مباحث، نومبر ۲۰۱۱ ء
پاکستان کے خلاف امریکی دھمکی اور کل جماعتی کانفرنس
حال ہی میں ریٹائر ہونے والے امریکہ کے چیئر مین جوائنٹ چیف آف اسٹاف ایڈمرل مائیک مولن کی جانب سے ریٹائرمنٹ سے کچھ وقت قبل پاکستان پر لگائے جانے والے الزامات اور افغانستان میں سابق صدر برہان الدین ربانی کے قتل کے بعد امریکہ کی جانب سے پاکستان پر دہشت گردوں سے روابط کے الزامات میں شدت آ گئی۔۲۰ ستمبر ۲۰۱۱ء کو سابق افغان صدر اور حکومت افغانستان کی امن کونسل کے سربراہ برہان الدین ربانی کے قتل کے بعد افغان وزیر داخلہ نے اس قتل میں پاکستان کے ملوث ہونے کا الزام لگایا۔ اس کے بعد افغان حکومت اور امریکہ کی جانب سے پاکستان پر دباؤ بڑھنا شروع ہو گیا، پھر اکتوبر میں امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے اپنے دورہ افغانستان و پاکستان کے موقع پر بھی پاکستان پر دباؤ ڈالا کہ وہ حقانی نیٹ ورک اور دوسرے دہشت گرد گروہوں کے خلاف شمالی وزیر ستان میں کارروائی کرے۔ اور اگر پاکستان کارروائی نہیں کرتا تو اسے سخت نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ پاکستان پر بڑھتے ہوئے اس مسلسل دباؤ کے پیش نظر وزیر اعظم پاکستان نے کل جماعتی کانفرنس بلانے کا فیصلہ کیا جس کا تمام ہی جماعتوں نے خیر مقدم کیا۔
دینی جرائد نے اس موقع پر سیاسی جماعتوں، افواج اور علماء کرام و عوام پاکستان کی جانب سے تحفظ وطن کی خاطر قومی یکجہتی کے مظاہرے کوخوش آئند کہا ہے۔ اس موقع پر وزیر اعظم گیلانی کی جانب سے کل جماعتی کانفرنس بلانے اور افواج پاکستان کے سربراہ کی جانب سے دورہ برطانیہ کو منسوخ کر کے کور کمانڈرز کا اجلاس بلانے اور دفاع وطن کے لیے ہر قدم اٹھانے کا اظہار کرنے کو بھی جرائد نے سراہا ہے لیکن اس بات کا بھی اظہار کیا ہے کہ ہماری تاریخ بتاتی ہے کہ اس طرح کی کانفرنسیں کبھی اچھے نتائج برآمد نہیں کر سکیں اور اس بار پھر کچھ زیادہ امید نہیں۔ نیز حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ اب تو حقائق واضح ہو گئے ہیں کہ یہ جنگ ہماری نہیں اس لیے اب اس سے جان چھڑا لی جائے۔ امریکی انتظامیہ کی جانب سے پاکستان کے خلاف دھمکیوں پر جرائد کی رائے یہ ہے کہ امریکہ افغانستان میں اپنی ناکامی کا سارا ملبہ اب پاکستان پر ڈال کر اپنی خفت مٹانا چاہتا ہے۔ جبکہ العصر نے اس موقع پر پاکستانی رد عمل کے بارے میں کہا ہے کہ "یہ بھی امریکہ کے بنائے ہوئے منصوبے کا حصہ معلوم ہوتا ہے”۔
"ضرب مؤمن” لکھتا ہے کہ جس طرح ویت نام کی جنگ میں شکست کے بعد امریکہ نے کمبوڈیا کو دھمکیاں دینا شروع کر دی تھیں بالکل ویسے ہی اب افغانستان میں شکست کے بعد پاکستان کو دھمکانا شروع کر دیا ہے [6] ۔
