مباحث، جنوری ۲۰۱۰ ء
وزیرستان آپریشن
سوات میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کے بعد جنوبی وزیرستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے لئے فوجی آپریشن جاری ہے۔دینی جرائد کے ہاں اس ضمن میں آپریشن کی حمایت اور مخالفت دونوں طرح کی آرا ء ملتی ہیں ۔ آراء کا خلاصہ حسب ذیل ہے ۔
”سوئے حجاز ” لکھتا ہے ” جب نیٹو فورسز کو افغانستان ہیں کامیابی نہ مل سکی تو وزیرستان آپریشن کی صورت میں اس نے یہ جنگ بڑی خوبصورتی سے پاکستان منتقل کر دی ہے … آپریشن شروع ہوتے ہی نیٹو فورسز نے پاک افغان بارڈر سے تمام چوکیاں ختم کردی ہیں تاکہ دہشتگردوں کی دونوں اطراف میں آمدورفت با آسانی ہو سکے ۔اسی طرح کی رائے کا اظہا ر ”ندائے خلافت” نے بھی کیا ہے ۔[14]
” الحرمین ” نے مطالبہ کیا ہے کہ ” امریکیوں کے حکم پر شروع کیا گیا آپریشن بند کیا جائے”[15]
”ضیائے حرم ”کے خیا ل میں دہشتگرد آرمی کا زیادہ دیر مقابلہ نہیں کر سکتے ۔۔۔ لیکن دہشتگردوں کے مراکز کے خلاف جوں جوں گھیرا تنگ ہو رہا انکی وارداتوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور جماعت اسلامی ، جمعیت علماء اسلام اور بعض دیگر عناصر کی طرف سے فوجی کارروائی کی مخالفت کے باعث دہشتگردوں کو حوصلہ اور اخلاقی مدد مل رہی ہے ۔۔۔ وزیر اعظم کو چاہیے کہ وہ عوام کو بتائیں کہ پاک فوج نے یہ جنگ جیتنی ہے اور اسکے بعد پاکستان کندن بن کر نکلے گا ۔ [16]
” معارف رضا” نے اس ضمن میں پاک فوج کے کردار کو ان الفاظ میں سراہا ہے ، ”افواج پاکستان آج سپاہ حیدر [17] کا کردار ادا کر رہی ہیےاور اس طرح و ہ نہ صرف مسلمانان پاکستان بلکہ عالم اسلام کے شکریے اور اللہ کی طرف سے اجر عظیم کی مستحق ہے ۔[18]
امریکی وزیر خارجہ کا دورہ پاکستان
امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے 28اکتوبر 2009ء سے پاکستان کا تین روزہ دورہ کیا۔ جس میں انہوں نے حکومتی ذمہ داران سے ملاقاتوں کے علاوہ بعض عوامی مقامات کا دورہ بھی کیا ۔”ضرب مومن ” اور ”نوائے اسلام ”نے انکے اس دورےکومحض ایک تفریحی دورہ قرار دیا جس سے مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہو سکے ہیں ۔
”ضرب مومن ”لکھتا ہے ” امریکہ وزیر خارجہ نے پاکستان کی تمام تر قربانیوں کے باوجود اسے ناکامی قرار دے کر بد اعتمادی کی فضاء میں مزید تاریکی گھول دی ہے ”،ہیلری کلنٹن کے اس بیان ” پاکستانی کیری لوگر بل پر تحفظات بتاسکتے ہیں تو امریکا کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ پاکستان میں القاعدہ اور طالبان کے لئے پائی جانے والی ہمدرد ی پر تشویش ظاہر کرے “ پر تبصرہ کرتے ہوئے جریدہ لکھتا ہے ” یہ سب کچھ امریکا مخالف جذبا ت کو دبانے میں ناکامی کے بعد ہیلری کی بوکھلاہٹ کو واضح کر رہا ہے “۔[19]
”نوائے اسلام “ نے اس ضمن میں شذرے میں لکھا ہے ، ”اگرچہ اس دورے کا مقصد دونوں ملکوں کے درمیان پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کرنا تھا لیکن انکے دورے کے اندا ز سے یو ں لگ رہا تھا جیسے کسی ملک کا وائسرائے اپنے مفتوحہ علاقے میں گھوم رہا ہو ۔۔۔۔۔اس اعتبار سے اس دورے کو تفریحی دورہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا ۔ جس پر پاکستانی عوام کے خون پسینے کی کمائی کے کروڑوں ڈالر خرچ ہو گئے ۔[20]
بے نظیر بھٹو قتل کیس
سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کو قتل ہوئے دو سال کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن انکے قاتلوں کا تاحال کوئی سراغ نہیں لگایا جا سکا ۔اس ضمن میں ”سوئے حجاز ” نے اداریہ تحریر کیا ہے ،جس سے محسوس ہوتا ہے کہ جریدے اس کیس میں تاخیر کا زمہ دار موجودہ حکومت کو سمجھتا ہے ۔ جریدہ لکھتا ہے ”صدر آصف علی زرداری کا محترمہ کے قاتلوں کی معرفت کا دعوی کرنے کے باوجود ان پر ہاتھ ڈالنے سے گریز پا ہونا ایسا عمل ہے جس کی کوئی بھی اچھی توجیہہ نہیں کی جا سکتی ۔اس اہم مقدمے کو سرد خانے میں ڈالنے کی حکومتی کوششوں کے باوجود اب اس میں کئی اہم موڑ آرہے ہیں ،جریدے نے ‘’The Weekend Australian Magazine ‘’کے تجزیے {جس میں جریدے کے مطابق یہ کہا گیا کہ محترمہ کہ شہادت جدید رائفل کی گولی لگنے سے ہوئی } کاحوالہ دیتے ہوئے لکھاہے ” اس سے یہ اندازہ بخوبی ہو جاتا ہے کہ محترمہ کے قتل میں طالبان ملوث نہیں ۔ جریدے نے الزام عائد کیا ہے کہ اس کیس کے حوالے سے ہونے والی تما م تر پیش رفت کے باوجود صدر آصف علی زداری کی طرف سے سابق صدر مشرف پر الزام عائد نہ کرنا شاید امریکہ ، برطانیہ ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے مابین ہونے والی اس خفیہ ڈیل کا نتیجہ ہے جس کے تحت مشرف کو مستعفی ہو نا پڑا اور ہماری حکومت اسے تحفظ فراہم کر رہی ہے،۔[21]
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی سالانہ گلوبل کرپشن رپورٹ اور پاکستان
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی طرف سے شائع کردہ سالانہ گلوبل کرپشن رپورٹ کے مطابق پاکستان کرپشن میں 42ویں نمبر پر ہے ۔ عمومی طور پر مسلم دنیا کا کرپشن کے حوالے سے ریکارڈ اچھا نہیں ہے جبکہ رپورٹ کے مطابق غیر مسلم ممالک میں کرپشن کی شرح مسلمان ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہے ۔”منہاج القرآن ” نے شخصی حکومتوں ، فوجی آمریتوں اور افسر شاہی کو اسکا سبب قرار دیتے ہوئے حسب ذیل تبصرہ کیا ہے ۔
