مباحث، جولائی ۲۰۱۱ ء

مباحث، جولائی ۲۰۱۱ ء

واقعہ ایبٹ آباد (۲ مئی ۲۰۱۱ء)

۲ مئی ۲۰۱۱ء کی  رات امریکہ کی جانب سے پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے مبینہ کمپاؤنڈ  پر ہیلی کاپٹر اور کمانڈوز کے ذریعے  کارروائی کی گئی جس کے بعد  امریکی صدر باراک اوبامہ نے  اسامہ بن لادن کے ہلاک ہو جانے کا اعلان کیا اور اسے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک بڑی کامیابی قرار دیا۔ اس خبر کی صداقت تسلیم کرنے میں  نہ صرف مسلم دنیا بلکہ مغرب کے بھی بہت سے تحقیق کاروں اور تجزیہ نگاروں نے نہ صرف تردد کا اظہار کیا بلکہ اسے ایک ڈرامہ قرار دیا۔ جس کی وجہ اس سے قبل کئی بار اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے کیے جانے والے  دعوے ،  کارروائی کی تفصیلات کی عدم فراہمی اور اسامہ بن لادن کے تصاویر کی عدم اشاعت ذکر کی جاتی ہے۔  اس دوماہی کے تمام ہی مکاتب فکر کے دینی جرائد نے اس موضوع کو اپنے ہاں جگہ دی ہے۔ ایک بات اہم ہے کہ اسامہ کا مسلک اگرچہ بہت سوں کے لیے قابل قبول نہیں تاہم اس مسلکی تقسیم نے اس واقعے کے حوالے سے رد عمل کو تقسیم نہیں کیا۔

 "صحیفہ اہلحدیث ” کے سوا تقریباً تمام جرائد نے اس واقعہ کو  امریکا کی جانب سے رچایا گیا ڈرامہ قرار دیا ہے  جس کا مقصد افغانستان سے باعزت واپسی کا راستہ ہموار کرنا اور  پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کرنا ہو سکتا ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا ہے کہ اگر یہ واقعہ سچ ہے تو پھر اس کارروائی کی ویڈیو یا تفصیلات کیوں منظر عام پر نہیں لائی گئیں، اسامہ کی تصاویر کیوں میڈیا میں پیش نہیں کی گئیں؟  اس کی لاش کو اتنی سرعت سے کیوں سمندر برد کیا گیا ؟  بطور خاص اس واقعہ میں ایبٹ آباد جیسے اہم شہر کا انتخاب اور فوج کی ناک کے نیچے آپریشن کرنے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ پاکستانی ایجنسیوں اور سیکیورٹی اداروں کی نا اہلی ثابت کر کے ایٹمی اثاثوں کے غیر محفوظ ہونے کا پروپیگنڈا کرنا  اصل مقصد ہے۔ جرائد نے حکومت اور افواج پاکستان  کے کردار کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور امریکہ سے دوستی اور دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں شرکت سے فوری دست بردار ہو کر ملکی خود مختاری اور سالمیت کے لیے کام کرنے پر زور دیا ہے[1]۔

 شیعہ مکتبہ فکر کے جریدے "افکار العارف” نے اس موقع پر اسامہ کی شخصیت کے حوالے سے بھی اپنے موقف کا اظہار کیا ہے جو دیگر مکاتب فکر کی رائے سے مختلف ہے۔  جریدہ امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے اسامہ بن لادن کو امریکی ایجنٹ قرار دیتا ہے، اور   اس خیال کا  اظہار کرتا ہے کہ امریکہ  جو کام خود نہیں کر سکتا وہ کام آل سعود  کی مدد سے اسامہ بن لادن جیسے لوگوں سے کرواتا ہے۔ نیز پاکستانی حکمرانوں کو مشورہ دیتا ہے کہ "اپنے حقیقی دشمنوں امریکہ، آل سعود اور طالبان کے چنگل سے اپنے آپ کو چھڑاؤ اور اپنے حقیقی دوست ایران سے اپنے تعلقات کو مضبوط بناؤ”[2]۔

"افکار العارف” ہی میں ایک مضمون نگار عبد اللہ کھوکھر رقم طراز ہے کہ اسامہ بن لادن بلا واسطہ سیکڑوں انسانوں کا قاتل اور خدا کے احکامات اور اسوۂ نبی صلی اللہ علیہ و سلم  کی کھلم کھلا مخالفت کرنے والا تھا۔ تو اگر اس کے لیے دعائے مغفرت کرنا اور نماز جنازہ پڑھانا شرعی اعتبار سے جائز ہے تو پھر سلمان تاثیر کا کیا قصور تھا؟ جس کی نماز جنازہ پڑھنے والوں پر فتویٰ بازی کی گئی[3]۔

