مشرق وسطیٰ چند اہم عوامل
ایران کے معاملات پر ایک نظر
سوال: صدر ابامہ کی ایران سے متعلق پالیسی کیا ہے؟ایران پر مغربی ممالک کے دبائو کے کیا ممکنہ نتائج ہوسکتے ہیں؟
انتخابی مہم کے دوران صدر اوباما نے افغانستان کی صورت حال، پاک بھارت تعلقات ، امریکہ ایران تعلقات اور مشرق وسطیٰ کے عمومی مسائل پر بڑے بیانات دیے ۔ چنانچہ یہ تو قعات باندھ لی گئی تھیں کہ ان کے دور صدارت میں ان تمام امور سے متعلق پالیسی میں تبدیلی آئے گی۔ تاہم یہ حقیقت ہمیشہ سامنے رہے کہ انتخابی مہم کبھی بھی سنجیدہ عمل نہیں ہوتا ہے۔ جب وہی امیدوار حکومت کا حصہ بنتا ہے تو اس کے سامنے حقائق تبدیل ہو جاتے ہیں۔ جب وہ صرف امیدوار ہوتا ہے تو پریشر گروپوں کی طاقت کا درست اندازہ نہیں لگا سکتا خصوصاً مشرق وسطیٰ کے معاملے میں اسرائیلی لابی کی طاقت کا۔
لگتا ہے کہ صدر اوباما ابھی بھی ان مسائل کا حل ڈھونڈ نے میں سنجیدہ ہیں۔ خصوصاً ایران سے متعلق تو جو کچھ انھوں نے الیکشن مہم میں کہا تھا وہ اس پر قائم نظر آتے ہیں۔ ایران کے ساتھ ہر محاذ پر مذاکرات کے آغاز کا عندیہ دے کر صدر اوباما نے اپنے پیشرو صدر بش کی نسبت بڑا دلیرانہ فیصلہ کیا تھا ان میں ایٹمی معاملہ پر مذاکرات بھی شامل تھے۔ تاہم اس وقت صورت حال الجھ کر رہ گئی ہے۔ اوباما انتظامیہ ایران کے ایٹمی معاملہ پر سخت موقف جاری رکھے ہوئے ہے اور ایران کو سخت پابندیوں کی دھمکیاں دیئے رکھتی ہے۔ پھر اسی دور صدارت میںایران اورامریکہ کے درمیان تازہ مذاکرات کا آغاز کرنے کی باتیں بھی ہوتی رہتی ہیں۔ اس ضمن میں کھلے رابطے تو سب کو نظر آرہے ہیں لیکن یہ بات بھی عقل تسلیم کرتی ہے کہ کچھ نہ کچھ چھپے رابطے بھی کام کر رہے ہیں۔ صدر اوباما ایک حقیقت پسند انسان ہیں چنانچہ وہ جانتے ہیں کہ خطے کے مسائل کا حل ایران کی شمولیت کے بغیر ممکن نہیں ہے کیونکہ وہ خلیج میں واقع سب سے اہم نوعیت کا ملک ہے۔ اس میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ ایران حزب اللہ اور حماس کے ساتھ اپنے تعلقات کے باعث خطے کے معاملات پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مزید براں اس کی افغانستان کے ساتھ ایک طویل سرحد ہے جس کے باعث ایران کے اس علاقے میں ثقافتی تعلقات کی اپنی ہی نوعیت ہے جو کہ زمانہ قدیم سے قائم ہیں اور ایران نے ان کی بڑی احتیاط کے ساتھ آبیاری کی ہے۔
اسی طرح ایران نے عراق کے بحران کو بڑی کامیابی کے ساتھ اپنے حق میں استعمال کیا ہے۔ کیونکہ ایران نے صدام حسین کی جارحیت کا آٹھ سال تک سامنا کیا تھا اس لیے عراق میں بعث پارٹی سے ایک منتخب حکومت کے ہاتھوں اقتدار کی منتقلی ایران کے لیے روشنی کی کرن تھی خصوصاًاس لیے بھی کہ نئی حکومت ایرانی نقطہ نظر سے شیعہ مسلک سے بھی وابستہ تھی۔ ایران نے اپنے ثقافتی اور مذہبی روابط استوار کرکے عراق کے اندر موجودجنگجووئوں کے ساتھ فکر ی ہم آہنگی بھی بنالی ہے۔ ان روابط کے بہترین استعمال سے خطے میں ایک مضبوط قوت بن جانے کے بعد ایران کو اس علاقے کے معاملات سے بے دخل کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ اوباما بھی اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں اور یہ جانتے ہیں کہ ایران کی یہاں کے معاملات سے واقفیت اس خطے کے مستقبل اور یہاں ہونے والے مذاکرات اور ان میں پیش رفت کے لیے انتہائی اہم اور نتیجہ خیز عنصر ہو سکتا ہے۔