جریدہ لکھتا ہے ، ”دنیا میں پھیلے ہو ئے ان دونوں اقسام کے ممالک کا جائزہ لینے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جہاں بھی پرامن بقائے باہمی کے ساتھ ساتھ احساس ذمہ داری، جمہوریت اور قانون کی بالادستی ہے وہاں خوشحالی امن اور دیانتداری کا غلبہ ہے ،اسکے برعکس جہاں شخصی حکومتیں اور فوجی آمریت کے نتیجے میں عدم تحفظ کا احساس ہے وہاں لا قانونیت ، بددیانتی ، بد امنی اور دہشتگردی کے سیا ہ بادل چھائے ہوئےہیں۔جریدہ مزیدلکھتا ہے ” آج عالمی برادری میں جوہری قوت ہونے کے باوجود وطن عزیز اگر بدعنوان ترین ریاستوں میں شرمندگی سے سر جھکا ئے کھڑا نظر آتا ہے تویہ سارا کچھ یہاں کے مو قع پرست سیاستدانوں، اقتدار پرست فوجی حکمرانوں اور ہوس پرست افسر شاہی کا کیا دھرا ہے ۔[22]
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ:عید الاضحی کے فورا بعد پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا گیا۔ ”ضرب مومن ” نے اپنے تبصرے میں لکھا ہے کہ عید کے مو قع پر اس اضافے کے لئے لوگ ذہنی طور پر تیا ر نہیں تھے ، ایسے میں حکومت کا یہ اقدام لوگوں کی خوشیوں کا خون کر گیا ۔۔موجودہ حکومت عوامی ہے اور عوامی طاقت کی اہمیت سے واقف ہے ، اسے ان مسائل کا ادراک کرنا ہوگا ۔ امید کی جاسکتی ہے کہ حکومت اس اضافے کو واپس لے گی اور قیمت نہ بڑھانے کی کوئی مدت ضرور طے کریگی تاکہ ہمار ی تجا رت خدشات کے نقصانات سے محفوظ رہ سکے ”۔[23]
سقوط ڈھاکہ :16 دسمبر 1971ء کو مشرقی پا کستان کی علیحدگی کے با عث پاکستان دو حصوں میں تقسیم ہو گیا تھا ۔اس سلسلے میں ”اہلحدیث” اور” ضرب مومن ”کا تبصرہ سامنے آیا ہے جس میں امریکہ بھارت اور دونوں جانب کے سیاسی حکمرانوں کو اس تقسیم کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے موجودہ حالات پر بھی تشویش کا اظہا ر کیا گیا ہے ۔
”اہلحدیث ” کے خیا ل میں حکمرانوں نے سقوط ڈھاکہ سے سیاسی اور فوجی اعتبار سے کوئی سبق نہیں سیکھا” جریدہ کا اشا رہ امریکہ کی طرف ہے جیسا کہ جریدے لکھتا ہے ” اس وقت{1971ء میں} امریکہ کے ساتویں بحری بیڑےکے پاکستان کی مدد کے لئے آنے کا بڑا شہرہ تھا ، لیکن اس نے نہ آنا تھا نہ آیا ۔۔۔ جبکہ اس با ت کا اعتراف متعدد امریکی حکام نے بھی کیا ہے کہ امریکہ پاکستان کو توڑنے میں ملوث تھا [24]۔ افسوس کی بات ہے کہ آج بھی پاکستان نے امریکہ سے بہت سی توقعات وا بسطہ کررکھی ہیں حالانکہ ملک کے بہت سے مسائل اسی کے پیدا کردہ ہیں ۔[25]
”ضرب مومن ” کے خیال میں اگرچہ اس سانحے میں بنیادی کردار بھارتی سازشوں کا تھا لیکن بڑا دخل سیاسی رہنماوں کے غلط فیصلوں کا تھا ۔جریدہ لکھتا ہے ” اس وقت کی طرح آج بھی ملک میں اسی طرح کی بدامنی پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جسطرح بھارت نے 1971ء میں مقامی جذباتی گروہ کو استعمال کر کے کی تھی ۔۔۔۔۔ کوشش کی جانی چاہیے کہ سقوط ڈھاکہ سے عبرت حا صل کرتے ہو ئے ہم اپنے قبائلی اور بلوچ بھائیوں کو گلے لگا لیں اور آئندہ کے لئے ایسا لائحہ عمل اختیار کریں کہ کوئی پاکستانیوں کو توڑنے کا سوچ بھی نہ سکے ۔[26]
بلو چستان پیکیج:حکومت کی طرف سے اعلان کردہ بلو چستان پیکیج کے حوالے سے ”نوائے اسلام” نے شذرہ تحریر کیا ہے ۔جریدہ لکھتا ہے ” بلوچستان کا مسئلہ طویل عرصے سے تعطل کا شکا ر ہے ماضی کی حکومتوں کی طرف سے صوبے کو نظر انداز کیے جانے کے نتیجے میں وہاں آزادی کے جذبات نے جنم لیا ۔اب جبکہ حکومت نے مسائل کے حل کے لئے قدم اٹھائے ہیں تو لگتا ہے کہ بہت دیر ہو چکی ہے۔ تاہم ایک امید ہے کہ شاید صورتحال میں تبدیلی آ سکے ۔ضروری با ت یہ ہے کہ حکو مت پیکیج پر عمل درآمد کو یقینی بنائے بصورت دیگر حالات قابو سے باہر ہو سکتے ہیں ۔[27]۔ اسی ضمن میں ”الجامعہ” نے مزید لکھا ہے ” یہ ایک حقیقت کہ آمرانہ اور غیر منتخب حکومتوں کے ادوار میں انصافیا ں ہو ئی ہیں جن میں کسی صوبے کا کوئی استثنا ء نہیں ہے لیکن بلوچستا ن کے زخم زیادہ گہرے ہیں جن کو رفو کرنے کی جدوجہد بے حد ضروری ہے”[28]
گلگت بلتستان انتخابات : گلگت بلتستان کی تاریخ کے پہلے انتخابات حکمران جماعت پیپلز پارٹی نے اکثریت حاصل کی ہے ۔ ” الجامعہ ” نے اس پر تبصرہ کرتے ہو ئےعوام کے جوش وخروش سے شرکت کو خوش آئند قرار دیا ہے ۔جریدے نے امید ظاہر کی ہے کہ ”اگر حکو مت اور اپوزیشن پارٹیاں گلگت بلتستان کے مسائل کو حل کرنے کے لئے اکٹھی ہو جائیں تو یہاں کے دیرینہ مسائل با آسانی حل کیے جاسکتے ہیں ۔۔۔یہ علاقہ اپنی حساسیت کے اعتبار سے بلو چستان سے کسی طرح کم نہیں ہے ۔ حکومت کا وہاں کے عوام کو داخلی خود مختاری دینے کا فیصلہ اگرچہ خاصی تاخیر سے کیا گیا لیکن درست سمت میں ایک اہم قدم ہے ۔[29]
ملک میں جاری دہشت گردی
پاکستان میں دہشت گردی کی کاروائیوں میں فوج اور دیگر سرکاری مراکز سمیت متعدد عوامی مقامات پر حملوں کے ایک سے زائد واقعات میں سینکڑوں لو گ ہلاک ہو چکے ہیں۔اگر چہ دینی جرائد دہشت گردی کی کارروائیوں میں امریکہ کو ناصرف شریک بلکہ بنیادی کردار کے طور پر دیکھتے ہیں ۔ تاہم اسکے باوجود ایک سے زائد آراءملتی ہیں جن میں مسلکی وابستگی کا عنصر بھی کسی حد تک موجود ہے۔
بیشتر دینی جرائد کی رائے میں دہشتگردی کے حالیہ واقعات کےپیچھے امریکہ ، اسرائیل اور بھارت کا ہا تھ ہے جو انکے خیا ل میں پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے بہانے تلاش کر رہے ہیں تاکہ اسکے ایٹمی پروگرام کو اپنے قبضے میں لیا جا سکے۔ جرائد کی آراء کا خلاصہ حسب ذیل ہے ۔
