مباحث، جولائی ۲۰۱۱ ء
شیعہ سنی مفاہمت اور اشتراک عمل
پاکستان میں پائے جانے والے مکاتب فکر میں سے سنی اور شیعہ کے درمیان پائے جانے والے اختلاف کو ختم کرنے اور مفاہمت و اشتراک عمل کے حوالے سے ماہنامہ الشریعہ میں مضامین شائع ہوئے ہیں جن میں مسلکی اختلاف کے باوجود معاشرتی تعلقات رکھنے اور مل جل کر کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ بالعموم اس طرح کے موضوعات "مباحث” میں شامل اشاعت نہیں ہوتے لیکن اس مسئلے کی اہمیت کے پیش نظر اسے قومی امور میں شامل کیا گیا ہے۔
پس منظر: ۱۱ فروری ۲۰۱۱ء کو روزنامہ "اسلام” میں ابو عمار زاہد الراشدی صاحب کا ایک کالم بعنوان "قومی و ملی تحریکات میں اہل تشیع کی شمولیت” شائع ہوا جس میں انہوں نے یہ موقف اختیار کیا کہ قومی و ملی تحریکوں میں اہل تشیع کی شمولیت اور ان کے ساتھ اشتراک عمل قومی اور معاشرتی ضرورت ہے اور یہ جاری رہنا چاہیے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ "میری طالب علمانہ رائے میں اسلام، کفر اور نفاق کی بحث کے باوجود معاشرتی معاملات اور اجتماعی روایات کو الگ دائرے میں رکھنا چاہیے اور اس سلسلہ میں دور نبوی ؐ ہمارے لیے بطور مثال موجود ہے۔ منافقین کا کفر نص قطعی سے ثابت ہو گیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرما دیا تھا کہ "وماھم بمؤمنین” ( کہ وہ مؤمن نہیں ہیں)۔ اس سب کے باوجود عبادات اور غزوات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ شریک رہتے۔” اسی طرح قیام پاکستان سے لے کر موجودہ دور تک بہت سی ایسی مثالیں پیش کی گئیں جن میں مختلف تحریکوں میں اہل تشیع نہ صرف شامل رہے بلکہ مرکزی عہدوں پر بھی فائز رہے جن میں قیام پاکستان کے بعد علماء کرام کے دستور سازی کے حوالے سے متفقہ ۲۳ نکات، ۱۹۵۲ء کی تحریک ختم نبوت، ۱۹۷۴ء میں کل جماعتی مجلس عمل ختم نبوت، ۱۹۷۷ء میں تحریک نظام مصطفیٰ اور ۱۹۹۸ء میں ایک بار پھر کل جماعتی مجلس عمل کا احیاء قابل ذکر ہیں۔ ان تمام تحریکوں میں اہل تشیع نہ صرف شریک رہے بلکہ انتظامی ذمہ داریوں پر بھی فائز رہے۔
مضمون کے جواب میں مولانا محمد یونس قاسمی نے لکھا کہ اکابر کے فیصلوں اور فتاویٰ کی روشنی میں اثنا عشری اہل تشیع کافر ہیں ۔ اور ان سے کسی قسم کے تعلقات اور مراسم رکھنا درست نہیں کیوں کہ یہ لوگ ان تعلقات سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اپنے عقائد کی تبلیغ کرتے ہیں اور اس طرح کی اجتماعیت میں شامل ہونے کو اپنے مسلمان ہونے کے لیے بطور دلیل پیش کرتے ہیں۔ اس پر اکابر کے فتاویٰ موجود ہیں۔ ان گزشتہ فیصلوں کی موجودگی میں جب بھی کوئی نیا فیصلہ لینا ہو تو گزشتہ فیصلوں کا جائزہ ضرور لیا جائے تا کہ اختلافی صورتحال پیدا نہ ہو سکے۔ مولانا زاہد الراشدی صاحب کی جانب سے منافقین کی جومثال پیش کی گئی تھی اس کے جواب میں محمد یونس صاحب لکھتے ہیں کہ "ان کے متعلق جب کفر کا حکم نازل ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے انہیں صرف کافر ہی سمجھا۔ لیکن جب ترک مراسم کا حکم نازل ہوا تو انہیں اپنی مجالس سے نکال باہر کیا۔ اس سے ہم یہ استدلال کر سکتے ہیں کہ اہل تشیع کے متعلق پہلے محض کفر کا فتویٰ آیا تھا لیکن اب جب کہ ان کے عقائد مزید واضح ہوئے اور کفر کی خاص قسم زندقہ کا فتویٰ آیا تو ان سے کھلم کھلا برأت کا اعلان کرنا چاہیے۔