اس پیش منظر میں ایران امریکہ تعلقات ایک دلچسپ دور سے گذر رہے ہیں جس میں امریکہ اس حقیقت کو باور کرتا چلا جا رہا ہے کہ ایران اس خطے میں ایک ابھرتی ہوئی طاقت ہے اور یہ کہ ایران میں اتنا دم خم ہے کہ وہ ارد گرد کی دنیا پر اپنے اثرات مرتب کر سکے۔ دونوں فریق اس موقع پر ایک دوسرے کو پرکھنے کے مرحلے میں ہیں ۔اوباما کے لیے ایک اہم بات یہ ہے کہ ہر مسئلے کا عسکری حل سوچنے والی اسرائیلی لابی کے مقتدرلوگ روشن خیال نہیں ہیں ان کی تو شدید خواہش رہی ہے کہ ایران کی ایٹمی تنصیبات کو بموں سے اڑا دیاجائے۔ صدر اوباما نے اسی مخصوص طبقے کے دبائو کا سامنا کیا ہے اور عموماً اسرائیل کو جارحانہ قدم سے روکے رکھنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی ہے کیونکہ ایران کے خلاف امریکہ یا اقوام متحدہ کے کسی بھی جارحانہ قدم کا مطلب بڑی تباہی ہو سکتا ہے۔ انہیں احساس ہے کہ کوئی بھی ایسا قدم معاملات کو اتنا پیچیدہ بنا دے گا کہ اس غیر دانشمندانہ اور عاقبت نا اندیش فیصلے کے نتائج کو سمیٹنا انتہائی مشکل ہو جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکہ ایران کے ایٹمی پروگرام کی مخالفت جاری رکھے ہوئے ہے۔ جب ایران میں انتخابات ہوئے اور وہاں احتجاج کا ایک دور چلا تو امریکی میڈیا جسے زیادہ تر امریکی حکومت لقمے دے رہی ہوتی ہے- اور امریکی خفیہ ایجنسیوں نے احمدی نژاد کے خلاف ایک مضبوط موقف پر مبنی تحریک چلائی۔ ایرانی اسٹیبلشمنٹ نے یہ بات نوٹ کی کہ ان احتجاجی مظاہروں کو خوب ہوا دی گئی تھی اور ایران میں ایک نرم رو انقلاب برپا کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔
مغرب نے کوشش کی ہے کہ ایران کے اندر سے اٹھنے والی آواز کو انقلابِ ایران کے بعدپیدا ہونے والی سوچ اور قیادت کے خلاف استعمال کیا جا سکے۔ کئی دہا ئیوں سے ایران پر ایک الزام یہ ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ کی شدت پسند تحریکوں کا بہت بڑا حمایتی ہے ۔ بظاہر لگتا ہے کہ ایران حزب اللہ اور حماس کو فعال مدد ، ہتھیار ،تربیت اور رضا کار فراہم کرتا رہتا ہے جو کہ مغرب کے نزدیک دہشت گرد تحریکیں ہیں۔ یہ وہ پس منظر ہے جس میں مغرب ایران کو ہمیشہ دہشت گرد ریاست کے طور پر دیکھتارہا ہے حتیٰ کہ جب ایران نے اپنے اقتصادی مسائل بالخصوص اپنے خلاف لگنے والی پابندیوں کو غیر موثر کرنے کے لیے لاطینی امریکہ تک رسائی حاصل کرنا چاہی تو اسے بھی امریکہ کے عقب میں حالات خراب کرنے کی کوشش سے تعبیر کیا گیا۔
