مباحث، جولائی ۲۰۱۱ ء
طالبان سے امریکہ کے مذاکرات
افغانستان میں برسر پیکار طالبان کے ساتھ امریکہ کے مذاکرات کے حوالے سے پہلے خبریں ایک عرصہ سے گردش میں تھیں لیکن کسی جانب سے تصدیق دیکھنے میں نہیں آ رہی تھی۔ اب امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے اس بات کی تصدیق کر دی ہے کہ امریکہ طالبان کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ میں پہلے طالبان اور القاعدہ پر پابندیاں لگانے کے حوالے سے ایک ہی کمیٹی تھی، اب وہاں پر بھی طالبان اور القاعدہ کے لیے علاحدہ علاحدہ کمیٹیاں تشکیل دے دی گئی ہیں۔
اس حوالے سے صرف "ضرب مؤمن” نے اداریہ تحریر کیا ہے۔ جریدہ لکھتا ہے کہ کہنے کو تو مغربی دنیا مہذب، پیشہ ورانہ صلاحیتوں سے لیس، منظم منصوبہ بندی کی ماہر اور دور اندیش ہے ۔ نیز انسانی حقوق، عورتوں کی آزادی اور قانون کی بالادستی کے حوالے سے اپنے آپ کو دنیا کا رہنما گردانتی ہے لیکن نائن الیون کے بعد سے اتحادی ممالک نے جو رویہ روا رکھا ہے اس نے تمام تاثرات کی قلعی کھول دی ہے۔ ان مذاکرات کی صورت میں امریکہ اپنی پرانی پالیسی کو بزبانِ حال غلط ماننے پر مجبور ہے لیکن سابق صدر پاکستان پرویز مشرف اب بھی اپنی قوت فیصلہ کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں۔ اور ہمارے حکمران بھی تا حال پرانی پالیسی پر عمل پیرا ہیں اور بدلتے حالات کے ساتھ خود کو بدلنے پر تیار نظر نہیں آتے۔ ہمیں بھی امریکہ کی مذاکراتی کوششوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اب اپنی خارجہ پالیسی کے ہائی جیک شدہ حصے پر نظر ثانی کر کے اصلاح احوال کی کوشش کرنی چاہیے۔ نیر پاکستان کو امریکہ سے پوچھنا چاہیے کہ اگر افغان طالبان کو "دہشت گرد” قرار دیے جانے کے بعد ان سے مذاکرات کرنا درست ہے تو پاکستان کے طالبان کے اس چیز کے اہل کیوں نہیں ؟ جریدہ مزید لکھتا ہے کہ امریکہ کی جانب سے مذاکرات کی تصدیق کے باوجود افغانستان میں طالبان کے حملوں میں شدت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان کی اصل قیادت یا تو مذاکرات میں شامل ہی نہیں یا وہ اسے سرکاری مذاکرات کا رنگ نہیں دینا چاہتے۔ اب امریکہ پسپائی اختیار کر رہا ہے، اور طالبان کے بڑھتے ہوئے حملے اس کی باعزت واپسی کے خواب کو پورا ہونے نہیں دیں گے، اس لیے پاکستان کے لیے وقت ہے کہ اب بھی وہ اس جنگ سے خود کو علیحدہ کر لے اور پسپائی کی بدنامی اور مستقبل میں افغان طالبان کی بد اعتمادی سے بچ جائے[20]۔
جواب دیں