"ندائے خلافت” میں حافظ عاکف سعید  کا مضمون شائع ہوا ہے ۔ صاحب مضمون  کے خیال میں  نائن الیون کے بعد سب سے بڑا ڈرامہ ۲ مئی کا ہے جو امریکہ نے رچایا ہے۔ اور یہ اپنی نوعیت کا کوئی پہلا ڈرامہ نہیں جس میں کسی واقعہ کا الزام کسی ملک پر لگایا اور بعد میں وہ الزام غلط ثابت ہوا۔  اس سلسلے میں پرل ہاربر کا واقعہ، امریکی جہاز یو ایس لبرٹی پر حملہ، نائن الیون، عراق پر الزام اور اب ۲ مئی کو  ایبٹ آباد کا آپریشن، ان تمام واقعات میں امریکہ نے صرف الزام کی بنیاد پر مختلف ممالک پر حملے کیے لیکن دنیا نے حقائق آشکار ہو جانے کے بعد بھی امریکہ کا بائیکاٹ نہیں کیا بلکہ اندھی ، بہری اور گونگی بنی رہی[4]۔

"الشریعہ” لکھتا ہے کہ مسلسل ڈرون حملوں نے تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کی قومی خودمختاری پر پہلے ہی سوالیہ نشان لگا رکھا تھا مگر شیخ اسامہ بن لادن  شہید کے حوالہ سے "ایبٹ آباد آپریشن” نے اس سوال کے سوالیہ پہلو کو اور زیادہ تاریک کر دیا ہے۔ شیح اسامہ کے ساتھ ہماری قومی خود مختاری بھی شہید ہو گئی ہے۔ مگر حکومتی پالیسوں کے تسلسل میں کوئی فرق نہیں آرہا اور وہ پالیسیاں جنہیں عوام گزشتہ الیکشن میں مسترد کر چکے ہیں اور پارلیمنٹ نے متفقہ قرار داد سے بھی ان پالیسیوں سے بے زاری کا اظہار کر دیا تھا وہ آج تک چل رہی ہیں اور ان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جب تک ان پالیسیوں پر "یو ٹرن” نہیں لیا جاتا تب تک اخباری بیانات اور قراردادیں قوم کے ساتھ مذاق ہے[5]۔

اس واقعے کے پیش منظر کے  ضمن میں "صحیفہ اہلحدیث” نے جو موقف پیش کیا ہے وہ سب سے مختلف ہے۔ جریدہ لکھتا ہے کہ افغانستان میں امریکہ کی آمد کے لیے اسامہ یا طالبان صرف ایک بہانہ تھا جب کہ اس کا اصل مقصد افغانستان اور وسط ایشیا کے معدنی وسائل تک رسائی  اور علاقے میں اپنے قدم جمانا تھا جو کہ کافی حد تک حاصل ہو چکا ہے۔ روس، چین، بھارت اور پاکستان جیسے بڑے ممالک نے بھی شاید یہ سمجھوتہ کر لیا ہے کہ امریکہ کو خطے میں کوئی نہ کوئی کردار دینا ہی پڑے گا ورنہ یہ ہمیشہ درد سر بنا رہے گا۔ سانحہ ایبٹ آبادمیں پاکستان کی عارضی شرمندگی کے بدلے جو کچھ مل سکتا ہے  اس میں افغانستان میں اہم کردار ، بلوچستان میں افغانستان اور بھارت کی مداخلت کا خاتمہ ، بڑی دفاعی امداد اور مسئلہ کشمیر کے حل کی طرف پیش رفت  شامل ہے۔ بھارت  کے لیے کشمیر اور افغانستان میں کسی کردار کے مقابلے میں ہما چل پردیش زیادہ اہم ہے اس لیے وہ اس پر توجہ دے گا۔ چین نے بھی جب سے اوپن مارکیٹ اکانومی کا طریقہ اپنایا ہے اس کی امریکہ اور یورپ سے کشیدگی کم ہو گئی ہے یہی وجہ ہے کہ اب چین کے مقابلے میں بھارت کی زیادہ حمایت نہیں ہو رہی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سب نے سمجھوتہ کر لیا ہے کہ مل کر فوائد سمیٹیں گے۔ جنگ کے بجائے پر امن بقائے باہمی یا مل کر کھانے کے فائدے سے سب آگاہ ہو گئے ہیں اس لیے مذکورہ ممالک کے باہمی تعلقات میں بہتری آ رہی ہے۔

