مباحث، جولائی ۲۰۱۱ ء
پی این ایس مہران پر حملہ
۲۲ مئی ۲۰۱۱ء کو کراچی میں واقع پی این ایس مہران پر کچھ مسلح افراد نے حملہ کر دیا جن کی تعداد کے حوالے سے متضاد بیانات سامنے آتے رہے۔ اس حملے میں نیوی کے دو اہم ترین جہاز پی تھری سی اورین تباہ کر دیے گئے جو نیوی کا اہم ترین دفاعی اثاثہ تھے۔ یہ جہاز کچھ ہی عرصہ قبل امریکہ سے حاصل کیے گئے تھے۔ اس سے قبل بھی کراچی میں نیوی کی بسیں اور تنصیبات نشانے پر رہیں جس کے بعد یہ بڑا واقعہ پیش آیا۔بظاہر تو اس کی ذمہ داری طالبان نے قبول کر لی لیکن ذرائع ابلاغ اور مبصرین کی ایک تعداد اس پر مطمئن نظر نہیں آتی۔
دینی جرائد میں سے اس موضوع کا ذکر صرف تین جرائد کے ہاں ملتا ہے ۔ جرائد نے اس واقعے کی سخت مذمت کی ہے اور اسے طالبان کے بجائے بیرونی عناصر کی کارروائی قرار دیا ۔ جرائد کے خیال میں یہ اس دوستی کا شاخسانہ ہے جس کا ہم دم بھرتے ہیں اور یہود و نصاریٰ اور ہنود اس کی آڑ میں ہمارے پیٹھ میں چھرا گھونپتے ہیں۔سانحہ ایبٹ آباد کے متصل بعد کراچی میں اس حملے کے ذریعے وہ اپنے اس موقف کو تقویت دینا چاہتے ہیں کہ پاکستانی ادارے اگر اپنی حفاظت نہیں کر سکتے تو اپنے ایٹمی اثاثوں کی کیا حفاظت کریں گے۔
"الخیر” سوال کرتا ہے کہ اگر طالبان کے پاس اس قدر بیش قیمت اور جدید ٹیکنالوجی موجود ہے تو اب تک افغانستان سے امریکہ کو کیوں نہ نکال سکے؟ یہ کارروائی ان دہشت گردوں کی ہے جن کے تعلقات اور روابط امریکی کنٹریکٹ ایجنسیوں کے ساتھ ہیں۔ ان ایجنسیوں کی پاکستان میں آمد کے بعد دہشت گردی کے نئے رجحانات نے جنم لیا ہے اور پاکستانی سیکیورٹی اداروں کو منظم انداز میں نشانا بنایا جا رہا ہے۔
"الاعتصام” لکھتا ہے کہ اس واقعے کی تفتیش میں یہ دیکھنا بہت ضروری ہے کہ ان جہازوں کی تباہی سے زیادہ فائدہ کس کو ہو سکتا ہے۔ سب سے پہلے اہم جہازوں کی تباہی اور پھر بیس میں موجود چینی انجینئرز تک پہنچنے کی کوشش اور امریکی کارندوں سے صرف نظر یہ ساری باتیں واضح کرتی ہیں کہ امریکی ہاتھ کے ملوث ہونے کے امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ بھارت اور امریکہ کے ملوث ہونے کی ایک وجہ سمندر سے نمودار ہونے والا وہ زمین کا ٹکڑا بھی ہو سکتا ہے جو قدرتی ذخائر سے مالا مال ہے اور جس پر امریکہ اور بھارت دونوں کی للچائی ہوئی نظر بھی ہے۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ بھارت میں اگر بلی کو چھینک بھی آجائے تو وہ پاکستان پر الزام لگانے میں کسی تامل کا مظاہرہ نہیں کرتا، لیکن ہمارے حکمران ، سوائے مرحوم ضیاء الحق کے، ثبوت و شواہد کے باوجود بھارت کا نام لیتے ہوئے شرماتے ہیں۔
"ندائے خلافت” میں ایک مضمون شائع ہو ا ہے جس میں مضمون نگار لکھتا ہے کہ حملہ آوروں کی جس مہارت کا ذکر نیوی کے ترجمان نے کیا ہے اس کا مظاہرہ صرف اور صرف امریکی کمانڈوز اور بلیک واٹر کے دہشت گرد ہی کر سکتے ہیں۔ اس لیے دہشت گردی کی اس فضا پر قابو پانے کے لیے شمسی ایئر بیس پر موجود امریکی فوجیوں اور ملک کے کونے کونے میں پھیلے ہوئے لا تعداد "ریمنڈ ڈیوسوں” کی مشکوک سرگرمیوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے[8]۔
جواب دیں