اس سب کے باوجود دونوں ممالک نے رابطے جاری رکھے تاکہ کسی طرح ایسے مشترکہ مقام کو تلاش کیا جا سکے جہاں دونوں کے مفادات اگر کسی طور یکجا نہیں بھی ہو سکتے تو کم از کم اپنی اپنی حیثیت میں ہی پورے ہوتے رہیں۔ اور اس محاذ آرائی کو ختم کیا جا سکے جو گذشتہ 27 برس سے جاری ہے۔ ایران، مغرب بالخصوص امریکہ کے ساتھ جاری اس مکالمے میں سوچ کی تبدیلی کا متقاضی رہا ہے ۔ اس کی خواہش رہی ہے کہ مغرب اس حقیقت کو تسلیم کر لے کہ ایران کوئی دوسرے درجے کی طاقت نہیں ہے۔ اس ساری گفتگو میں نصف جدوجہد تو اس بات پر مبنی ہے کہ مغرب دنیا کے اس خطے میں ایران کی درست پوزیشن کو تسلیم کرے ۔
اگرچہ ایران اور مغر ب کے درمیان ڈائیلاگ کا یہ سلسلہ جاری رہا ہے۔ تاہم یہ ڈائیلاگ ابھی بھی بامعنی اور نتیجہ خیزنظر نہیں آتے۔ دونوں انتہائی درجے پر مبنی اپنی پسند کے نتائج سامنے رکھ کر آغاز کرتے ہیں ۔ امریکہ کا تقاضہ ہوتا ہے کہ ایران اپنے ایٹمی پروگرام کو مکمل طور پر ختم کر دے جو کہ ایران کے لیے کسی صورت قابل قبول نہیں ہے ۔ضروری ہے کہ کسی ایسے سمجھوتے پر پہنچا جائے جس میں ایران کے وقار اور مفادات کا تحفظ کیا جا سکے۔ا بھی تک تو امریکہ نے ایران کو گھیرے رکھنے کی پالیسی سے کنارہ کشی اختیار کرنا تو دور کی بات اس میں کوئی تبدیلی بھی نہیں کی۔ یہ اس کی روایتی پالیسی ہے اور اس پالیسی میں کسی نمایاں تبدیلی کی توقع رکھنا ابھی تک ممکن دکھائی نہیں دیتا ۔ البتہ اوباما کی اپنی پوزیشن میں تبدیلی نمایاں نظر آتی ہے۔
یہ بات بھی ناممکنات میں سے ہے کہ ایران مغرب کے دبائو کا شکار ہو جائے گا۔ ایرانی ایک خوددار قوم ہیں اورایسے کوئی زمینی حقائق او ر وجوہ نظر نہیں آتے جن کے نتیجے میں ایران اس دبائو کے سامنے ٹوٹ پھوٹ جائے۔ ایران نے نہ صرف اس دبائو کو برداشت کیا ہے بلکہ اس سے انکار نے ایرانی قوم کے حوصلوں کو پست نہیں ہونے دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ مغرب ایران کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرکے ہی اسے ملائم کر سکتا ہے کیونکہ اسے جدید ٹیکنالوجی اور دیگر بنیادی نوعیت کی ضروریات اشد درکار ہیں۔ اگرچہ ایران کے ساتھ امریکہ کی دشمنی اور پابندیوں نے ایران میں ترقی کا پہیہ سالہاسال سے سست کر رکھا ہے پھر بھی اس نے اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے باوجود نتائج سے بے پروا ہو کر اپنی منزل کی طرف سفر جاری رکھا ہوا ہے۔
شدت پسندامریکی اس بات کو سمجھتے ہیں کہ پابندیوں سے کامیابیاں حاصل نہیں ہو پائیں۔یہ سوال سنجیدہ جواب کا متقاضی ہے کہ کیا ایران کے خلاف سخت پابندیوں سے کوئی نتائج حاصل ہو سکتے ہیں جبکہ اب ایران کی پوزیشن ناقابل تاخت ہے تاہم ایران اور مغرب کے درمیان ایک درجہ کی مفاہمت بھی خطے اور خود ان کے اپنے مفاد میں ہے۔
سوال: ایران کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کی مہم میں چین اور روس کا کردار کیا ہے؟
