مباحث جنوری ۲۰۱۱ ء
پاک بھارت تعلقات، تنازعہ کشمیر کے تناظر میں
تنازعہ کشمیر خطے کے دونوں بڑے ممالک پاکستا ن اور بھارت کے تعلقات میں خرابی کی بنیادی وجہ خیال کیا جاتاہے ۔ دینی جرائد اس بارے میں واضح موقف رکھتے ہیں کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور بھارت کوکشمیر سے اپنی فوجیں واپس بلانی چاہییں ۔ اس سلسلے میں مختلف حوالوں سے تبصرے ، تجزئیے اور مضامین دینی جرائد کی زینت بنتے رہتے ہیں ۔ رواں دوماہی میں چند جر ائد نے اس مسئلے کو مختلف زاویوں سے دیکھنے کی کوشش کی ہے ۔
تنازعہ کشمیر کے حل کے لیے کی جانے والی کوششوں اور اس ضمن میں پاکستانی حکومتوں کے کر دار کےحوالے سے ہفت روزہ "ندائے خلافت ” اور ماہنامہ "خطیب” نے اداریے اور مضمون میں تبصرہ کیا ہے ۔ جرائد کی آراء سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اس سلسلے میں حکومتی کارکردگی کو ناکافی خیال کرتے ہیں۔ "ندائے خلافت” کے ایک مضمون میں پاک بھارت مذاکراتی عمل اور امن کی آشا وغیر ہ جیسی کوششوں پر تبصرہ کرتے ہوئے پاکستان کو نہایت محتاط رہنے کا مشورہ دیا گیا ہے ۔ مضمون نگار لکھتے ہیں "امن کے لیے کی جانے والی کوششیں بظاہرپُر کشش ضر ور ہیں اور کوئی بھی عقل مند آدمی امن کی کوششوں کا مخالف نہیں ہوسکتا ، مگر اس کے پس پر دہ محر کا ت خطر ناک ہیں، جو لوگ بھارت کی تاریخ سے آگاہ ہیں وہ جانتے ہیں کہ بھارت ایک سمندر کی مانند ہے اس میں جو داخل ہوا وہ ڈوب گیا ….. یہ بات بھی واضح ہے کہ بھارت نے پاکستان کو دل سے تسلیم ہی نہیں کیا وہ اس فکر میں ہے کہ پاکستان کو ہندوستان میں ضم کر لیا جائے ۔ امن کی آشاکا ڈھونگ اسی لیے رچایا جارہاہے ،ایسے میں قوم کو ہشیار اور محتاط رہنے کی ضرورت ہے ۔”[45] ماہنامہ "خطیب ” اپنے اداریے میں لکھتا ہے ” عالمی فورموں اور غیرمسلم ممالک کے ساتھ مشترکہ اعلامیوں میں جس انداز سے اس مسئلے کو اٹھانے کی ضرورت تھی نہیں اٹھا یا گیا ، صر ف جماعت اسلامی ، جماعت الدعوۃ اور ادارہ نوائے وقت قوم کو بیدار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ، اگر ہمیں اپنی آزادی کا تحفہ عزیز ہے تو حکمرانوں کو مجبور کرنا ہوگا کہ وہ لوٹ کھسوٹ کا دھندا بند کرکے کشمیر کی آزادی کے لیے سوچیں ۔”[46]
” الشریعہ "نے ۱۶ اکتوبر ۲۰۱۰ ء کو دارالعلوم دیوبند(ہند) میں ہونے والی کشمیر کانفرنس کے حوالے سے مضمون[47] شائع کیا ہے ۔ مضمون نگار عارف بہارنے کانفرنس کے اعلامیہ[48] پر تنقیدی تبصرہ کیا ہے ۔ مضمون نگار لکھتے ہیں ” پورا دن مسئلہ کشمیر کی جزئیات پر بحث ہوتی رہی اور یہ قرار داد سامنے آئی کہ کشمیر میں آرمڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ کا نفاذ غلط لیکن کشمیر بھارت کا جزو لاینفک ہے ، اس کانفرنس سے دو طرح کے تاثر ات سامنے آئے ہیں ایک یہ کہ بیس سالوں میں پہلی بار بھارتی مسلم قیاد ت کو یہ احساس ہوا ہے کہ کشمیر میں اُن کے ملک کی فوج بیس برس سے ظلم ڈھا رہی ہے اور یہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے حوالے سے بھارتی مسلمانوں کی طرف سے آدھے سچ کا اظہار ہے ۔ جبکہ دوسر ا تاثر یہ ہے کہ بھارت کی مسلمان قیادت نے کانفرنس سے ایک واضح سیاسی لائن لی ہے۔” مضمون نگار کے خیال میں کانفرنس سے دوطرح کے رویے سامنے آئے ۔ جمعیت علماء ہند کے مولانا محموداحمد مدنی کا کہنا تھا کہ کشمیر کا مسئلہ بھارتی مسلم قیاد ت کو اعتماد میں لیے بغیر حل نہیں کیا جاسکتا، جبکہ دوسرارویہ جماعت اسلامی ہند کا تھا جس کے نمائندے نے کشمیر کانفرنس کے انعقاد کو جرأت مندانہ قرار دیا، کشمیریوں کے جائز مطالبات کی حمایت کی لیکن کشمیر کے سیاسی تنازعے پر کوئی بات نہیں کی ۔ شاید یہی رویہ کشمیر بھارت کی مسلم قیادت سے چاہتا ہے۔” مضمون نگار کے خیال میں مسئلہ کشمیر کے تین فریق ہیں ، کشمیری عوام ، بھارت اور پاکستان ،اس مسئلے میں بھارتی مسلم قیادت کو اعتماد میں لینے کا کوئی سوال ہی نہیں …… دیوبند کانفرنس میں کشمیر کے سیاسی مسائل کو بھارتی مسلمانوں کے سماجی مسائل میں گڈمڈ کر دیا گیا ۔ بھارت کی مسلمان قیادت کو اب کشمیر کو ڈھا ل کے طور پر استعمال کرنے کی بجائے خود اپنی بنیادوں پر کھڑے ہوکر بھارت کے نقشے میں اپنا مستقبل سنوارنا اور تلاشنا چاہیے۔”[49]
جواب دیں