”اہلحدیث”’نے سینیٹر ساجد میر{ صدرمرکزی جمعیت اہلحدیث } کاخطا ب نقل کیا ہے جس میں وہ کہتے ہیں ‘ اس وقت دہشتگردی کا درپیش مسئلہ افغانستان روس جنگ کا نتیجہ ہے ، امریکہ اور روس نے ملکر کوشش کی کہ پاکستان دہشتگردی کی لپیٹ میں آ جائے ، پہلے روس پھر امریکہ اور اب بھارت اس دہشگردی کو آگے بڑھا رہا ہے ۔[30]
”ضرب مومن ”کے خیال میں ٹیکنالوجی کے اس تیز رفتار دور میں دہشتگردی کی ان کارروائیوں کو محض قدیم طرز عمل ا ور ٹیکنالوجی کے حامل طالبان کی کارروائیاں قرار دینا سطحی سوچ کا غماز ہے،اسکی ڈوریاں یقیناکسی منظم طاقت کے ہا تھ میں ہیں ، اور وہ بھا ر ت ، بلیک واٹر اور دیگر ایجنسیز کے علاوہ کوئی اور نہیں ہو سکتا ۔[31]
”ندائے خلافت”کے خیال میں پاکستان میں دہشتگردی کے حسب ذیل اسباب ہیں ۔
بھارت کی پا کستان کا ازلی دشمن ہے وہ پاکستان کو صفحہ ہستی سے مٹانا چاہتا ہے۔ایٹمی طاقت ہونے کے ناطے اسرائیل پاکستان کو اپنے لئے مستقل خطرہ سمجھتا ہے اس لئے اسکی خفیہ ایجنسی موساد کی پاکستان کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہے ۔ پاک چین دوستی کے با عث امریکی چین کا محاصرہ کرنے میں پاکستان کو رکاوٹ سمجھتا ہے اس لئے وہ پا کستان کو راستے سے ہٹانے کے خواب دیکھ رہا ہے اوردہشتگردی کی ایک بڑی وجہ ہمارے حکمرانوں کی غلطیا ں اور عوام کی بے حسی ہے ۔ جریدے کے مطابق امریکہ کی خطے میں موجودگی کی صورت میں امن امان کی کوششوں کا آغازبھی نہیں کیا جاسکتا ۔لہذا پہلے قدم کےطور پر اسلام اور پاکستان دشمن قوتوں کو یہاں سے نکلنا ہو گا۔[32]
طالبان کے بارے میں نرم گوشہ رکھنے والے ‘‘الحق” نے اس حوالے سے ایک مضمون شائع کیا ہے ،مضمون نگار لکھتے ہیں ” طالبان کو جنم دینے والا امریکہ ہی ہے ۔ جب طالبان سے اسکا مقصد پورا ہو گیا تو وہی طالبان امریکہ کی نظر میں دہشتگرد بن گئے ۔یہ بات تو سبھی جانتے ہیں کہ امریکہ کی سی آئی اے اور اسرائیل کی موساد انتہا پسندوں کی تیاری اور تربیت کر کےپوری دنیا میں دہشتگردی کے لئے انہیں استعمال کرتی ہے ‘[33]
”الحامد” کے خیال میں یہودی لابی اور ملک دشمن عناصر مسلمانوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر شور مچاتے ہیں کہ پاکستان میں دہشتگردی ہو گئی اسکو ختم کیا جائے ‘[34]۔”ختم نبوت ” کے خیا ل میں حکومت کوغیر ملکی دہشتگردوں پر نظر رکھتے ہوئے طالبان سے مذاکرات کی راہ اپنانی چاہیے ۔[35]
دہشتگردی اور دینی مدارس
حالیہ دہشگردی کے حوالے سے بعض دینی مدارس اور مذہبی تنظیموں کو بھی مو ر د الزام ٹھہرایا جا رہاہے ۔ اس تناظر میں طالبان سے ہمدردی اور رابطوں کی بنیاد پر دیوبندی مکتب فکر کچھ زیادہ ہی معتوب ہو رہا ہے ، تاہم اہل دیوبند کی طرف سے اس الزام کی با رہا تردید بھی کی جا چکی ہے لیکن اہل دیوبند کا طالبان کے بارے میں نرم رویہ اور طالبان کی طرف سےبیشتر کارروائیوں کو اپنی طرف منسوب کرنے کے باعث انکی تردید بے اثرثابت ہو رہی ہے ۔بعض دیوبندی جرائد نے دہشتگردی کو مدارس سے منسوب کرنے کی تردید کی ہے۔جبکہ بریلوی اور شیعہ جریدے کی نظر میں دیوبندکے وابستگان اس عمل میں شریک ہیں۔
”البلاغ” لکھتا ہے” اسلام دشمن طا قتوں نے پاکستانی معاشرے کو اسلام اور دینی تعلیمات سے برگشتہ کرنے کےلئے بھی جنگی بنیادوں پر کام شروع کر دیا ہے ، دینی مدا ر س اور مساجد سے وابسطہ لوگوں پر دہشتگردی کا لیبل چسپاں کرنے کی کو شش ہو رہی ہے ”[36] ۔ اسی تناظر میں ”ختم نبوت” نے ایک مضمون شائع کیا ہے ۔ مضمون نگار کے خیا ل میں مدارس پر دہشتگردی کا الزام عائد کر کے ان کا تعلق القاعدہ سے جو ڑنے کی حکومتی کوششیں ناکام ہو گئی ہیں۔ اور مدارس پر دہشتگردی کا الزام لگانے والوں کو علم ہو نا چاہیے کہ مدارس کے نصاب میں اسلحہ سکھانے اور چلانے کا کوئی مضمون شامل نہیں ہے[37]۔ ”الشریعہ ” کے خیال میں انتہاپسند جماعتوں کی تنظیم سازی اور ٹرینگ میں دینی مدارس کا کوئی کردار نہیں ہے ۔اور یہ بات قابل غور ہے کہ عالمی سطح پر دہشتگردی کے سب سے بڑےنیٹ ورک القاعدہ کے بیشتر ارکان یونیورسٹیوں اور کالجوں کے تعلیم یا فتہ ہیں ۔ جریدہ مزید لکھتا ہے کہ ‘ موجودہ شدت پسندتنظیموں کی عمر ربع صدی کے لگ بھگ ہے،اور اگر مدارس کی ڈیڑھ سوسالہ پرامن کردار کو نظر انداز کر کے انہیں شدت پسندی اور انتہاپسندی کے موجودہ گروپوں کی تشکیل کا ذمہ دار قراردیا جائےتو یہ درست نہ ہو گا۔[38] ”ضرب مومن”اپنے تبصرے میں لکھتا ہے کہ ‘دہستگردی کی ان کاروائیوںکو مذہبی رنگ دینا ، خصوصا ایک خاص مسلک کو ہدف تنقید بنانے کو کسی طور مثبت ردعمل اور شائستہ طرز فکر نہیں کہا جا سکتا ‘ [39]۔
تاہم دیوبند سے متعلق سخت موقف کے حامل بریلوی جریدے ‘‘معارف رضا ” نے واضح طو پر دہشتگردی کی حالیہ اور سابقہ وارداتوں کو طالبان کی کارروائیاں قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ تمام دہشتگرد تنظیموں کا تعلق وہابیو ں[40] کے مدارس سے ہے ۔جریدے کے خیا ل میں حکومت کو ان تمام افراد اور اداروں پر نظر رکھنی ہو گی جو ان دہشتگردوں کی پشتپناہی کر رہے ہیں اور انٹیلی جنس رپورٹ کے مطابق انہیں افراد کا ر فراہم کر رہے ہیں ۔[41]اسی حوالے سے ”افکار العارف ” جی ایچ کیو پر حملے کے مبینہ ملزم ڈاکٹر عثمان سے کالعدم سپاہ صحابہ کے صدر احمد لدھیانوی کی ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتا ہے” ان لو گو ں کی ملک دشمنوں سے روابط آشکار ہو چکے ہیں ” —”بعض لوگ اس شدت پسندی کووزیرستان میں جاری حالیہ آپریشن کا رد عمل قرار دے رہے ہیں جو حقائق کو غلط رنگ دینے کے مترادف ہے”۔[42]