جہاں تک چین اور روس کا تعلق ہے تو ہمیں ایران کے خلاف امریکہ کی طرف سے لائی جانے والی قراردادوں کی تاریخ پر نظر ڈالنا ہو گی ۔ امریکہ نے ہمیشہ ان قراردادوں کے لیے انتہائی سخت ڈرافٹ کی شکل میں ابتدا کی لیکن پھر چین اور روس کی طرف سے ویٹو کے خدشے کے پیشِ نظر اس نے پس پردہ مذاکرات کے باعث ان کے متن میں نرمی کر دی۔ چین اور روس انفرادی حیثیت سے اور اجتماعی طور پر بھی ایران کے خلاف اس سے زیادہ سخت پابندیوں کے حمایتی نہیں ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ پابندیاں مقصد فوت کر دینے والے عمل کے سوا کچھ نہیں۔ انہیں یہ بھی احساس ہے کہ اس طرح کی پابندیاں ایران کے اندر سخت رو اور جنگجو یانہ سوچ رکھنے والے افراد کو مزید مضبوط کریں گی۔ ایران کی خوشحالی میںحصہ دارہونے کے باعث چین اور روس کو بہت کچھ اور بھی دیکھنا پڑ رہا ہے۔ دونوں طاقتوں کے ایران کے ساتھ، بالخصوص اقتصادی نوعیت کے معاملات میں، انتہائی مضبوط تعلقات ہیں۔ چین کے ایران کے ساتھ انتہائی تیزی سے بڑھتے ہوئے تجارتی تعلقات ہیں ۔ روس نے ایران کو ایٹمی ری ایکٹر فراہم کیا ہے اور وہ ایران کے چاہنے پر مزید بھی فروخت کرنے کی خواہش رکھتا ہوگا۔ ایران نے روس کو انتہائی جدید ائیر ڈیفنس سسٹم کے حصول کے لیے بھاری رقم کی ادائیگی کر رکھی ہے ۔ امریکہ روس پر دبائو ڈالے ہوئے ہے کہ وہ اس سودے کو تعطل میں ڈالے رکھے یا سرے سے ختم ہی کر دے۔
دوسری طرف چین کے امریکہ کے ساتھ بڑے وسیع تعلقات ہیں۔ اوباما نے اپنے حالیہ دورہ چین میں تقریباً یہ تسلیم کر لیا ہے کہ چین نئے منظر نامے میں ابھر تی ہوئی طاقت ہے۔ ایک موقع پر وہ یہ تجویز دیتے نظر آئے کہ اس وقت دو طاقتیں ہیں امریکہ اور چین یعنی G2 اور یہ کہ یہ دونوں عالمگیر مسائل کا حل نکال سکتی ہیں یا کم از کم دنیا کی اس سلسلے میں رہنمائی کر سکتی ہیں۔ اسی طرح روس کے بھی امریکہ کے ساتھ یورپین سیا ست کے باعث حساس نوعیت کے تعلقات ہیں اور نیٹوکے مشرق کے طرف بڑھتے ہوئے پھیلائو کی وجہ سے روس کے لیے یہ معاملات انتہائی نازک بھی ہیں اس پرمستزادیہ کہ(Strategic Arms Reduction Treaty) یعنی START کی معیادختم ہو رہی ہے اور بہت جلد ایک نئے معاہدے پر مذاکرات متوقع ہیں۔ یہ وہ حالات ہیں جن میں نہ تو روس اور نہ ہی امریکہ ایک دوسرے کو نظر انداز کر سکتے ہیں۔
یہ وہ منظرنا مہ ہے جس میں چین اور روس واشنگٹن کے ساتھ اپنے تعلقات کو اس نہج پر استوار رکھنا چاہتے ہیں کہ ایران یا ایران کا ایٹمی پروگرام ان کے اپنے دوطرفہ تعلقات کی راہ میںبہت بڑی رکاوٹ نہ کھڑی کر دے ۔وہ بہت محتاط ہیں لیکن ایک مفروضہ یہ بھی ہے کہ ایران کے خلاف بہت شدید اور سخت پابندیوں کی مخالفت کے باوجود چین اور روس یہ بھی نہیں چاہتے کہ ایران ایک ایٹمی قوت بنے چنانچہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ دونوں ممالک پریشان کن صورت حال سے دوچار ہیں۔ دونوں چاہتے ہیں کہ ان کے ایران کے ساتھ تعلقات خطرے میں نہ پڑیں اور دوسری طرف وہ یہ بھی چاہتے ہیںکہ امریکہ اور مغرب انہیں بین الا قوامی سطح پر ایک ذمہ دار کردار کے حامل ممالک سمجھیں۔ مختصراً یہ کہ چین اور روس امریکہ کی پوزیشن کو آہستہ آہستہ کمزور کرنے پر کمر بستہ ہیں اور غالب امکان نظر آتاہے کہ وہ اس میں کامیاب بھی ہو جائیں گے۔