محمد یونس صاحب کی ان نگارشات کے جواب میں "الشریعہ” کے مئی کے جریدے میں زاہد الراشدی صاحب نے لکھا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے طرز عمل سے یہ درس ملتا ہے کہ منافقین کو الگ تشخص قائم نہ کرنے دیا جائے اور انہیں اپنے ساتھ ساری سرگرمیوں میں شریک رکھا جائے اور ان کے شر سے بچنے کی تدبیر کے ساتھ ساتھ اصلاح کا عمل جاری رکھا جائے۔ اسی حکیمانہ پالیسی کا نتیجہ تھا کہ وہ منافق جن کی تعداد غزوۂ احد کے موقع پر تین سو تھی اپنا الگ تشخص اور مورچہ قائم نہ کرسکنے کی وجہ سے آہستہ آہستہ مسلم معاشرے میں تحلیل ہو گئے اور جنگ یمامہ اور مرتدین کے خلاف جہاد کے بعد ان کا اکا دکا نشان بھی تاریخ میں نہیں ملتا۔ محمد یونس صاحب نے فتووں کا ذکر کیا ہے ۔ میری رائے یہ ہے کہ یہ معاملہ فتویٰ کے دائرے کا نہیں بلکہ معاشرتی اور قومی ضروریات کے دائرے کا ہے۔ محمد یونس صاحب نےدار العلوم کے فتوے کا ذکر کیا ہے لیکن بھارت میں مسلمانوں کے خاندانی شرعی قوانین کے تحفظ کے لیے ” آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ” کے نام سے جو فورم کام کر رہا ہے اس میں اہل تشیع بھی شامل ہیں۔ کیا حرمین شریفین میں اہل تشیع کو مسلمانوں کے ساتھ نمازوں ، حج اور دیگر عبادات میں شریک ہونے سے روکنے کے لیے کوئی قدم اٹھایا گیا؟۔ اکابر اور ان کی آراء ہمارے لیے قابل احترام ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ علماء کا اجتماعی تعامل کیا ہے؟ عملی پالیسی کیا ہے۔ اگر ہم شخصی آراء اور اجماعی تعامل میں فرق محسوس کرتے ہوئے اپنے معروضی حقائق اور ملی ضروریات کا سامنا کرنے کا حوصلہ پیدا کر سکیں تو اکابر کے عملی فیصلوں کی حکمتوں کو سمجھنا مشکل نہیں ہو گا[17]۔
"الشریعہ” ہی میں ایک مضمون اور شائع ہوا ہے جس میں مضمون نگار مولانا محمد وارث مظہری[18] رقم طراز ہیں کہ شیعہ سنی اختلاف بنیادی طور پر مسلمانوں کی داخلی سیاسی کشمکش کی پیداوار ہے ۔ لیکن اب یہ اتنی سنگین کشمکش کی شکل اختیار کر چکا ہے جس کی زد میں آکر نہ جانے کتنی قیمتی جانیں اور نہ جانے کتنے مال و اسباب ضائع ہو چکے ہیں۔ اس وقت شیعہ سنی مفاہمت کو ایک دینی و ملی ضرورت کے طور پر آگے بڑھانا وقت کا تقاضا ہے جس کا مقصد تصحیح فکر و نظر کے ساتھ اسلامک ایکٹوزم کو زیادہ نتیجہ خیز بنانا ہے۔ اس حوالے سے حسن ظن، سماجی سطح پر اشتراک عمل، اشتعال انگیز باتوں سے احتراز، ایک دوسرے کو اصل ماخذ کی روشنی میں سمجھنے کی ضرورت جیسے چند بنیادی نکات ہیں جن کو پیش نظر رکھ کر بہتر نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں[19]۔
جواب دیں