مباحث جنوری ۲۰۱۱ ء
عراق میں حکومت سازی
عراق میں ۷ مارچ ۲۰۱۰ ء کو ہونے والے انتخابات کے بعدکامیاب ہونے والی پارٹیوں کی عدم موافقت کی وجہ سے حکومت سازی میں کئی ماہ تک تعطل جاری رہا اور بالآخر ۱۱ نومبر ۲۰۱۰ء کو اسپیکر کے انتخاب سے حکومت سازی کا پہلا مرحلہ تکمیل کو پہنچ گیا ۔ شیعہ مکتب فکر کے جرائد مشرق وسطیٰ کی صور ت حال پر نسبتاً زیادہ نظر رکھتے ہیں۔ گزشتہ دوماہی میں عراق اور لبنا ن کےحوالے سے مختلف پہلوؤں پر شیعہ جرائد کی آراء سامنے آئی ہیں ۔
عراق میں حکومت سازی کےحوالے سے جاری تعطل کے خاتمے پر "منتظر السحر ” نے ایک مضمون شائع کیا ہے ۔ مضمون نگار کےخیال میں عراق میں حکومت سازی کے حوالے سے جاری تعطل جدید سیاسی دنیا کا طویل ترین تعطل تھا اس سے پہلے ۱۹۷۷ میں ہالینڈ میں انتخابات کے ۲۰۷ دن بعد حکومت قائم ہوئی تھی جبکہ عراق میں یہ تعطل تقریباًآٹھ ماہ پر محیط ہے اور اس کی وجہ امریکہ اور سعودی عرب کی مداخلت ہے۔ مضمون نگار کا جھکاؤ نوری المالکی کی طرف زیادہ محسوس ہوتا ہے جس کی وجہ شاید مسلکی وابستگی ہو ۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں ” نوری مالکی اور ان کے اتحادیوں کو پارلیمنٹ کی سادہ اکثریت حاصل تھی البتہ امریکی سی آئی اے اور سعودی عرب کی کی مشترکہ حمایت کےحامل ایادعلاوی کو ایک معاہدے کے تحت مجوزہ کاؤنسل فار ہائر اسٹریٹیجک پالیسی نامی آئینی حکومت سے بالاتر ادارے کی سربراہی دینے کی خبر بھی نشر کی گئی ہے ۔ یہ غیر آئینی اور غیر جمہوری شق ہے ۔ لہذا امریکہ اور سعود ی عرب نے عراق کے داخلی امور میں اپنی غیر جمہوری ، غیر عادلانہ اور سامراجی مداخلت کے ریکارڈکی از سر نو تجدید کی ہے ۔” نوری مالکی اور ان کے اتحادیوں کے بارے میں وہ لکھتے ہیں کہ ” نوری مالکی نے عراق میں قانون کی حکمرانی کے نعرے پر الیکشن جیتا ہے اور ان کے سیاسی اتحادی سیاست دانوں کی اکثریت نے دینی سیاست پر الیکشن جیتا ہےعراق میں شیعہ عرب اکثریتی آبادی ہے اور کرد اکثریت کے ساتھ شیعہ عرب تعلقات کی تاریخ برادرانہ اور مخلصانہ بنیادوں پر استوار ہے۔”[53]
جواب دیں