سوال: آپ امریکی دبائو کو ایران کے اندر کس طرح دیکھتے ہیں؟ یہ ایران کے سماجی اور سیاسی پہلوئوں کو کس طرح متاثر کرے گا؟
ایران نے بیرونی دبائو کا جواب مقامی استعداد اورصلاحیت کار میں اضافے اور بہترتنظیم نو کے ذریعے دیاہے ۔ دوسرے الفاظ میں یہ پابندیاں ایران کے لیے ایک نعمت غیرمترقبہ ثابت ہوئی ہیں کیونکہ ان کی وجہ سے ایران کے لیے ممکن ہو سکا ہے کہ وہ ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کی منازل طے کر سکے اگرچہ ابھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس نے خود انحصاری کی منزل حاصل کر لی ہے ۔ بظاہر جو ٹیکنالوجی وہ استعمال کر رہا ہے اس کا مقابلہ مغربی ممالک کے زیر استعمال جدید ترین ٹیکنالوجی سے نہیں کیا جا سکتا لیکن ایران کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ اس کے پاس ایک بڑی ہی جدید فوج ہے جو جارحانہ عزائم نہیں رکھتی لیکن اس کی نظریں اپنے ملک کے دفاع پر مرکوز ہیں بالخصوص ساحلی علاقوں کے دفاع پر اور اس نے وقت پڑنے پر اپنی ان صلاحیتوں کا مظاہرہ بھی کیا ہے۔
جہاں تک ایران کی اندرونی صورت حال پر ان پابندیوں کے اثرات کا تعلق ہے تویقینا حکومت کو عوام کا دبائو بھی برداشت کرنا پڑ رہا ہے لیکن یہ ایسا دبائو نہیں ہے جو ایران کے ایٹمی پروگرام کی قومی پالیسی کو تبدیل کر سکتا ہو۔ ایٹمی پروگرام عوام میں انتہائی مقبول ہے اور اس مقبولیت کے کئی اسباب ہیں مثلاً خودانحصاری، اسرائیل ،بھارت، اور پاکستان کا ایٹمی ممالک ہونا، ایران کی سا لمیت اور آزادی کو درپیش خطرات وغیرہ۔ حکومت کے دبائوبرداشت کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ ایرانی معاشرہ میں بہت لچک ہے اور اس میں بے حسی اور سکوت کی کیفیت نہیں ہے۔ انقلابِ ایران اب ماضی کا حصہ بن چکا ہے او ربہت سے لوگوں کو یہ احساس ہے کہ جو خطرات و خدشات انقلاب ِایران کو ابتدائی دور میں ہو ا کرتے تھے اب وہ نہیں رہے اس لیے اب ایرانی عوام کے لیے زیادہ اچھی سودا بازی کی جا سکتی ہے ۔ایران میں حکومت جن پالیسیوں کو وضع کرتی رہی ہے یا جن کے لیے کوشاں رہی ہے وہ کسی نہ کسی طرح تبدیلی یا اصلاح کا جواز بھی بنتی رہی ہیں-مثلاً اسلامی انقلاب کی ابتدا سے ایرانی حکومت نے تعلیم نسواں کی حوصلہ افزائی کی ہے چنانچہ ایرانی خواتین کی ایک بڑی تعداد اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی ہے۔ غالب امکان یہ ہے کہ یونیورسٹیوںمیں اس وقت مردوں سے زیادہ خواتین تعلیم حاصل کر رہی ہیں جن کی مختلف پیشوں میں کام کرنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ جب حکومت نے ان معاملات میں لوگوں کی سوچ کو خود مختارکر ہی دیا ہے تو وہ اس حیرت کا شکار بھی ہو رہے ہیں کہ پھر انقلابیوں نے ان پر جس سخت پردے اور دیگر پابندیوں کو لاگو کیا تھا انہیںجاری رکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ چنانچہ تبدیلی کے لیے فضا کے ساز گار ہونے کا مرحلہ یقینا موجود ہے۔