اسی ضمن میں ”الفاروق ” ایک مضمون شائع کیا ہے ۔ مضمون نگار نے یہودیوں کے مذہبی مدارس میں عسکریت پسندی کی تعلیم کے بارے میں بی بی سی کی خبر کاحوالہ دیتےہوئے لکھا ہے ۔” اگر مسلمانوں کے دینی مدارس ، جہاں فوجی تربیت اور عسکریت کی کوئی تعلیم نہیں دی جاتی ، وہ ہضم نہیں ہو سکتے تو جن یہودی مدارس میں باقاعدہ عسکریت کی تعلیم وتربیت ہو تی ہے وہ کیونکر قابل برداشت ہیں؟ ۔[43]
دینی مسائل
حسب ذیل دینی مسائل بھی رواں دوماہی کے بعض جرائد میں زیر بحث رہے ہیں۔
اسلام میں چہرے کا پردہ اور شیخ طنطاوی [44]کافتوی: خواتین کے چہرے کا پردہ علماء کے مابین اختلافی مسئلہ ہے ۔بعض علماء اسے ضروری خیا ل کرتے ہیں جبکہ کچھ علماء کے خیا ل میں خواتین کے لئے چہرے کا ڈھانپنا ضروری نہیں ۔اطلااعات کے مطابق مصر کی جامعہ الازہرکے شیخ طنطاوی نےطالبات پر کلاس میں نقاب پہن کر داخل ہونے پر پابندی عائد کی ہے ۔ ”الخیر ” نے حسب ذیل تبصرہ کیا ہے ۔
”اسلام دشمنوں نے اسلامی معاشرے سے شرم وحیا کے خاتمے کے لئے جن مسائل کو بطور خاص موضوع بنایا ہے ان میں چہرے کا پردہ بھی شامل ہے۔مسلمانوں کے بعض عیار دشمن بعض مسلمانوں سے ہی یہ کہلواکرکہ ”اسلام میں چہرے کا پردہ نہیں ہے”مسلم خواتین کے سروں سے رداء تقدس اتروانا چاہتے ہیں۔ جریدے نے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں چہرے کے پردے کے حق میں بعض دلائل ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے ” کہ ہمیں شیخ محمد طنطاوی کے مقابلے میں یہ کہنے کا حق ہے کہ نقاب کو ثقافتی روایت کہہ کر اسکی اہمیت کو کم کرنا اہل علم کے شایان شان نہیں ”۔ [45]
ٹریفک قوانین – اسلام کی نظر میں : دینی جرائد عوامی مسائل کے حل کے بارے میں اسلامی تعلیمات سے رہنمائی پر مبنی مضامین بھی شائع کرتے رہتے ہیں ۔ ”وفاق المدارس ” نے ٹریفک قوانین کے بارے میں اسلامی تعلیمات کا احاطہ ایک مضمون میں کیا ۔ یہ مضمون مولانا محمد تقی عثمانی [46] کا تحریر کردہ ہے ۔ مضمون نگار کے خیال میں ٹریفک قوانین کو دین سے الگ کوئی چیز سمجھنا اور انکی پاسداری نہ کرنا غلط سوچ ہے ،اس لئے کہ یہ قوانین انسانی مصلحت پر مبنی ہوتے ہیں اس اعتبار سے انکی پابندی شرعا واجب ہوتی ہے ۔
ٹریفک قوانین کی پابندی نہ کرنے والا اسلامی نقطہ نظر سے قانون شکنی ، وعدہ خلافی ، ایذارسانی اور سڑک کے ناجائز استعمال جیسے چار بڑے گناہوں کا ارتکاب کر رہا ہوتا ہے اور اس قسم کی بےقاعدگی فساد فی الارض کی تعریف میں آتی ہے اس لئے ٹریفک قوانین کی پابندی کرنی چاہیےکیونکہ یہ باتیں ہمارے دین نے ہمیں سکھائی ہیں، ہمیں ان زریں اسلامی اصولوں پر عمل پیرا ہونا چاہیے ۔[47]
مسئلہ امامت اورشیعہ کاداخلی اختلاف : بارہ اماموںکو ماننا شیعہ مذہب کے بنیا دی عقائدمیں سے ہے ، ان میں سے گیارہ امام منظر عا م پر آچکے ہیں جبکہ بارواں امام شیعہ کے مطابق پوشیدہ ہیں اور قیامت کے قریب دنیا میں نمودار ہونگے ۔تاہم ایرانی انقلاب کے بانی خمینی کے لئے بھی” امام "” کا لفظ استعمال کیا جاتا ہےحالانکہ وہ بارہ امامو ں میں شامل نہیں ہیں۔ ایک شیعہ جریدے نے مسئلہ امامت کی اس شکل کو شیعہ مذہب کے خلاف قرار دیتے ہوئےاس پر حسب ذیل تبصرہ کیا ہے۔
” خیر العمل ”کے خیا ل میں امامت کا آغاز پیغمبراسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نےسن ۱۰ ھجری میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو امام بنا کر کیا ۔اور اس سلسلے کے آخری امام محمد ابن حسن العسکری ہیں ۔جریدہ لکھتا ہے ” 1979ء میں ایران میں انقلاب کے ساتھ تصور امامت میں بھی ایسا انقلاب آیا کہ لفظ ”امام ” ہر کس وناکس کیساتھ چسپاں کرنا شروع کردیا گیا ۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہر کسی کی زبان پر امام خمینی کا نام رواں ہوگیا ۔۔۔۔تاہم جس طرح پیغمبر کا لفظ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی کے لئے استعمال نہیں ہو سکتا اسی طرح لفظ ”امام ”بھی آئمہ اثنا ء عشر {شیعہ کے بارہ امام }کے علاوہ کسی کے لئے کسی بھی معنی میں استعمال نہیں ہو سکتا ۔اور جس طر ح حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا دعویدارکذاب اور دجال ہےاسی طر ح آئمہ اثناء عشر کے علاوہ امامت کا دعویدار کوئی بھی ہو، کذاب اور دجال ہے۔[48]
بین الاقوامی امور
بین الاقوامی امو ر کے تحت رواں دوماہی میں جن موضوعات پر دینی جرائد کی آراء سامنے آئی ہیں ان میں امریکہ کی افغان پالیسی، مسلمان ممالک کاایٹمی پروگرام اور مغرب کے خدشات ، سعودی عرب یمن تنازعہ اور سویٹزر لینڈ میں میناروں کی تعمیر پر پابندی کو ایک سے زائد رسائل نے قدرے تفصیل سے زیر بحث لایا ہے جبکہ امریکہ فوجی اڈے پر فائرنگ کا واقعہ ، اطالوی عدالت کا فیصلہ ، خرطوم میں خواتین کے پینٹ پہننے پر پابندی ،کویت میں حجاب کا مسئلہ، ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور ایرانی صوبے سیستان میں خود کش حملے کے تناظر میں پاک ایران تعلقات کو بھی کسی حد تک زیربحث لایا گیا ہے ، تاہم صومالیہ میں رجم کی سزا پرعمل درآمد ، ایران میں جاری فسادات ، دوبہی کا مالیاتی بحران وغیرہ جیسے موضوعات پر دینی جرائد کے ہاں کو ئی تبصرہ نہیں ملتا ۔
امریکہ کی افغان پالیسی
امریکی صدر باراک اوباما نے افغانستا ن کے بارے میں نئی پالیسی کا اعلان کیا ہے جس میں افغانستان میں اصلاحاتی عمل کو مقامی افغان فوج کے حوالے کر کے ۲۰۱۱ء تک وہا ں سے امریکہ واتحادی فوجوں کے انخلا کا اشارہ دیا ہے ۔تاہم تیس ہزار نئی فوج کی پاک افغان سرحد پر تعیناتی کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔اس ضمن میں جرائد کے تبصروں میں اسے امریکہ اور اتحادی افواج کی شکست سے تعبیر کرنے کے ساتھ ساتھ نئی فوج کی تعیناتی پر تحفظات کا اظہا ر بھی کیا گیا ہے ۔