دیوبندی مکتبہ فکر کا "العصر” لکھتا ہے کہ امریکہ پاکستان کے خلاف جو منصوبہ بنا چکا ہے اس پر عمل کرنے کے لیے ایسے بیانات اور پھر ان پر ایسا رد عمل ضروری ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی کل جماعتی کانفرنس کی قرار داد ابھی پوری ہی نہیں ہوئی تھی کہ بھارت اور افغانستان میں اسٹریٹجک معاہدے کی راہ ہموار کر لی گئی۔” کیا یہ حقیقت نہیں کہ زرداری کو منصب صدارت دلانا اور جنرل کیانی کو تین سال کی مہلت دینا امریکہ کی کرم نوازی ہے بلکہ موجودہ حکومت کا مشرف کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے ملک کے بڑے مجرم کو ملک سے باہر بھیج کر خود اقتدار پر براجمان ہونا سب کچھ امریکہ کی مہربانی سے ہوا ہے۔ شاید امریکہ کو اپنے ملک کے کسی علاقے میں اتنا اختیار نہیں جتنا ہم نے اپنے ملک میں اسے دے رکھا ہے”۔ اور حقانی نیٹ ورک سے آئی ایس آئی کے خفیہ تعلقات کے امریکی الزام کے بارے میں جریدہ لکھتا ہے کہ ” وہ (امریکی) ہمارے محارم میں سے ہےاس لیے وہ سب کچھ جانتا ہے ، ایسے میں حقانی نیٹ ورک یا کسی اور گروہ سے پاکستان کے خفیہ تعلق کی بات مضحکہ خیز ہے۔ کیوں کہ اگر یہ حقیقت ہے تو پھر یہ تعلقات خفیہ نہیں بلکہ امریکہ کے علم میں ضرور ہوں گے”[7] ۔
"اہلحدیث” لکھتا ہے کہ اس موقع پر ہونے والا اتحاد کا مظاہرہ بہت اہم تھا لیکن یہ صرف مشکل وقت میں نہ ہو بلکہ امن و امان کی حالت میں بھی قومی یکجہتی اور اتحاد کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس موقع پر اے پی سی کا انعقاد اہم تھا لیکن اب ضرورت ہے کہ امریکہ سے اتحاد اور اس سے ہونے والے خفیہ اور اعلانیہ تمام معاہدات کو قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے اور کوئی متفقہ لائحہ عمل بھی طے کیا جائے [8] ۔
شیعہ جریدہ "العارف” اے پی سی کو ایک مثبت قدم قرار دیتا ہے لیکن ساتھ ہی یہ لکھتا ہے کہ اس کے کسی مثبت نتیجے کے حوالے سے عوام کو یقینا کوئی امید نہیں تھی۔ اور عوام کا خیال درست ثابت ہوا کیوں کہ کوئی ایسی نئی بات یا حکمت عملی یا مشترک اعلامیہ سامنے نہیں آیا جو ہمیں ان حالات سے نکالنے میں مدد دے سکے۔ نیز یہ بات ہمیں جان لینی چاہیے کہ امریکہ اور طالبان ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اور ہمیں ان سے جان چھڑا لینی چاہیے اور اسلامی جمہوریہ ایران کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانا چاہیے، اس طرح ہم اپنے مسائل حل کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں[9]۔
"ندائے خلافت” اے پی سی پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ اعلامیہ کے چار نکات اہم ہیں، امن کو موقع دو، ایڈ نہیں ٹریڈ، پاکستان کی خود مختاری پر سمجھوتا نہیں ہوگا اور پارلیمانی کمیٹی کا قیام جو تمام قراردادوں پر عمل درآمد کی نگرانی کرے گی۔ اگر نیک نیتی سے صرف ان پر ہی عمل شروع کر دیا جائے تو یہ کانفرنس کامیاب ہی نہیں انتہائی کامیاب قرار دی جا سکتی ہے لیکن ہماری تاریخ بتاتی ہے کہ اس طرح کی کانفرنسیں نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوتیں[10]۔
جواب دیں