یہی صورت حال انسانی حقوق کے دیگر پہلوئوں کی ہے ایرانی معاشرہ بہت زیادہ تعلیم یافتہ ہے جس میں وہ لوگ بھی کتابوں کے خریدار نظر آتے ہیں جو بہت زیادہ امیر اور مالدار نہیں ہیں۔چنانچہ ایسی سوسائٹی جو بہت زیادہ باخبر بھی ہو اور مواصلاتی انقلاب کے ایک ایسے دورمیں زندہ ہو جہاں پوری دنیا کی چیزیں اس تک پہنچ رہی ہوں تو وہ یقینا اس بات پر حیران و پریشان ہوگی کہ انہیں دنیامیں دیگر اقوام کی طرح آزادیٔ اظہار کا موقع میسر کیوں نہیں ہے ۔ چنانچہ یہ ایک فطری اور جائزجدوجہد ہے اور اسی طرح کی جدو جہدآئندہ بھی جاری رہے گی تاہم ایران کا قدامت پسند طبقہ تبدیلی سے خائف ہے۔ اس خوف کی ایک وجہ ایران کی اپنی تاریخ بھی ہے جس میں شاہ ِایران ایک مثال کے طور پر سامنے ہے۔ وہ باخبر ہیں کہ اگر تبدیلی بہت تیزی سے ہو رہی ہو تو حکومت اپنا اختیار گنوا بیٹھتی ہے اور غیر متوقع نتائج سامنے آجاتے ہیں ۔ اس خوف و خطرے نے حکومت کو اور زیادہ قدامت پسند بنا دیا ہے۔
اس سب کے باوجوداحمدی نژاد سے قبل اصلاحات کاا یک دور گزرا تھا جس میں کوئی انقلابی کیفیت پیدا نہیں ہوئی تھی بلکہ یہ ایک تدریجی عمل تھا ۔ بہر حال ایران کو اپنی راہ خود تلاش کرنا ہے کوئی باہر سے آکر کچھ نہیں کرے گا۔ بہتر انصاف ، دولت کی بہتر تقسیم ، اظہار رائے کی آزادی جیسے انسانی حقوق کے پہلووئو ںپر ایرانیوں کی کامیابی خالصتاً اندرونی جدوجہد پر مبنی ہونی چاہیے اور ایسا لگتا ہے کہ اس جدو جہد کی سمت مثبت ہی ہوگی۔ غالباً آج کا ایران انقلاب کے دور کی نسبت کم راسخ العقیدہ ہے لیکن پھر بھی انقلاب کی روح کے ساتھ ان کا بڑا مضبوط رشتہ قائم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایران کو محاصرے میںلینے کی دھمکی دی جاتی ہے تو صورت حال مختلف ہو جاتی ہے۔ ایرانی اپنے اندرونی اختلافات کو بھلا کر یکجا ہو جاتے ہیں کیونکہ ان میں قومیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ وہ اپنی اندرونی جدوجہد کو موقوف کر دیتے ہیں اور اپنے اختلافات کو بھلا دیتے ہیں جیسا کہ اس وقت ہوا جب صدام حسین نے ایران پر حملہ کیا تھا۔ ایرانیوں کی یہ وہ خصو صیت ہے جس کا ادراک مغرب نہیں کر سکتا۔
اس کے بالکل برعکس مغرب اختلاف رائے رکھنے والے ایرانیوں کو مسلسل رقوم فراہم کر رہا ہے اور ٹیلی ویژن اسٹیشن قائم کر رہا ہے تاکہ ایرانیوں کو اظہار رائے کی آزادی، حقوق نسواں اور اسی طرح کے دیگر نعروں کے نام پر حکومت کے خلاف کھڑا کیا جا سکے لیکن ایٹمی مسئلے پر ایران میں کوئی ایک بھی ایسا نمایاں گروپ نہیں ہے جو مغرب کو خوش کرنے کے لیے ایٹمی پروگرام کو ترک کر دینا چاہتا ہو۔
سوال: سعودی عرب اور یمن کی سرحدپر بڑھتی ہوئی کشیدگی کی وجوہات کیا ہیں؟ عربوں اور ایران کے تعلقات پر اس کشیدگی کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔
یمن میں اندرونی تفریقات کی ایک طویل تاریخ ہے جنہوں نے ملک میں نظم و ضبط کو تاراج کیے رکھا ہے۔ اس کی سرحد پر ایسے غیر مقبوضہ اور غیر آباد علاقے ہیں جنہیں القاعدہ یا اس طرح کے دیگر عوامل اپنے زیر استعمال لا سکتے ہیں لیکن سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ القاعدہ سعودی عرب کو اپنے دبائو میں رکھنا چاہتی ہے کیونکہ سعودی عرب امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات میں بڑا ثابت قدم رہا ہے۔
تاہم جو بات معاملات کو پیچیدہ بنا رہی ہے وہ مغرب کا یہ رویہ ہے کہ وہ بعض اوقات اس خطے میں اپنے دوستوںکو بھی دبائو میں رکھنا چاہتا ہے۔ وہ ہمیشہ اس خوف میں مبتلا رہا ہے کہ کہیں سعودی عرب ، پاکستان یا کوئی بھی اور ریاست مغرب کے کنٹرول سے نکل نہ جائے اور اپنے فیصلے خود مختاری سے نہ کرنے لگے ۔ کیونکہ یمن ان سرگرمیوں کے لحاظ سے گرما گرم علاقہ ہے اس لیے سعودی حکومت اس لحاظ سے درست ہے کہ وہ یمن میں ان مسلح گروہوں کے وجود کی اجازت نہیں دے سکتی مبادا وہ قابو سے باہر ہو جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس موقع پر بھر پور ردعمل کا مظاہرہ کر رہا ہے ۔ اس مسئلے کو ان پہلوئوں سے بہ آسانی سمجھا جا سکتا ہے لیکن مغربی میڈیا اس معاملے میںفرقہ پرستی کے عنصر کو گھسیٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔
ایران خارجہ تعلقات اور سفارت کاری میںمحتاط رویہ رکھتا ہے مثلاً جب ایران کا سعودی عرب کے ساتھ سخت جملوں کا تبادلہ ہو ا تو اس نے کوشش کی کہ یہ صرف دو حکومتوں کے درمیان رہے۔ سعودی عرب نے یمن کے معاملات میں ایران کی مداخلت کے حوالے سے شبہ کا اظہار کیا تھا۔ ایران نے اس کا جواب دیا- تاہم یہ احساس ہو رہا تھا کہ وہ ایک مشکل صورت حال سے دوچار ہے۔ ایران نے کبھی بھی القاعدہ کی ایک تحریک کے طور پر حمایت نہیں کی ہے لیکن اگر معاملات کسی اور نہج پر پہنچ جائیں تو وہ اپنے معاملات میں القاعدہ کے فراریوںکو کسی صورت برداشت نہیں کرے گا۔ اسی طرح افغانستان کے معاملے میں ایران نے طالبان کی ہمیشہ مخالفت کی ہے کیونکہ اس نے انہیں ہمیشہ سنی فکر سے منحرف اور اسلام کی تاویل میں انتہائی تنگ نظر گردانا ہے جو کہ ایران کی اسلام سے متعلق سوچ کے دشمن ہیں۔
امریکہ نے سیاست کاری کے سارے ہنر عربوں کی رائے کو ایران کے خلاف کر دینے پر آزما رکھے ہیں وہ عربوں کو مسلسل اس خوف کا شکار کیے ہوئے ہے کہ ایران ایٹمی قوت بن سکتا ہے۔ مغربی پروپیگنڈے کا ایک اور مستقل موضوع یہ ہے کہ وہ عربوں اور ایرانیوں کے درمیان افتراق پیدا کرنے کے لیے انہیں یہ باور کرواتا رہتا ہے کہ ایران خلیج اور مشرق وسطیٰ میں قائدانہ کردار حاصل کرنا چاہتا ہے ۔ سعودی عرب میں شیعہ اقلیت کی شکل میں موجود ہیں جو کہ سعودی عرب کے تیل سے مالامال علاقے کے باسی ہیں۔ مغرب سعودی عرب کو اس خدشے میں مبتلا کیے رکھتا ہے کہ اگر سعودی عرب کے تیل پید ا کرنے والے اس مشرقی حصے میں کوئی شیعہ انقلاب آگیا یا ایرانی اس خطے میں داخل ہوگئے تو سعودی عرب کے استحکام خصوصاً اس کے تیل کے ذخائر کے تحفظ کو خطرہ لاحق ہو جائے گا۔