”نداَئے خلافت ” اپنے ادارئیے میں لکھتا ہے ”اس پالیسی کا لب لباب یہ ہےکہ اس کمبل سے جان بھی چھڑا و اور سپریم پاور آف دی ورلڈ کا بھرم بھی قائم رہے — نئی پا لیسی سے فتح کے لفظ کو ہی سرے سے نکال دیا گیا ہے ۔مزید فوج کی تعیناتی کو جریدے نے ایک تیر سے ددو شکار کر نے کی کوشش قرار دیا ہے ، کہ افغانستان میں شکست کی رسوائی کے داغ کو پاکستان میں القاعد ہ کے تعا قب کے نام پر فوج داخل کر کے مٹا یا جائے اور امریکی عوام کو یہ باور کروا کر مطمئن کیا جائے کہ اصل ہدف تو پاکستان کے القاعدہ کے ساتھ تعلقات کا خاتمہ تھا ۔”الاعتصام” کے خیا ل میں تیس ہزار نئی فوج کی تعیناتی پاک افغان سرحدی علاقوں میں من پسند آپریشن کے لئے کی گئی ہے ، ۔” نوائے اسلام ” اس ضمن میں مزید لکھتا ہے ، اس وقت امریکہ اور مغرب میں افغان جنگ کے خلاف ماحول بن چکا ہے ا ور اتحادی افواج کے وہاں سے نکلنے کے لئے بھی دباو بڑھ چکا ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ کمزور افغان انتظا میہ کے باعث طالبان کے دوبارہ قبضے کا خدشہ ہے ، اس لئے امریکہ طالبان سے مذاکرات پر آمادہ ہے اور سعودی عرب اس سلسلے میں امریکہ کی مدد کر رہا ہے کیو نکہ مذکرات کے نتیجے میں ہی امریکہ کے لئے باعزت نکلنے کی راہ ہموار ہو سکے گی۔[49]
افغانستان کےصوبے ننگر ہار میں امریکی فوجیوں کے ہا تھوں قرآ ن پاک جلائے جانے کے واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے ”ضرب مومن ”لکھتا ہے،گوجرہ میں ایک چرچ کے جلائے جانے پر مغربی میڈیا نے آسمان سر پہ اٹھالیا تھا لیکن قرآن کی بےحرمتی کے واقعے کی خبر تک بھی عالمی میڈیا میں نہیں آئی۔جریدہ لکھتا ہے ” یہاں امریکا کی دورنگی کھل کر واضح ہو جاتی ہے — امریکہ صد ر ایک طرف مسلمانوں سے اچھے تعلقات کے خواہاںہونے پر نوبل انعام لے رہے ہیں اور دوسری طرف انہوں نے امریکی فوج کو شعائر اسلام کی بے حرمتی کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے”۔[50]
مسلمان ممالک کاایٹمی پروگرام اور مغرب کے خدشات
مسلم ممالک میں پاکستان اور بالخصوص ایران کے ایٹمی پروگرام{ جس کے بارے میں امریکی صدر باراک اوباما نے ٹونٹی اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے ایران کو ایٹمی پروگرام روکنے یا بصورت دیگر سخت نتائج کی دھمکی دی ہے }کے متعلق ” ندائے خلافت “ نے ایک مضمون شائع کیا ہے ۔مضمون نگار نے مسلم ممالک کے ایٹمی پروگراموں کے بارے میں امریکی عزائم کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے ” ایٹمی پروگرام خواہ وہ پاکستان کا ہو یا ایران کا ، اسکے خاتمے کو امریکہ نے اپنا ہدف بنایا ہو ا ہے“ مضمون نگار نے برطانوی اخبار کی اس خبر”کہ اسرائیل ایران کے ایٹمی پروگرام پر حملے کا فیصلہ کر چکا ہے ۔۔۔ ڈیلی ایکسپریس کی رپورٹ جس میں دعوی کیا گیا ہے کہ سعودی عرب نے اسرائیل کو اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجا زت دے دی ہے “کو مضمو ن نگار نے انتہائی تشویشناک قرار دیاہے ۔ اور ساتھ ہی سعودی عرب کی تردید کوشائع نہ کرنے پر مغربی میڈیا پر تنقید بھی کی ہے ۔انکے خیا ل میں مسلمان ممالک کو خواب خرگوش سے بیدار ہو جانا چاہیے اسی میں انکی بقا کا دارومدار ہے ۔[51]
اسی ضمن میں ”نوائے اسلام ” نے انکشاف کیا ہے کہ صدر اوباما نے ایران کے ایٹمی پروگرام اور وہاں کی اسلامی حکومت کو ختم کرنے کے لئے پینٹاگون کو 55 ملین ڈالر کے بجبٹ کی منظوری دی ہے ، اس سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ امریکیوں نے ظاہری مسکراہٹ کے پیچھے خنجر چھپا رکھا ہے ۔ اور سے دوستی کے اسکے دعوے میں کوئی سچائی نہیں ۔جریدے نے امید ظاہر کی ہے کہ جب تک ایران میں بیدار مغز قیادت موجود ہے تب تک امریکہ کی کوئی سازش کامیاب نہیں ہو سکے گی ۔[52]
سعودی عرب یمن تنازعہ
سعودی فورسز نےنومبر کے مہینے میں یمن کے ساتھ ملحقہ بارڈر پر یمنی فورسز کے خلاف کارروائی کی ہے جس میں دونوں جانب سے جانی نقصان کی اطلاعات ہیں ۔ اس ضمن میں ایک شیعہ اور ایک اہلحدیث جریدے نے تبصرہ کیا ہے۔چونکہ ایک طرف شیعہ اور دوسری طرف سنی فورسز ہیں اور دونوں جریدے مذکورہ مسالک سے منسلک ہیں اس لئے جانبداری کا عنصر پوری طرح غالب دکھا ئی دیتا ہے ۔
”اہلحدیث” کے خیال میں حج کے قریبی دنوں میں یمنی شرپسندوں کا یہ اقدام کوئی معمولی بات نہیں بلکہ اس کے ڈانڈے حرمین شریفین کے خلاف ہونے والی سازشوں سے ملتے ہیں ۔اس صورتحال میں سعودی عرب کے ساتھ تعاون در اصل حرمین شریفین کے ساتھ تعاون ہے اس لئے حکومت پا کستان کو جس طرح سعودی عرب ہر مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیتا ہے ، سعودی عرب کی ہر ممکن مدد کر نی چاہیے ۔ اسی ضمن میں ”نوائے اسلام” نے اس کے برعکس رائے کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے ۔ ”سعودی عرب کا پاکستا ن سے امداد طلب کرنا اسکی فوج کی جھنجلاہٹ کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔اگر سعودی عر حکومت اس صورتحال سے نکلنا چاہتی ہے تو اسے شیعہ آ بادی کو انکے حقوق دینا ہونگے ۔جریدے نے امریکہ پر سعودی فورسز کی مدد کا الزام عائد کرتے ہوئے لکھا ہے ” عراق اور افغانستان میں واضح شکست کے بعد دنیا کو امید تھی کہ اوباما امن کی راہ اختیا ر کرینگے ، لیکن یمن میں امریکی فوج بھیجنے کے فیصلے سے لگتا ہے کہ اوباما اور انکے پیش رو بش میں کوئی فرق نہیں ۔۔۔یہ امریکہ کی بھول ہے کہ وہ اس طر ح اپنے مفادات حاصل کر سکے گا ۔ساتھ ہی مسلم ممالک کو بھی خاموشی توڑتے ہوئے سعودی عرب کے توسط سے ایک مسلم ملک میں امریکی مداخلت کا نوٹس لینا چاہیے ورنہ امریکہ کے توسیع پسندانہ عزائم کی لپیٹ میں دیگر اسلامی ممالک بھی آ سکتے ہیں۔ [53]
