مباحث، نومبر ۲۰۱۱ ء
ڈینگی اور سیلاب
گزشتہ کچھ عرصہ سے پاکستان پر قدرتی آفات ایک تسلسل کے ساتھ آ رہی ہیں۔ خاص طور پر اس سال ستمبر میں سندھ میں شدید بارشوں اور سیلاب کے تباہ کن اثرات اور لاہور اور گرد و نواح کے علاقوں میں ڈینگی مچھر سے پھیلنے والی مہلک بیماری اور اس کے خوف نے چند ماہ سے عوام کو سخت آزمائش میں ڈالا ہوا ہے۔سندھ میں سیلاب نے ہزاروں ایکٹر پر محیط زرعی اراضی کو تہہ آب کر دیا، گھر مسمار ہو گئے اور لوگ کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے۔ ایک اندازے کے مطابق متاثر ہونے والے افراد کی تعداد ۸۰ لاکھ سے متجاوز ہے۔ ادھر لاہور میں ڈینگی بخار کے باعث سینکڑوں اموات واقع ہوئیں، حکومت پنجاب کی جانب سے بھرپور کوششوں کے باوجود اب تک بھی اکا دکا واقعات ذرائع ابلاغ میں آ رہے ہیں۔ اس موضوع کو بیشتر جرائد نے اپنے ہاں جگہ دی ہے اور لکھا ہے کہ اسے صرف حکومت اور انتظامی ناکامی کہہ کر حکومت کو کوسنے اور اس کے خلاف احتجاج کرنا مسئلے کا اصل حل نہیں۔ بلکہ ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ یہ صرف موسمی اثرات نہیں بلکہ ہمارے اعمال کے نتیجے میں اللہ کا عذاب ہے۔ ہمیں من حیث القوم اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے توبہ کرنی ہو گی اور توبہ کا اہتمام کرنا ہو گا۔
"ندائے خلافت” لکھتا ہے کہ اسے عذاب کہنے سے اگرچہ سیکولر عناصر کو کرنٹ لگتا ہے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ ڈینگی لاہور سے کوئی تین سو کلو میٹر دور راولپنڈی میں تو متاثر کرتا ہے لیکن لاہور سے صرف چند کلو میٹر واہاگہ بارڈر کے اس پار کیوں کوئی ایک بھی کیس سامنے نہیں آتا؟ اور حالیہ تباہی جو پانی کی وجہ سے آئی ہے اس کا سبب سیلاب نہیں بلکہ بارش ہے۔ کیوں کہ سیلاب کا رخ موڑ کر وڈیرے اپنی زمینیں بچا لیتے تھے لیکن بارش سے نہ بچا سکے۔ خیبر پختون خواہ بارود کا ڈھیر بنا ہوا ہے، بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ عروج پر ہے، اور ہماری افواج اپنوں کے خلاف "جہاد” کر رہی ہیں۔ اگر یہ سب سچ ہے تو پھر اسے ہم عذاب الٰہی نہ کہیں تو پھر کیا کہیں؟ ہمیں قوم عاد کا نہیں بلکہ قوم یونس کا طرز عمل اپنانا ہو گا[15] ۔
"الخیر”، "ختم نبوت” اور "الاعتصام” نے بھی لکھا ہے کہ ڈینگی وائرس، سیلاب، بارشیں، حکمرانوں کا جبر، بیرونی دھمکیاں، اشیاء کی قیمتوں میں گرانی یہ سب ہماری دین سے دوری اور اللہ کی نافرمانی کا نتیجہ ہے۔ اس لیے ہمیں دنیاوی اسباب میں بہتری لانے کی کوشش کےساتھ ساتھ اپنے رب سے رجوع بھی کرنا ہوگا تا کہ اللہ کی رحمتیں اور برکتیں جو ہم سے روٹھ گئی ہیں ہم ایک بار پھر اس کے مستحق قرار پائیں اور ہمارے حالات بدلیں [16]۔
جواب دیں