اسی طرح کا خوف علاقائی میڈیا کی نسبت مغربی میڈیا نے ایک پالیسی کے تحت پیدا کر رکھا ہے جو کہ برسہا برس سے اس شیعہ سنی عنصر کے ذریعے رخنہ پیدا کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ امریکہ نے رخنہ پیدا کرنے و الے اس عنصر کو بہت پہلے سے نوٹ کر رکھا تھا چنانچہ اس نے عراق میں اسے بڑے برے انداز میں استعمال کیا جس کے نتیجے میں ہزاروں کی تعداد میں اندوہناک اموات واقع ہوئیں حتیٰ کے مقدس بارگاہوں پر حملوں کے واقعات رونما ہوئے۔ یہ وہ ہتھیار ہیں جنہیں ایران کے مخالفین اس علاقے میں بڑی کامیابی سے استعمال کر رہے ہیں۔ بہرحال اس علاقے کے لوگوں کے لیے شیعہ سنی کسی بھی لحاظ سے رخنہ ڈال دینے والا عنصر نہیں ہے۔ یہ لوگ اس کی موجود گی میں انتہائی اطمینان و سکون کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔ اگرچہ ہمسایوں کے ساتھ معاملات کے نقطہ نظر سے انقلابِ ایران کے ابتدائی دور سے ہی کشیدگی کی موجودگی منطقی طور پر بھی درست نظر آتی ہے پھر بھی اس کی کوئی نمایاں شہادت موجود نہیں ہے کہ ایران کے توسیع پسندانہ عزائم ہیں۔
عربوں اور ایرانیوں کے درمیان موجود بد اعتمادی سے انکار تو نہیں کیا جا سکتا پھر بھی عرب ممالک اور ایران اس حدتک ضروردانش کا مظاہرہ کر رہے ہیں کہ اس بچھائے ہوئے جال میں آسانی سے نہیں پھنس رہے۔ شاید ایران کی طرف سے عرب دنیا کو بہت واضح پیغام ہی یہ ہے کہ اس کے کوئی قائدانہ ارادے نہیں ہیں اور وہ ہمسایوں کے ساتھ اسی طرح کے تعلقات رکھنا چاہتا ہے جس طرح کے متحدہ عرب امارات اور دوبئی کے ساتھ ہیں -جن کی نوعیت یہ ہے کہ متحدہ عرب امارات ایران کی تجارت کے بڑے حصے کو کنٹرول کر رہا ہے۔
انقلاب کے رہنما امام آیت اللہ خمینی ہمیشہ یہ بات دہراتے رہے کہ انقلابِ ایران کوئی فرقہ وارانہ انقلاب نہیں بلکہ یہ خالصتاً مسلم یا اسلامی انقلاب تھا۔ تاہم ایران میں ایسی دیگر آوازیں بھی شامل رہی ہیں جو انقلاب ِایران کو اول و آخر شیعہ انقلاب ہی گردانتے ہیں۔ یہ تنائو تو وہاں موجود ہے لیکن یہ ایسا تنائو نہیں ہے جس سے کسی اور ریاست کو پریشان ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ اس اندرونی بحث و مباحثہ سے قطع نظر ایران کے بحیثیت ریاست فیصلے ہمیشہ عملی اور نتیجہ خیز ہوتے ہیں۔ ایران حزب اللہ تعلقات محض شیعہ تعلق کی وجہ سے نہیں ہیں۔ یہ تعلقات در حقیقت اس ہولناک نا انصافی پر مبنی رویے کے خلاف ہیں جو فلسطینیوں او ر لبنان کے ساتھ روا رکھا گیا ہے اور پچھلی چھ دہائیوں سے ان کے علاقوں کو بارہا تاراج کیا گیا ہے۔ حماس سنی اکثریت کی تنظیم ہے لیکن اس کے ایران کے ساتھ انتہائی شاندار تعلقات ہیں۔
حقیقت پر مبنی صورت حال یہ ہے کہ امریکہ، ایران/ شیعہ کے خلاف عرب / سنی محاذ کھڑا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ یہ کھینچا تانی کی جنگ ہے اور اہم بات یہ ہے کہ صدر اوباما ایران کے ساتھ معاملات نمٹانے کے لیے پرامن اور معقول ڈائیلاگ پر استقامت دکھاتے ہیں یا نہیں۔
(ترجمہ: سلمان طاہر)
جواب دیں