سوئیزر لینڈ میں میناروں کی تعمیر پر پابندی
سوئیٹزرلینڈ میں حکومت نے عوامی ریفرنڈم کے بعد 57 فیصدعوام کی رائے کی روشنی میں مساجد میں میناروں کی تعمیر پر پابندی عائد کر دی ہے ۔اس سلسلے میں”نوید سحر“ اور ” نوائے اسلام “ کا تبصرہ سامنےآ یا ہے جس میں سوئس حکومت کے اس فیصلے کو جانبدارانہ اور اسلام دشمنی پر مبنی قرار دیا گیا ۔
ِِ” مجلہ نوید سحر“لکھتا ہے ”سوئس حکومت کا یہ فیصلہ اسکی اخلاقی گراوٹ اور اسلام دشمنی کا بین ثبوت ہو نے کے ساتھ ساتھ مذہبی آ زادی کے بھی خلاف ہے ۔۔ اب دنیا کی آ نکھیں کھل جا نی چاہیں کہ متعصب کو ن ہے اور غیر متعصب کون؟ ،لیکن یہ بات بھی حقیقت ہے کہ سوئس حکومت کی یہ غنڈہ گردی ملت اسلامیہ کی اپنے دین سے بے وفائی کا نتیجہ ہے“۔[54]
”نوائے اسلام “ کے مطابق اس حکومتی فیصلے سے مغرب میں مساجد کے خلاف مہم کو تقویت ملی ہے ،حیران کن بات ہے کہ سوئیٹزر لینڈ جس کی معیشت کا تمام تر دارومدار مسلمان امروں ، غاصبوں ، سیاسی حکمرانوں اور بد عنوان افراد کی نا جائز دولت پر ہے اسی کی پیپلز پارٹی نے منفی انداز میں مہم چلا کر عوام کی بڑی اکثریت کی حما یت حاصل کر لی ہے ۔مقام افسوس ہے کہ ۵۰ سے زائد مسلم ممالک اسلامی شعائر کی تو ہین روکنے کے لئے کچھ نہ کر سکے ۔۔۔اس بات کا خدشہ ہے کہ یہ مہم مسلمانوں کے خلاف نئی راہوں کے تعین کا پیش خیمہ اور یو ر پ میں مسلمان جماعتوں کی سر گرمیوں پر پابندیوں کا نقطہ آ غا ز ہو “۔[55]
امریکی فوجی اڈے پرفائرنگ: اطلاعات کے مطابق امریکی ریاست ٹیکساس میں امریکی فوجی اڈے میں مسلمان فوجی کی فائرنگ کے نتیجے میں 12امریکی فوجیوں سمیت 13 افراد ہلاک ہو گئے ۔ ”نوائے اسلام” لکھتا ہے کہ اگرچہ یہ واقعہ غیر معمولی نوعیت کا ہے تاہم عراق اور افغانستان میں تعینات کیے جانے والے فوجیوں سے اس طرح کے حادثات کو ئی تعجب خیز بات نہیں کیونکہ خود امریکی فوجی ماہرین یہ بات تسلیم کر تے میں کہ بار بار ان ممالک میں تعینات کیے جانے والے فوجی ذہنی انتشار کا شکا رہو چکے ہیں ۔[56]
اطالوی عدالت کا فیصلہ: اٹلی کی ایک عدالت نے امریکی خفیہ ایجنسی کے 23 اہلکاروں کو مصر کے ایک عالم کو اٹلی سے اغواء کر کے مصر لے جانے اور حبس بے جا میں رکھنے کے جرم میں قید کی سزا سنائی ہے۔
اس ضمن میں ”نوائے اسلام” کے خیا ل میں ایسی صورت حال میں جبکہ سی آئی اے کے ایجنٹ پوری دنیا میں امریکہ کے مخالفین کے قتل،اغواءاورامریکہ مخالف حکومتوں کا تختہ الٹنے جیسے جرائم میں ملو ث ہیں ، اٹلی کی حکومت کے دباﺅ کے با وجودعدالت کا یہ فیصلہ نہایت جرات مندانہ اور مغربی دنیا کے متعصبانہ طرز عمل کے با وجود انصاف کی امیدوں کو زندہ رکھنے کا مظہر ہے ۔[57]
خرطوم میں خواتین کے پینٹ پہننے پر پابندی
خرطوم کی ایک عدالت نے ملکی قانون کے خلا ف پینٹ شرٹ پہننے اور اسکارف نہ پہنے کے جرم میں دو خواتین کو 20 کوڑوں کی سزا دی ہے ۔
”نوید سحر” نے عدالت کے اس فیصلے کو سراہتے ہوئے لکھا ہے ، ”عورت کی بے پردگی یا کسی لباس کے ذریعے اسکے اعضا ءکا نمایاں ہو نا بے حیا ئی اور گنا ہ کی دعوت کے مترادف ہے اس لئے خرطوم کی عدالت کا یہ فیصلہ اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہے اور قابل تحسین ہے ۔[58]
کویت میں حجاب کا مسئلہ
کویت کی عدالت نے دو خو اتین اراکین پارلیمنٹ کو بغیر اسکا رف پہنے اجلاس میں شر کت کی اجازت دیدی ہے ۔ یہ فیصلہ مذکورہ اراکین کی طر ف سے حجاب کے بغیر شرکت کی اجازت کے لئے دی گئی درخواست پر سنایا گیا ۔
اس فیصلے کے حوالے سے”نوائے اسلا م “ نے شذرہ تحریر کیا ہے جسکے مطابق کویت کی خواتین ارکان کا یہ اعلان کہ وہ حجاب پہن کر اسمبلی میں نہیں آئیں گی ،اور پھر عدالت کا انکے حق میں فیصلہ دینا دراصل انتہا پسندانہ رویہ رکھنے والے عناصر کو اکسانے کے مترادف ہے —- اسکا دوسرا پہلو یہ ہے کہ کویت میں حجاب کے معاملے کو اس انداز سے اٹھا نا مغرب کی طرف سے حجا ب کے خلا ف جاری مہم کو مسلما ن مما لک سے شروع کرنے کا نقطہ آ غاز ہے ۔[59]
ڈاکٹر عافیہ صدیقی
امریکہ کی جیل میں قید پاکستان ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے حوالے سے دینی جرائد اکثر وبیشتر مضامین اور تجزیئے شائع کرتے رہتے ہیں ۔
رواں دوماہی میں”صحیفہ اہلحدیث ”نے ایک مضمون شائع کیا ہے جس میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے سلسلے میں غفلت پر پاکستانی ارباب حل و وعقد پر تنقید کی گئی ہے ۔مضمون نگا ر لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی ، صد ر آصف علی زرداری ، وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی ، آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی ، امریکہ میں پاکستانی سفیر حسین حقانی اور اپنی باری کے منتظر میا ں نواز شریف سےسوال کر رہی ہیں کہ کیا خود انکی بیٹیاں نہیں ہیں ؟۔مضمون نگار نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ اس سلسلے میں عوام کا پر جو ش احتجاج بھی حکمرانوں پر کچھ اثر نہ ڈال سکا کہ وہ انکی رہائی کے لئے اپنا کردار اداکر سکیں ۔ [60]
ایرانی صوبے سیستان میں خو د کش حملہ اور پاک ایران تعلقات