اس پیش منظر کے بعد جریدہ ایبٹ آباد کے واقعے کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ یہ ایک سوچا سمجھا آپریشن لگتا ہے جس میں پاکستان نہ صرف باخبر تھا بلکہ ملوث بھی تھا۔  جو لوگ اسے پاکستانی فوج اور ایجنسیوں کی نا اہلی قرار دیتے ہیں  یا یہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ پاکستان کو گھیرنا چاہتا ہے وہ لوگ یا تو عالمی سیاسی حالات اور مستقبل کی صورتحال سے بے خبر ہیں یا دانستہ طور پر کسی خاص مقصد کے لیے اس طرح کی معلومات پھیلا رہے ہیں۔ ورنہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ امریکہ کا سب سے بڑا دشمن پاکستان کے ایسے حساس علاقے میں موجود ہو اور پھر بھی  امریکی حکومت کہے کہ پاکستان سے تعلقات خراب نہیں ہوں گے، اور یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اتنا جدید ریڈار سسٹم ان ہیلی کاپٹرز کو نہ دیکھ سکے، پاکستان نے افغانستان سے یہ احتجاج تک نہ کیا کہ افغانستان کی زمین ہمارے خلاف استعمال ہوئی، اور  ہیلی کاپٹر افغانستان سے یہاں آ کر اور  ۴۵ منٹ یہاں کارروائی کرنے کے بعد بغیر فیول لیے واپس جا ہی نہیں سکتے۔ ان سب باتوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک مشترکہ اور سوچا سمجھا منصوبہ تھا۔ ورنہ اگر امریکہ کے جاسوسی کے آلات اتنے جدید ہوتے کہ صرف ۴ ماہ میں ایبٹ آباد میں موجود اسامہ کا پتہ لگا لیا تو پچھلے ۱۱ سال  تک یہ کام کیوں نہ ہو سکا[6]۔

واقعہ ایبٹ آباد   کے ضمن میں الشریعہ میں شائع ہونے والے  خورشید ندیم  کے مضمون میں اٹھائے گئے درج ذیل سوالات  بھی قابل ذکر ہیں۔ مضمون نگار لکھتے ہیں کہ  اسامہ رخصت ہوئے، اب ان کا معاملہ ان کے پروردگار کے پاس ہے۔ لیکن وہ ہمارے لیے بہت سے سوال چھوڑ گئے ہیں جن کے جوابات ہمیں تلاش کرنے ہیں؛

عہد حاضر میں اگر مسلمانوں کو وقار کے ساتھ جینا ہے تو اس کی حکمتِ عملی کیا ہونی چاہیے؟

علم کے بغیر، جس کا ایک مظہر سائنس اور ٹیکنالوجی میں مہارت ہے، کیا کوئی معرکہ سر کیا جا سکتا ہے؟

اگر امریکا بطور عالمی قوت ختم ہو جائے تو اس کی کیا ضمانت ہے کہ ہمارے لیے کوئی نیا سامراج وجود میں نہیں آئے گا؟

اس دور میں جارح کے خلاف جنگ کیا محض جذبے کے ساتھ جیتی جا سکتی ہے جب کہ وسائل میں غیر معمولی فرق ہو؟

عسکریت پسندی نے ہمیں کیا دیا؟ مسلمان ملکوں کو مقتل بنانے  میں اس سوچ کا کتنا دخل ہے اور کیا یہ کوئی کامیابی ہے؟

اگر اس مہم جوئی کے نتیجے میں ایک بھی مسلمان بے گناہ مارا گیا تو اس کی جان کا وبال کس کے سر ہے؟ کیا ہمارے پاس کوئی ایسا جواب موجود ہے جو ہم اپنے رب کے حضور پیش کر سکیں؟

کیا ہم کسی دوسری ایسی مزاحمتی تحریک کا تصور کر سکتے ہیں جس کی بنیاد پر مسلمان معاشروں میں تعمیر ہو اور جس میں خسارہ نہ ہونے کے برابر ہو، تاہم اس کے نتیجے میں اغیار کے اثرو رسوخ کا خاتمہ کر سکیں؟ [7]

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے