاز کے لیے عراقیوں کو مغربی مہارت، ٹیکنالوجی اور بین الاقوامی امداد کی ضرورت ہوگی۔ اس کٹھن صورتحال میں مغرب کو خاص طور پر اور بین الاقوامی برادری کو عموماً عراقیوں کی مدد سے پہلو تہی نہیں کرنی چاہیے۔ اس خطے کے قالب میں عراق ایک ایسا ملک نہیں ہے جو علاقائی طاقتوں میں سے کسی کے بھی بہت زیادہ زیر اثر آجائے۔ بہرکیف اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ روایتی طور پر عراق ایران کے جتنا قریب رہا ہے اب اس سے مزید قربت اختیار کرلے۔ قصہ مختصر یہ کہ امریکہ کو عراق کی جانب شتر بے مہار کی مانند طرزِ عمل کو چھوڑ کر ایک مناسب رویہ اختیار کرنا چاہئے۔ امریکہ کو چاہیئے کہ وہ عراقیوں کے ساتھ باعزت سلوک روا رکھے اور انہیں اپنے معاملات خود سلجھانے کی آزادی دے۔
عراقی حکومت کے لیے:
عراقی حکومت کو فی الوقت تعمیر نواورامن کی بحالی جیسے عظیم مراحل درپیش ہیں جن سے عہدہ برآ ہونے کے لیے انتہائی یکسوئی کی ضرورت ہے۔ اسے جگہ جگہ جنم لیتی شورشوں، دہشت گردی کے خطرے اور لاقانونیت سے بھی نمٹنا ہے۔ عراق میں بہت سے منظم اور شدت پسند گروہ وجود میں آچکے ہیں۔ ان گروہوں سے معاملہ کرنا، انہیں معاملات سے بے دخل کرنا، غیر مسلح ہونے کی مہم چلانا، لوگوں میں یہ احساس اُجاگر کرنا کہ ان کے مسائل کا حل پُرامن کوششوں میں مضمر ہے۔ یہ اُن معاملات میں سے ہیں جنہیں ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جانا چاہیے۔ عراقیوں کو اپنے آپ کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے اور اسی سے ان کی نجات وابستہ ہے۔ انہیں چاہئیے کہ وہ اپنی معیشت کو دوبارہ اسی ڈگر پر ڈال دیں جس پر وہ امریکی حملے سے قبل تھی– ایک مستحکم اور اُبھرتی ہوئی معیشت –حکومت کے پاس ابھی بھی اتنے معاشی اور قدرتی وسائل موجود ہیں جو ملک کے استحکام اور معاشی بحالی کے لیے کافی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اتفاقِ رائے کی فضا بنائی جائے، عوام کو ساتھ لے کر چلا جائے، لوگوں کی فوری ضروریات پر توجہ مرکوز ہو اور بین الاقوامی برادری کے ساتھ رابطے میں رہا جائے۔
عراق کوچاہیے کہ وہ اپنی اُسی غیر جانبداری کی پالیسی کا احیاء کرے جس پر وہ صدام حسین کے دور میں عمل پیرا تھا اور اپنے ہمسایوں کو یہ پیغام دے کہ اگر وہ اپنی کھوئی ہوئی طاقت حاصل کرلیتا ہے تو وہ ان کے لیے کوئی خطرہ نہیں بنے گا۔ شط العرب کے معاملے پر اسے ایران کے ساتھ گفت و شنید کرکے کسی تصفیے پر پہنچنے اور چھوٹے ہمسایوں کے ساتھ مملوکہ علاقوں کے تنازعات کوپُرامن طور پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ اسے وسیع تر اسلامی برادری سے منسلک ہونا اور وہاں اپنا باوقار مقام حاصل کرنا چاہئے۔ کیونکہ اس کے زیادہ تر ہمسائے غیر جانبداری کی اس کی پالیسی کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھیں گے۔تاہم اگر عراق کا جھکاؤ امریکہ کی طرف رہتا ہے اور وہ دوسرے ہمسایوں کے بالمقابل اس کا آلۂ کار بن جاتا ہے تو یہ عراق کے حق میں مفید نہ ہوگا۔اگر یہ امریکہ کا ساتھ دیتا رہا اور اس کی کٹھ پتلی بن کر رہا تو ہوسکتا ہے کہ عراق- ایران تناؤ کا پھر سے آغاز ہوجائے۔ لہٰذا عراق کو امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کے معاملے میں بہت محتاط رہنا پڑے گا۔ عراق کو کسی بھی صورت امریکہ کو یہ اجازت نہیں دینی چاہئے کہ وہ اس کے ہمسایوں کے خلاف عراقی سرزمین استعمال کرے۔ ساتھ ہی ساتھ عراق کو اسرائیل کے بالمقابل نہیں آنا چاہئیے۔ چونکہ تکنیکی لحاظ سے عراق اسرائیل کے ساتھ ابھی تک حالتِ جنگ میں ہے۔ لہٰذا اسرائیل کے ساتھ اس کے تعلقات ایک حساس معاملہ ہوگا۔
جواب دیں