ما ہ نومبر میں ایران کے صوبے سیستان میں ہو نے والے خودکش حملے کے بعد ایران اور پاکستان کے تعلقات کے حو الے سے ” منہاج القرآن” نے ادارتی نو ٹ تحریر کیا ہے ۔جریدے کےخیا ل میں ایران کا یہ سمجھنا کہ امریکہ اور برطانیہ کی ایما ء پر پاکستانی سرزمین اسکے خلاف استعمال ہو رہی ہے، افسوس نا ک صورتحا ل ہے ،ایرانی حکومت اور عوام کو دانشمندی کا مظاہرہ کر ناچاہیے ،اس لئے کہ نقصان جانبین کا ہو رہا ہے ،دونوں ممالک اپنے مشترکہ دشمن کو پہچانتے ہیں، اس لئے دونوں کو اپنے معاملات عالمی اور مقامی حالات کی نزاکتوں کو سامنے رکھ کر طے کرنے چاہییں، اور ایرانی قیادت کو پاکستان کی مشکلات میں اضافہ کرنے کی بجائے اصل مرض کے علاج پر توجہ دینی چاہیے۔[61]
آبی تنازعہ اور پاک بھارت تعلقات
پاکستان اور بھارت کے تعلقات کی کشیدگی میں کشمیر سمیت دیگر تنازعات کے ساتھ ساتھ دریا وں کے پانی کی تقسیم کے مسئلہ پر اختلاف بھی ایک بڑی وجہ ہے ۔ دینی جرائدان مسائل پر گاہے بگاہے اظہار خیا ل کر تے رہتے ہیں ۔ اس با ر ”ضیائے حرم” نے اس ضمن میں ایک مضمون شائع کیا ہے ۔مضمون نگار نے دعوی کیا ہے کہ بھارت سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہو ئے پاکستانی دریاوں پر ڈیم تعمیر کر رہا ہے جس کا کوئی قانونی جواز اسکے پاس نہیں ہے۔اس صورتحا ل پر پاکستانی حکمرانوں اور کالا باغ ڈیم کی مخالفت کرنے والے قوم پرست رہنماوں کے کردار پر تنقید کرتے ہو ئے وہ لکھتے ہیں ”کالا باغ ڈیم کی تعمیر پر تو انہیں تحفظات ہیں لیکن بھارت کی آبی جارحیت پر انکی زبانیں کیوں گنگ ہو گئی ہیں؟۔مضمون نگار نے امریکہ پر الزام عائد کیا ہے کہ پاکستانی دریاوں پر بھارتی آبی جارحیت میں اس کی رضا مندی شامل ہے، وہ لکھتے ہیں ” امریکہ اس جستجو میں ہے کہ دباو ڈال کر کیری لوگر بل کے سنہری جال میں پھانس کے پاکستان کو دہشتگردی کی جنگ میں مکمل طور پر ملوث کر دیا جائے ۔ اور دوسری جانب بھارت اپنے آبی منصوبے مکمل کر کے پاکستان کو صحرا میں بدل دے۔[62]
[1] ۔ اداریہ ”کیری لوگر بل غلامی کا پھندہ “، اداریہ ”وقت کا تقاضا “ ، ہفت ر وزہ” اہلحدیث “اکتوبر ۳۱-نومبر ۰۶، نومبر ۲۱-۲۷ ۲۰۰۹ ، لاہور (اہلحدیث)
[2] ۔ ،اداریہ ”کیری لاگر بل کیا ہے ؟ “، ماہنامہ ”اسوہ حسنہ“اکتوبر ، نومبر ۲۰۰۹، کراچی (اہلحدیث)
[3] ۔ ادریہ ” ہماری نسلوں کا معاملہ ”ماہنامہ ”الفاروق “،نومبر ۲۰۰۹ء ملتان (دیوبندی)
[4] ۔ خطاب حافظ محمد سعید”آج کے دور کا فتنہ عظیم“، ماہنامہ ”الحرمین “نومبر ۲۰۰۹ء، کراچی (اہلحدیث)۔
[5] ۔ اداریہ ”کیری لوگر بل ۔ اظہا ر ہمدردی ۔۔۔یا ۔۔ طوق غلامی “ ماہنامہ ”دعوت تنظیم الاسلام” ‘نومبر ۲۰۰۹ء، گوجرانوالہ (بریلوی)
[6] ۔ اداریہ ”امریکی نہیں اللہ اور اسکے رسول کی غلامی “ ماہنامہ ”الجامعہ” ،اکتوبر ، نومبر ۲۰۰۹ ء ، جھنگ(بریلوی)
[7] ۔ ”اللہ دتہ ”کیری لوگر بل ۔۔ خدشات اور تحفظات ” ، ہفت روزہ ”ختم نبوت“ ،نومبر ۲۳-۳۰ ، ۲۰۰۹ ء کراچی (دیوبندی)
[8] ۔ اداریہ”N-R-O۔۔ کالا قانون ۔۔۔ نامنظور” ، ہفت ر وزہ” اہلحدیث “نومبر ۱۴-۲۰ ، ۲۰۰۹ ء لاہور (اہلحدیث)
[9] ۔ اداریہ ”اب پارلیمنٹ اپنی اصل ذمہ داری پر توجہ دے ”، اداریہ ” قومی خزانے پر ہاتھ صاف کرنے والوں کا احتساب کیا جائے “ ہفت روزہ ”ضرب مومن “نومبر ۱۳-۱۹، نوومبر ۲۷ – دسمبر ۰۳، ۲۰۰۹ء کراچی (دیوبندی)۔
[10] ۔ اداریہ ”آنکھیں کھلی رکھیں “، اداریہ ”بدرو ”، ہفت روزہ ”الاعتصام “نومبر ۱۳-۱۹، نومبر ۲۷ – دسمبر ۰۳، ۲۰۰۹، لاہور (اہلحدیث)
[11] ۔ اداریہ ” سربراہ مملکت سے عدالتی بازپرس اور اسلام ”ماہنامہ ”محدث“ دسمبر ۲۰۰۹ء، لاہور(اہلحدیث)
[12] ۔ اداریہ ” احساس قربانی ”ماہنامہ ”دعوت تنظیم الاسلام ”دسمبر ۲۰۰۹، ، گوجرانوالہ (بریلوی)
[13] ۔ اداریہ ”بحیثیت قوم ہماری کیا ذمہ داریاں ہیں ؟” ماہنامہ”الحامد”دسمبر ۲۰۰۹ء ، لاہور (دیوبندی)
[14] ۔ اداریہ ”آخر یہ کہاں کی دوستی ہے ؟”ماہنامہ”سوئے حجاز “دسمبر۲۰۰۹ء ، لاہور(بریلوی)، اداریہ ”توپوں کا رخ دشمن کی کی طرف موڑیں”، ہفت روزہ ”ندائے خلافت "اکتوبر ۲۷- نومبر ۰۲، ۲۰۰۹ء ء، لاہور (غیر مسلکی)
[15] ۔ خطاب حافظ محمد سعید”فوجی آپریشن مسائل کا حل نہیں ”ماہنامہ ” الحرمین ”،نومبر ۲۰۰۹ء لاہور (اہلحدیث)
[16] ۔ قاضی شہر کے قلم ”پاکستان میں پھیلتی ہو ئی جنگ ، پالیسیوں پر نظر ثانی کی جائے “ ماہنامہ ”ضیائے حرم“، نومبر ۲۰۰۹ء ، لاہور (بریلوی)، ا
[17] ۔ مسلمانوں کے تیسرے خلیفہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بہادر فوج کی طرف اشارہ ہے
[18] ۔ اداریہ ”ہماری فوج صف شکن سپاہ کردگار ہے “ ماہنامہ”معارف رضا“،نومبر ۲۰۰۹ء، کراچی (بریلوی)
[19] ۔ اداریہ ”قربانیوں کے باوجود پاکستان پر امریکی عدم اعتماد “، ہفت روزہ ” ضرب مومن “ نومبر ۶۰تا ۲۱ ، ۲۰۰۹ء، کراچی (دیوبندی)
[20] ۔[ شذرہ ” امریکی وائسرائے کا دورہ پاکستان “، ہفت روزہ ”نوائے اسلام“،نومبر ۶۰تا ۲۱ ، ۲۰۰۹ء، کراچی (شیعہ)
[21] ۔ اداریہ ”بے نظیر بھٹو قتل کیس کس جانب جا رہا ہے؟ ”ماہنامہ”سوئے حجاز “نومبر۲۰۰۹ء ، لاہور(بریلوی)،
[22] ۔ اداریہ ”آئینے میں اسلا م اور پاکستان کی نئی تصویر”ماہنامہ”منہاج القرآن “دسمبر۲۰۰۹ء ، لاہور(بریلوی)،
[23] ۔ اداریہ ”پٹرولیم قیمتوں میں اضافہ ، نظر ثانی کی ضرورت ” ،ہفت روزہ ” ضرب مومن “ دسمبر۰۴-۱۰، ۲۰۰۹ء، کراچی (دیوبندی)
[24] ۔ اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جریدے نے مارچ 2000ء میں امریکی صدر بل کلنٹن کے دورے سے پہلے امریکی وزیر خارجہ اور دیگر حکام کے بیان کا حوالہ دیا ہے ۔
[25] ۔ اداریہ ”میں اگر سوختہ ساماں ہوں ” ، ہفت ر وزہ” اہلحدیث “دسمبر ۲۶ -۳۱، ۲۰۰۹ء، لاہور (اہلحدیث)
[26] ۔ اداریہ ”سولہ دسمبر ، سقوط ڈ ھاکہ کا سبق ” ،ہفت روزہ ” ضرب مومن “ دسمبر ۱۸-۲۴ ، ۲۰۰۹ء، کراچی (دیوبندی)
[27] ۔ شذرہ ”حکومت کا بلوچستان پیکیج” ،ہفت روزہ ”نوائے اسلام “ دسمبر ۱۸-۲۴ ، ۲۰۰۹ء، کراچی (شیعہ)
[28] ۔ اداریہ ”گلگت بلتستان میں پہلے تاریخی انتخابات “ ماہنامہ”الجامعہ“،نومبر، دسمبر ۲۰۰۹ء، جھنگ (بریلوی)
[29] ۔ اداریہ ”گلگت بلتستان میں پہلے تاریخی انتخابات “ ماہنامہ”الجامعہ“،نومبر، دسمبر ۲۰۰۹ء، جھنگ (بریلوی)
[30] ۔ اداریہ ”حمید نظامی ہال میں پروفیسر سینیٹر ساجد میر کا خطا ب “ ، ہفت ر وزہ” اہلحدیث “نومبر ۰۶ ، ۲۰۰۹ء ، لاہور (اہلحدیث)۔
[31]۔ اداریہ ”دہشتگردی کا خاتمہ کیسے ممکن ہے ؟” ، ہفت روزہ ”ضرب مومن “دسمبر ۱۱-۱۷، ۲۰۰۹ ء ، کراچی (دیوبندی)
[32] ۔ اداریہ ”خودکشی یا شہادت “، ہفت روزہ ”ندائے خلافت “، ۹۰۰۲ء، لاہور (غیر مسلکی)
[33] ۔ غلام رسول دیشمکھ،”دہشتگرد –کون –کیوں –کیسے ؟ “، ماہنامہ ”الحق“، اکتوبر ، نومبر ۲۰۰۹ء اکوڑہ خٹک (دیوبندی)، مصنف کا تعلق بھارتی علاقے بھساول سے ہے ۔
[34] ۔ اداریہ ”دہشتگردی کا اصل ذمہ دار کون ؟ “، ماہنامہ ”الحامد “،نومبر ۲۰۰۹ءء، لاہور (دیوبندی)
[35] ۔ اداریہ ”پاکستان میں دہشتگردی “ ، ہفت ر وزہ” اہلحدیث “دسمبر ۱۹-۲۵ ، ۲۰۰۹ء ، لاہور (اہلحدیث)۔
[36] ۔ اداریہ ‘ ہموطن افسردہ ہیں’ ‘، ماہنامہ ”البلاغ” ، دسمبر 2009ء ، کراچی {دیوبندی}۔
[37] ۔ محمد اشرف ”ہم کو عبث بدنام کیا “ ،ہفت ر وزہ” اہلحدیث “،نومبر۰۱-۱۵، ۲۰۰۹ء، لاہور (اہلحدیث)۔
[38] ۔ اداریہ ”مذہبی طبقات ، دہشتگردی اور طالبان ، ایک سوالنامے کے جوابات “ ماہنامہ ”الشریعہ“، نومبر ، دسمبر۲۰۰۹ء ء، لاہور (غیر مسلکی)
[39] ۔ اداریہ ”دہشتگردی کا خاتمہ کیسے ممکن ہے ؟ “ ہفت روزہ ”ضرب مومن “،دسمبر ۱۱-۱۷، ۲۰۰۹ ء ، کراچی (دیوبندی )
[40] ۔ ماضی قریب میں سعودی عرب کے معروف عالم محمد بن عبد الوہاب نجدی کے پیروکاروں کو وہابی کہا جاتا ہے ، بریلوی اور شیعہ کے علاوہ باقی گروہ کسی نہ کسی حد تک انہی کی فکر سے متاثر سمجھے جاتے ہیں۔بریلوی حضرات ان لوگوں گستاخ رسو ل قرار دیتے ہیں ۔
[41]۔ اداریہ ”ہماری فوج صف شکن سپاہ کردگار ہے “ ماہنامہ”معارف رضا“،نومبر ۹۰۰۲ء، کراچی (بریلوی)۔
[42] ۔اداریہ” دہشت و وحشت اور خوف اور بے یقینی ، دہش گردوں پر ضرب کاری لگانے کی ضرورت “، ماہنامہ ” افکارالعارف “نومبر۲۰۰۹ء، لاہور (شیعہ)
[43] ۔ مولانا سعید احمد جلال پوری ”یہودی مدارس میں عسکریت کی تعلیم ”، ماہنامہ ”الفاروق ” ، دسمبر 2009ء ، کراچی {دیوبندی}۔
[44] ۔ شیخ طنطاوی جامعہ ا لازہر مصر کے مفتی ہیں ۔
[45] ۔ اداریہ ”جامع الازہر کے شیخ طنطاوی کا فتوی ۔۔۔۔ کجا ماند مسلمانی ” ،ماہنامہ ”الخیر” نومبر ، ۲۰۰۹ء،ملتان (دیوبندی)
[46] ۔ مولانا محمد تقی عثمانی دیو بند کے معروف عالم دین اور شریعت کو رٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس رہ چکے ہیں۔
[47] ۔ مولانا مفتی محمد تقی عثمانی”اسلام اورٹریفک ” ،ماہنامہ ”وفاق المدارس” دسمبر ، ۲۰۰۹ء،ملتان (دیوبندی)
[48] ۔ اداریہ ”امام سازی ہمارا حق نہیں ” ،ماہنامہ ”اخیرالعمل” نومبر ، ۲۰۰۹ء،لاہور (شیعہ)
۔[49] ۔ اداریہ ”امریکہ کی نئی افغان پالیسی “ ، ہفت روزہ ” ندائے خلافت“ دسمبر ۰۸-۱۴، ۲۰۰۹ ء، لاہور (غیر مسلکی )، اداریہ ”امریکی افغان پالیسی اور دھماکے ”، ہفت روزہ ” الاعتصام ”، دسمبر ۱۱-۱۷، ۲۰۰۹ء لاہور(اہلحدیث)، شذرہ ”افغانستان اور امریکہ ”، ہفت روزہ ”نوائے اسلام” ، دسمبر ۰۴-۱۰، ۲۰۰۹ ء ، کراچی ، (شیعہ )
[50] ۔ اداریہ ”افغانستان : امریکی فوجیوں کے ہاتھوں قرآن کی بےحرمتی “ ہفت روزہ ”ضرب مومن “،اکتوبر ۳۰ – نومبر ۰۵ ، ۲۰۰۹ ء ، کراچی (دیوبندی )۔
[51] ۔ محمدسمیع ”مسلم ممالک کے ایٹمی پرگراموں کا خاتمہ : مغرب کا ہدف “ ، ہفت روزہ ” ندائے خلافت“ نومبر ۰۳ ۔ ۰۹ ، ۲۰۰۹ ء، لاہور (غیر مسلکی )۔
[52] ۔ شذرہ ”ایران کے خلاف نرم جنگ ”، ہفت روزہ ”نوائے اسلام” ، نومبر ۱۳-۱۹ ، ۲۰۰۹ ء ، کراچی ، (شیعہ )
[53] ۔ اداریہ ”ارض مقدس کے خلاف سازشیں” ، ہفت روزہ”اہلحدیث” ،نومبر ۲۸ تا دسمبر ۱۱ ، ۲۰۰۹ء، لاہور (اہلحدیث)، شذرہ” یمن میں مجاہدین کی کامیابیاں “، اداریہ ”یمن کے لئے امریکی فوج کی مداخلت “، ہفت روزہ ”نوائے اسلام “،نومبر ۱۳۔۱۹ دسمبر۱۸-۲۴ ، ۲۰۰۹ء، کراچی (شیعہ)
[54] ۔ داریہ ”سو ئیٹزر لینڈ میں مسا جد کے میناروں پر پا بندی “ ،ماہنامہ” مجلة نوید سحر “ ،نومبر، ۲۰۰۹ء، مانسہرہ (بریلوی)
[55] ۔ اداریہ ”میناروں پر پا بندی” ، ہفت روزہ ”نوائے اسلام “ ، دسمبر ۰۴-۱۰، ۲۰۰۹ء، کراچی (شیعہ)
[56] ۔ شذرہ ‘امریکی فوجی اڈے پر فائرنگ ” ہفت روزہ ”نوائے اسلام ”، نومبر ۱۳-۱۹، ۲۰۰۹ء، کراچی (شیعہ)
[57] ۔ شذرہ ”اطالوی عدالت کا جراتمندانہ فیصلہ” ،ہفت روزہ ”نوائے اسلام” ،نومبر ۱۳-۱۹، ۲۰۰۹ء، کراچی (شیعہ)
[58] ۔ اداریہ ”پاکستا ن کا مطلب کیا ۔۔۔؟” ،ماہنامہ ”مجلة نوید سحر” ،نومبر۲۰۰۹ء، مانسہرہ (بریلوی)
[59] ۔ شذرہ”کویت میں حجاب کا معاملہ“،ہفت روزہ ”نوائے اسلام“ ،نومبر ۰۶-۱۲،۲۰۰۹ء، کراچی (شیعہ)
[60] ۔ رضی الدن سید ”کیا ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے لئے کو ئی محمد بن قاسم نہیں ”، پندرہ روزہ ” صحیفہ اہلحدیث ”،نومبر ۰۶، ۲۰۰۹ء کراچی (اہلحدیث)
[61] ۔ اداریہ ”پاک ایران تعلقات۔۔ مخالفانہ سازش کو سمجھنے کی ضرورت “ ماہانامہ ”منہاج القرآن “نومبر ۲۰۰۹ء ، ، لاہور (بریلوی)
[62] ۔ محمد اسلم لودھی” پاکستان کو صحرا بنانے کی بھارت سازش حکمران خاموش کیوں ؟ ”، ماہنامہ ”ضیائے حرم“ ،نومبر ۲۰۰۹ء ، لاہور (بریلوی)
جواب دیں